ہم عصر کی تعریف ذرا مشکل ہوتی ہے۔ چشمک کا پہلو موجود نہیں ہو تب بھی خود رائی آڑے آتی ہے۔ آج مگر ایک جملہ اپنے کالم میں حامد میر نے ایسا لکھ دیا کہ تعریف کئے بن چارہ نہیں۔ انشا اللہ خان نے کہا تھا، اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا۔ حامد میر تو خالص پنجابی نہیں، کشمیری نژاد ہیں مگر کیا کیجئے، ہمارے سب دریا کشمیر سے نکلے ہیں۔ پنجاب کی مٹی کشمیر کے چشموں سے سیراب ہوئی ہے۔ اہل پنجاب نے احسان مند طبع پائی ہے۔ حامد میر نے لکھا ہے ’آزادی اظہار پر پابندیاں ہی اصل ففتھ جنریشن وار ہے کیونکہ یہ پابندیاں وہ حالات پیدا کرتی ہیں جن سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے‘۔ یہ وہ سچ ہے جو عشروں سے غور و فکر کرنے والے کے قلم پر ایک صبح یوں بن بتائے اترتا ہے جیسے اندھیری رات میں بجلی کی چمک سے راستہ روشن ہو جائے۔ ہماری صحافت پر جو پیغمبری وقت پڑا ہے، آج اس کے کیف و کم پر بات کرنا ہے مگر رکئے، ایک سوال اس سے بھی زیادہ بنیادی ہے اور اس کے لئے مجھے آپ کو دسمبر 1982کی ایک شام یاد دلانا ہو گی۔
5دسمبر کو روشن آرا بیگم کا انتقال ہوا تھا۔ وسط دسمبر کی ایک شام لاہور کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ملکہ موسیقی کے لئے تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ فیض صاحب صدر مجلس تھے۔ موسیقی کے گیانیوں نے بات کی، روشن آرا کے مداحوں نے عقیدت کے پھول نچھاور کئے اور کیوں نہ ہوتا، خیال کی تان تعزیت میں تھی۔ ٹھمری کے سُر ٹھٹھر کر رہ گئے تھے، تانپورے کے تار بے ترتیب ہو گئے تھے۔ فیض صاحب نے اس شام ثقافت، علم اور تمدن کے ناتے کچھ دو ٹوک باتیں کیں۔ معذرت چاہتا ہوں۔ ڈیڑھ بات روشن آرا بیگم کے تعارف میں کہنا پڑے گی۔ یوں سورج کو تعارف کی کیا حاجت لیکن ہمارے ملک میں اب کوئی سولہ کروڑ افراد ایسے ہیں جو 1982کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
وحید النسا بیگم نے 1915میں کلکتہ کے ایک موسیقی شناس گھرانے میں آنکھ کھولی۔ دیوہ شریف کے حافظ عبدالکریم المعروف حافظ پیاری نے کم سن وحید النسا کی تلاوت سن کر اسے روشن آرا کا نام دیا تھا۔ گائیکی کی تعلیم کے اعلیٰ مدارج استاد عبدالکریم خان کے سائے میں طے کئے۔ استاد کی وفات کے بعد کیرانہ گھرانے کے ورثے کی امانت روشن آرا نے اٹھائی۔ دہلی میں تھیں کہ پنجاب کے ایک پولیس افسر احمد خان سے شادی ہو گئی۔ 1948میں احمد خان اپنے آبائی قصبے لالہ موسیٰ اٹھ آئے۔ ایک تو کور دیہہ، دوسرے ڈھلتی عمر میں احمد خان خفقانی ہو گئے تھے۔ روشن آرا کے گانے پر پابندی لگا دی۔ دس برس کی اس جبری گمنامی میں دھوپ ڈھل گئی۔ پاکستان میں روشن آرا بیگم نے پہلی بار 1958میں رونمائی دی۔ حیات احمد خان انہیں موسیقی کانفرنس میں لے آئے۔ کچھ توجہ پاکستان ٹیلی وژن نے دی۔ وہبی جوہر کی جوت سلامت تھی، پذیرائی ملی مگر وہ دس برس لوٹ کر نہیں آئے۔
فیض صاحب نے اس شام فرمایا کہ روشن آرا گانے کے لئے پیدا ہوئی تھی، ہم نے اسے بھینسیں نہلانے پر لگا دیا اور پھر اسی سے سوال اٹھایا کہ ہمیں روشن آرا بیگم کی ضرورت تھی بھی یا نہیں؟ کیا ہم ثقافت، فنون عالیہ، تہذیب و تمدن کے مستحق بھی ہیں یا نہیں؟ فیض صاحب کے سوالات ابھی تشنہ جواب ہیں۔ اس میں یہ اضافہ بھی کیجئے کہ ہمیں انسانی حقوق، شخصی آزادیوں اور احترام فرد کی معنویت معلوم ہے؟ کیا ہم نے قوم کی تعمیر میں جمہوریت کا کردار سمجھ لیا ہے؟ نیز یہ کہ کیا حقیقی صحافت کے بغیر جمہوریت پنپ سکتی ہے؟
پاکستان میں صرف ایک رہنما ایسا گزرا ہے جو صحافت کی آزادی پر پختہ یقین رکھتا تھا۔ تاریخ اسے محمد علی جناح کے نام سے یاد کرتی ہے۔ بابائے قوم کی وفات کے بعد 1949کے برس میں ہم نے قرارداد مقاصد کی شکل میں ایک کاری ضرب جمہوریت پر لگائی اور دوسری طرف سول اینڈ ملٹری گزٹ پر پابندی لگا کے صحافت پر کلہاڑا چلایا۔ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ جن اخبارات نے 75برس پرانے سول اینڈ ملٹری گزٹ کی بیخ کنی میں ہاتھ بٹایا، انہیں یکے بعد دیگرے اس انجام سے گزرنا پڑا۔ کبھی پاکستان ٹائمز اور امروز پر قبضہ ہوا، کبھی ڈان کا مدیر گرفتار کیا گیا۔ کبھی جسارت کی اشاعت روکی گئی تو کبھی نوائے وقت کے اشتہارات بند کئے گئے۔ صحافت گوشہ عافیت نہیں۔ صحافی اقتدار کے کھیل میں فریق نہیں لیکن قوم اور جمہور کے مفاد سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ ملکہ ترنم نور جہاں کو کسی نے بتایا کہ فیض صاحب کو جیل میں شعر کہنے سے روک دیا جاتا تھا۔
نور جہاں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا یہ تو ایسا ہی ہے جیسے مجھے گانے سے روک دیا جائے۔ فنکار اظہار کی موت کا دکھ سمجھتا ہے۔ مصور کا موقلم ہو یا ادیب کا قلم، صحافی کی خبر ہو یا سیاستدان کا موقف، اجتماعی ذمہ داری جزوقتی پیشہ نہیں۔ آج کی دنیا اظہار کے نئے نئے راستے دریافت کر رہی ہے لیکن ہم خبر سے خوفزدہ ہیں، ادب کو ہم نے عضو معطل بنا ڈالا۔ فنون عالیہ کی کونپل کو مسل ڈالا، سیاست کو بے وقعت کر دیا اور اب ففتھ جنریشن وار فیئر کے نام پر صحافت کے لاگو ہو رہے ہیں۔ اس کا نسخہ آسان ہے۔ ہم نے صحافت سے صحافی کو بے دخل کر دیا۔ اگر خبر کا فیصلہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے مالکان کو کرنا ہے تو صحافت بیوہ ماں کا سوتیلا بچہ بن کر رہ جائے گی۔
صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیمیں فعال نہیں۔ صحافت کے برہمن قبیلے کا قلم کے مزدور طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔ ممکن ہے کچھ صحافتی ادارے غیر پیشہ ورانہ مفادات کی آبیاری کے لئے باقی رکھے جائیں لیکن وہ خبر نہیں دے سکیں گے۔ معیشت کی ترقی اور سیاست کے استحکام میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ صحافت کی افادیت اس کی ساکھ سے طے پاتی ہے، پابند صحافت ساکھ نہیں رکھتی اس لئے ملک و قوم کے کسی کام نہیں آ سکتی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ صحافت کو سدھائے ہوئے بیل کی طرح بتائی ہوئی لکیر پر چلایا جا سکتا ہے تو اسے جاننا چاہئے کہ روشن آرا بیگم کا تان پورہ آج تک خاموش ہے، شاکر علی جو تصویر ادھوری چھوڑ گیا تھا، وہ مکمل نہیں ہو سکی۔ صحافت ہمارا آخری تمدنی مورچہ ہے، اگر اسے تباہ کر دیا گیا تو نثار عثمانی کے قلم کی روشنائی ہمیشہ کے لئے خشک ہو جائے گی۔ پچھلے دنوں کسی نے بجا طور پر 1971کی المناک صحافت کا ذکر کیا تھا۔ المیے کو دہراتے رہنا دانشمندی نہیں۔