مان لیں کہ آپ ایک مملکت ہیں، آپ کی بھی ایک فوج ہے، جسے آپ عام طور پر قوت مدافعت کہتے ہیں، یہ فوج آپ کے سیلز، آپ کے خون کی حفاظت کرتے ہیں، خون کو جراثیم زدہ ہونے سے بچاتے ہیں۔ اور اگر یہ فوج ناکارہ ہوجائے تو آپ بیمار پڑنے لگتے ہیں، اور جب ادویات کا استعمال کرتے ہیں تو بیشتر ادویات اسی فوج کو فعال بناکر بیماری پھیلانے والے بیکٹیریا سے لڑنے کے قابل بناتے ہیں۔
ایسے ہی انسان میں نظریات، عقائد، سوچ، فکر، خیالات، شعور، لاشعور ہوتے ہیں۔ یہ سوچ بچار وقت کے ساتھ پختہ ہونے لگتی ہے، وقت عمر بڑھاتا ہے اور عمر خیالات کی آبیاری کرتی ہے، تجربے سکھاتے ہیں، الف بے پے، اے بی سی کی کلاسز سے نکل کر گاڑیوں، بسوں کے دھکے یا لگژری گاڑیوں کی روانی، اونچے بنگلوں یا کچی بستیوں کی چھاپ، بڑے مالز کی خریداری یا چھوٹے کریانے کی خواری ۔ سب تجربے ہیں اور ان خیالات کی نرسریاں ہیں۔ مساجد ہی نہیں، گھر، ٹی وی، اخبارات سب ہی عقائد پروان چڑھا رہے ہیں۔ پہلا درجہ کسی بھی خیال یا عقیدے کا ہونا، دوسرا درجہ اس کی شدت یا حدت۔ یہ خیال اور عقائد زندگی کے تجربات پر منحصر ہیں۔ خیالات اور عقائد کی حفاظت کے لئے بھی انسان میں ایک فوج موجود ہوتی ہے، اسے بھی قوت مدافعت کہا جاسکتا ہے۔ کسی بھی خیال یا اعتقاد جو ہمارے خیالات سے متضاد ہو یہی فوج مقابلہ کرتی ہے، جیسے ہی ہم کوئی بات اپنے نظریے کے خلاف سنتے ہیں فورا سے ایک فوج کھڑی ہوجاتی ہے۔
یہ فوج ہمارے نظریات کا دفاع شروع کرتی ہے۔ اور ہم حد سے گزرتے جاتے ہیں۔ اپنی سوچ و نظریے کو سچ کہنے اور دوسرے کو غلط کہنے ۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے جس پر ہمارا نظام دفاع حرکت میں فورا نہ آئے یا شدت سے نہ آئے ہم اس نظریے کو اپنی حد تک ہی سہی، کمزور کہہ سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لیں تو ایک سوال اور جنم لیتا ہے، کہ ہم ایک سیاسی معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں، شاید انفرادی طور پر ہر شخص اور اجتماعی طور پر ہرکوئی قوت مدافعت میں اپنے انفرادی اور اجتماعی نظریات کی راکھی بیٹھا ہے۔ سیاسی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاست ہی واحد موضوع ہے جس پر ہر شخص بولتا ہے، بے دریغ بولتا ہے۔ سوشل میڈیا، حجام کی دکان، گلی کے تھڑے، ہوٹل کی میز، دفتر، گھر، افطار پارٹی، ڈنر، سحری، ناشتہ، کھانا ہر جگہ آپ کو سیاسی تجزیہ کار بیٹھے ہیں۔ جو بولیں گے، اور آپ اپنے نظریات اور عقائد کی بنیاد پر اپنی فوج کے تابع اپنے نظریات کا دفاع کرنے پر تلے رہیں گے۔
اپنے نظریات جو عمر کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں، انہی خیالات کے پیش نظر اپنا لیڈر چن لیا جاتاہے، جماعت بھی، اور پھر وہ چاہے لیڈر کوئی بھی ہو، اس کا دفاع کرنا یہاں عین فریضہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم ہمیشہ سے حق اور باطل کو دیکھنے کے شوقین ہیں۔ سیاست ہو یا کھیل کا میدان ہم معرکہ حق اور باطل کے درمیان ہی سمجھتے ہیں۔ دو مسلمان ایک سیاسی یا تفریحی یا سماجی سرگرمی میں ایک دوسرے کے مقابل ہیں تو یہ حق اور باطل کیسے ہورہا؟ ایک بہتر دوسرا غیر مناسب کیوں نہیں ہوتا ۔ لیکن ہمیں دفاع کرنا ہی ہے تو نظریات کا کریں، مادہ پرستی یوں ہی پروان چڑھتی ہے جب شخصیات کا دفاع کریں، خیالات اور نظریات کا نہیں۔ خان، شریف، بھٹو اسی وجہ سے معتبر ترین ہیں کیونکہ ہمارے نظریات عوام اپنے بجائے چند خواص میں تلاش کرتی ہے۔
وہ نظریات کا دفاع تو کرسکتی ہے لیکن اسے فروغ کے لئے کسی سہارے کی ضرورت ہے جو وہ ان خواص سے چاہتی ہے، جن کے پاس وہ اہلیت ہو نا ہو، خوب گوئی ضرور ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جادوگر زبانی جمع خرچ یا مختلف حربوں سے دل دادہ تو بنا سکتے ہیں لیکن یہ عوام میں سے نہیں، کیونکہ بیماری کے باعث بھوکے رہنے سے فاقوں کا تاثر نہیں دیا جاسکتا۔ بیٹی کی شادی لندن برطانیہ میں کرکے سادگی کا تاثر نہیں دیا جاسکتا، اپنی بڑی گاڑی میں بیٹھ کر غریب کی سواری کو برا تو کہا جاسکتا ہے غریب کے لئے مشکل مکمل حل نہیں کی جاسکتی ۔ کیونکہ سیاست کے میدان میں بالمقابل تمام سیاستدان ایک ہی فرقے سے ہیں جسے ہم خواص کہتے ہیں، یہ خواص یا سب حق یا سب باطل ہیں، ان میں تفریق نہیں ہوسکتی، کیونکہ وہ کہتے ہیں “مجاں مجاں دیاں پیڑاں ہوندیاں نے” (بھینسیں سب بہنیں ہوتی ہیں)