آئی ایم ایف اور اس کا پاکستانی معیشت پر اثر ، یہ موضوع آج کل خبروں اور تبصروں میں خوب گرم ہے – مگر بدقسمتی سے ہو وہی رہا ہے جو ہمارے ٹی وی پروگرامز اور روایتی مکالمہ کا خاصہ ہے – موضوع معیشت ہے مگر تبصروں میں گرم ہمارے آل راؤنڈر قسم کے ماہر صحافی رپورٹر حضرات ہیں – معیشت کو اکنامکس کی نظر سے دیکھنے کا رواج پاکستان میں نہیں –
پاکستانی معیشت کے طالب علموں اور اساتذہ میں سے شاید ہی کوئی ایسا بندہ/ی ہو گا/گی جو یہ کہے کہ پاکستانی معیشت کو اس وقت سٹرکچرل ریفارمز کی اشد ضرورت نہیں – سب مانتے ہیں کہ اس وقت ریفارم انتہائی ضروری ہیں – مگر اس پر بھی سب اتفاق کریں گے کہ پاکستان میں اکنامک ریفارم دو دہائیوں میں زیادہ تر صرف اس وقت ہی ہوئے ہیں جب آئی ایم ایف کا دباؤ تھا – یعنی آئی ایم ایف ہی تھوڑے بہت جو سٹرکچرل ریفارم ہوئے ہیں کا بنیادی سبب ہے –
دوسری بات پر بھی تقریبا سب معیشت دان اتفاق کریں گے کہ پاکستانی حکومت کے بجٹ کو تین ہاتھی روندے جا رہے ہیں –
ایک : فوجی اخراجات جن کے ضمن میں ہمارا ہر وقت موقف یہی رہا ہے چونکہ ہماری سرحدیں بھی محفوظ نہیں اور نہ اندورنی طور پر سیکورٹی کے مسائل حل ہوئے ہیں ہم فوجی اخراجات کم نہیں کر سکتے – آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک اس دلیل کو عموما تسلیم کر لیتے ہیں تقریبا ہر ملک کے کیس میں ، کیونکہ کوئی بھی قومی سلامتی جیسے حساس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتا –
دوم : خسارے میں چلنے والے قومی ادارے … یہ ادارے صرف بیوروکریسی اور ان اداروں میں کام کرنے والے ورکرز کے ویلفیئر کے لئے چل رہے ہیں – عوام یعنی کنزیومر کا ان میں ذرا بھی فائدہ نہیں – مثال کے طور پر پی آئی اے کی قیمتیں اور کوالٹی سروسز کا شاہین اور ایئربلیو سے ہی موازنہ کر دیکھیں –
سوم : سبسڈیز … یہ سبسڈیز عوام کو نہیں بلکہ ایک خاص طبقہ کو فائدہ دے رہی ہیں – زراعت پر جانے والی سبسڈیز کے سبب عوام کا الٹا استحصال ہو رہا ہے مگر بڑے بڑے زمیندار اس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ، نہ ہی وہ ٹیکس دیتے ہیں – مثال کے طور پر اگر گندم پر سبسڈی ختم ہو جائے تو عوام کو آٹا موجودہ قیمت سے تقریبا ستر فیصد سستا ملے – اسی طرح ذراعت کو خاص طور پر تحفظ دے کر پاکستان میں صنعتکاری کو حوصلہ شکنی کی جاتی ہے –
پاکستان کی پولیٹیکل اکانومی اتنی مظبوط ہے کہ سٹرکچرل ریفارم انتہائی مشکل ہیں وہ بھی اس وقت جب سیاسی عدم استحکام حاوی ہو اور ہر حکومت "اب گئی کہ کب گئی” کی صورتحال کا سامنا کر رہی ہو – اس صورت میں صرف آئی ایم ایف ہی ہے جس کا پریشر کام کرتا ہے – اس میں بھی ہماری پاکستانی اشرافیہ صرف ان میدانوں میں ریفارم ہونے دیتی ہیں جن کا ان کے مفادات پر کم سے کم اثر ہو – مثال کے طور پر بجلی و گیس پر سبسڈی ختم کروا لی جائے گی مگر زراعت پر نہیں وغیرہ وغیرہ –
اس پر بھی تقریبا تمام معیشت دان اتفاق کریں گے کہ ٹیکس وصولیوں (Tax Collection ) کو بڑھانا پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے – مگر یہاں بھی بدقسمتی ہے کہ پاکستانی حکومتیں زیادہ تر انحصار ڈائریکٹ ٹیکسز کے بجائے indirect ٹیکسز پر کرتی ہیں جیسے سیل ٹیکس اور امپورٹ پر ٹیکس ہمارے کل ڈائریکٹ ٹیکسز سے بہت زیادہ ہے – کیونکہ اکنامک تھیوری کے مطابق ڈائریکٹ ٹیکسز بڑھانے کے لئے کاروبار میں آسانیاں (Ease of doing access ) بڑھانی ہوں گی اور مارکیٹ فرینڈلی معیشت قائم کرنی ہو گی یہ دونوں شرائط پاکستانی اشرافیہ کی اجارہ داری کو براہ راست چیلنج کرتی ہیں –
اس پر بھی تقریبا سب کا اتفاق ہو گا کہ بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اور بجٹ خسارہ ایک انتہائی سنگین چیلنج ہے –
اور دیئے گئے ان سب مسائل کی طرف اگر کوئی پراثر انداز میں اور بھرپور دباؤ کے ساتھ توجہ دلاتا ہے تو وہ آئی ایم ایف ہے – ہمیں اس کی اس لئے بھی ماننی پڑتی ہے کہ ہمیں پیسے چاہئیں اور اسے یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آیا اس کے پیسے بھی واپس ملیں گے اور یہ پیکج کامیاب بھی ہو گا تاکہ وہ اپنے وسائل اور اقوام عالم میں اپنی credibility کا تحفظ بھی کر سکے –
مگر ایک بڑا مسئلہ آئی ایف اے کے ریفارم پیکج میں بھی ہے جو دنیا کے تمام ممالک کے لئے کم و بیش ایک جیسا ہی ہے جسے انگریزی میں One Model fit for all (ایک ہی ماڈل ، سب ممالک کے لئے ) کہتے ہیں – اس کا خلاصہ یہ ہے حکومتیں اپنے اخراجات کم کریں ، کفایت شعاری (Austerity ) کی پالیسی لاگو کریں ، ٹیکسز کی شرح بڑھائیں ، کاوربار میں سہولیات بڑھائیں وغیرہ وغیرہ – یہ سب پالیسیز بہت زیادہ centralized ہیں یعنی انہیں اوپر سے لاگو کیا جاتا ہے جو اکنامکس میں Planning کے ضمن میں آتی ہیں – ان پالیسیز کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ گراس روٹ لیول پر مسائل کو نہ سمجھتی ہیں اور نہ ان کا حل پیش کرتی ہیں یعنی macro اکنامکس کے تناظر میں شاید درست ہوں مگر micro کے ضمن میں یہ کسی حد تک درست نہیں ہوتیں – آئی ایم ایف نے پاکستان سے اصلاحات مانگی ہیں ، پاکستانی حکومت نے یہ بتایا ہے کہ کن شعبوں میں وہ اصلاحات کر سکتے ہیں اور کن میں نہیں – یوں اس پورے عمل یعنی مذاکرات میں پاکستانی معیشت کے بنیادی خدوخال کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس کا بنیادی سبب پاکستانی پولیٹیکل اکانومی ہے –
اگر ائی ایم ایف کی پیکجز کا مختلف ممالک کے ضمن میں دیکھا جائے تو ملے جلے نتائج ملتے ہیں – مثال کے طور پر انڈیا 1989 میں جب دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور معاشی بحران بدترین شکل اختیار کر گیا تو یہ آئی ایم ایف ہی تھا جو اسے ایک کلوزڈ معیشت سے اوپن معیشت کی طرف دھکیل لایا تھا جس کا آج انڈیا خوب سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے اس میں یقینا نرسیہما راؤ اور من موہن سنگھ کا بھی اہم کردار ہے –
اسی طرح لاطینی امریکہ کے ضمن میں جو نتایج حاصل ہوتے ہیں مجھے پاکستانی تناظر میں بھی وہی نظر آتے ہیں – لاطینی امریکہ کے ممالک جب معاشی انہدام کے قریب ہوتے ہیں وہ آئی ایف اے کے پاس بھاگتے ہیں – آئی ایم ایف کے پیکجز انہیں معاشی استحکام ضرور دیتے ہیں مگر ان کی cost شارٹ رن میں کم شرح کی سست رفتار گروتھ ، بے روزگاری میں اضافہ اور لیبر کی اجرتوں میں کمی ہوتی ہے مگر لانگ رن میں جب حکومتی اخراجات میں توازن آتا ہے اور اکانومی ایڈجسٹ ہوتی ہے تو پھر شرح نمو میں اضافہ ہوتا ہے – تب لاطینی امریکہ کے ممالک پھر وہی اکنامک بے قائدگیاں کرتے ہیں جو انہوں نے پہلے کی تھیں جیسے حکومتی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ، سبسڈیز اور ایکسچینج ریٹ کو کم شرح پر کنٹرول کر کے رکھنا – یوں پھر وہ بحران میں گرتے ہیں اور پھر آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں –
اب امکان یہی ہے کہ معاشی استحکام تو آئے گا ، مگر اکنامک گروتھ سست ہو جائے گی اور بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی نہیں آئے گی – اصل مزے اس حکومت کے آخری برس ہوں گے یا پانچ سال بعد اگلے حکومت کرے گی – اگر ہم نے اپنے معاشی مسائل حل نہ کئے اور بڑے پیمانے پر معاشی اصلاحات (Structural Reforms ) نہ کیں تو تقریبا پانچ سال بعد پھر آئی ایم ایف کی گود میں ہوں گے –
یہی مختصر قصہ ہے جو برادرم عزیزی اچکزئی کی فرمائش اور محبت میں جلدی جلدی لکھا گیا –