دہشت گردی لفظ سن کر پڑھ کر یا عملی طور پر اپنی زندگی میں دہشت گردی دیکھنے والے انسانیت سے محبت رکھنے والے دلوں پر جو کرب کی کیفیت طاری ہوتی ہے وہ وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے دل میں خوف خدا ہو چاہے وہ کسی بھی مذہب ،فرقے ، ملک،رنگ و نسل سے ہوں۔
پاکستان اسوقت بھی دہشتگردی کا شکار ہے اور ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم دہشتگردی کے مضمرات سے اپنی قوم کو کئی دہائیوں سے جاری دہشتگردی کے باوجود نہ تو آگاہ کر پائے ہیں اور نہ ہی عوام میں دہشتگردی سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں عوام کا شعور بیدار کر سکے۔
حیرت اور فکر اسوقت بڑھ جاتی ہے جب ہمارے ٹیلیویژن چینلز پر چند منٹوں میں دہشتگردی کے واقعات کی خبر کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی ہمارے ٹیلیویژن چینلز پر روزمرہ کی نشریات کسی بھی کمی و بیشی کے بغیر دہشتگردی کے واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نشر کی جاتی ہیں۔اکثر و بیشتر طنز و مزاح سے بھرپور پروگرامز میں وقفہ لا کر دہشتگردی کے واقعات کی بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہے لیکن اس سے اس پروگرام کی روٹین نشریات میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور عوام دہشتگردی کے واقعے کی خبر کو سن کر دوبارہ سے اسی طنز و مزاح والے موڈ میں پروگرام کی باقی ریکارڈنگ دیکھتے ہیں۔
ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری پاکستان کے قیام سے ہی دہشتگردی کا شکار ہیں لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔اس کے بعد منظم دہشتگردی کے ذریعے پڑوسی دشمن ملک نے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کیے اور پھر سر عام اس دہشتگردی کو قبول بھی کیا۔پاکستان کی بقا کے لئے کئی جنگوں کی صورت میں ہم نے دہشتگردی کو قریب سے دیکھا۔مذہبی،علاقائی،قوم پرستی کی آڑ میں ہونے والی دہشتگردی کی تاریخ کو بارہا پاکستان میں دہرایا جاتا ہے۔لیکن پھر بھی پاکستانی عوام ،ادارے اور حکمران دہشتگردی کو پنپنے کا موقع مسلسل فراہم کیے جاتے ہیں۔
یوں تو نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستانی قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا تھا اور خود بھی ISPR کی ٹویٹس اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کی بے پناہ کوششیں کی گئی ہیں لیکن حقیقتاً دہشتگردی کو ختم کرنے میں عوام کے کردار کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔عوام میں دہشتگردی کے حوالے سے شعوری طور پر آگاہی کا کوئی مرتب پروگرام ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔
پیغام پاکستان کے نام سے دہشتگردی کے خلاف جس دستاویز کو دنیا بھر کے جید علماء کے دستخطوں کے ذریعے ایوان صدر میں صدر پاکستان ممنون حسین کے ذریعے لانچ کیا گیا عوام میں اسکی 1 فیصد آگاہی بھی موجود نہیں۔پاکستانی عوام دہشتگردی کی خبروں کی اس حد تک عادی ہو چکی ہے جیسے گھروں میں چھوٹے بچوں کے رونے کی آواز سے پورے گھر میں رہنے والوں کو عادی ہونا پڑتا ہے۔
تبدیلی حکومت کے دعویداروں نے بھی نیشنل ایکشن پلان پر وہی روش اپنائی ہوئی ہے جو اس سے پہلے کی تمام حکومتوں کا خاصہ رہی ہے۔آج بھی دہشتگردی کے خلاف ہمارے اندرونی سیکورٹی اداروں کے بجائے بیرونی سرحدوں کی محافظ فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔میرا عاجزانہ سوال ہے کیا فوج ہی نے ہر محاذ پر اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے اور باقی تمام ادارے بشمول حکومت عدلیہ اور میڈیا نے بھی فوج ہی کو ہر محاذ پر فرنٹ لائن کرنا ہے؟
دہشتگردی کا ناسور پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کیے جا رہا ہے اور ہم پاکستانی قوم بشمول حکومت،عدلیہ اور اندرونی سیکورٹی ادارے چین کی بانسری بجا رہے ہیں جس کی وجہ سے فوج کے لئے اندرونی محاذ پر خطرات کا اضافہ منظور پشتین جیسے نوجوانوں کی صورت میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔جو ریاست کے دشمن نہیں ہیں لیکن انہیں فوج کے سامنے لا کر ریاست کا دشمن بنایا جا رہا ہے اور فوج کی اندرونی سیکورٹی کے حوالے سے شناخت کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
اسوقت کی موجودہ حکومت جب پاکستان میں معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہے تو دشمن دہشتگردی کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔حکومت کو نیشنل ایکشن پلان میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ملکر نئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے پاکستانی قوم میں دہشتگردی کے خلاف بھرپور مہم چلانی ہو گی جس میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔جب تک عوام میں دہشتگردوں کے سہولت کار اور ہمدرد پیدا ہوتے رہیں گے تب تک دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ناممکن ہے۔
عدلیہ کو بھی دہشتگردی میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دینی ہوں گی اور ان پر عملدرآمد کو بھی ممکن بنانا ہو گا۔حکومت کو چاہیے کہ فوج کو غیر متنازعہ رکھنے کی حکمت عملی وضع کرے اور سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرے۔اسکے ساتھ حکومت کو اندرونی سیکورٹی کے اداروں میں احتساب اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام ترتیب دینا ہو گا دہشتگردی کے واقعات کا یکے بعد دیگرے رونما ہونا اور ہمارے اندرونی سیکورٹی اداروں میں احتساب کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے غفلت کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔
جب تک ریاست اور حکمران دہشتگردی کے خلاف بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تب تک فوج اپنے جوان قربان کرتی رہے گی اور فوج کو متنازعہ بنانے کی دشمن کی چالیں کامیاب ہوتی رہیں گی۔فوج کا کام سرحد کی سیکورٹی ہے۔اندرونی سیکورٹی کے اداروں کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہو گی۔چاہے وہ مسنگ پرسنز کے حوالے سے ہو یا منظور پشتین کے حوالے سے۔فوج کو اندرونی معاملات سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ہو گا جس میں حکومت اور عدلیہ کا کردار نہایت اہم ہے۔فوج کو موردالزام ٹھرانے سے نظام بہتر نہیں بلکہ اور خراب ہو رہا ہے اسلئے گزرے ہوئے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان کے بقا کے لئے بہترین اور نڈر فیصلوں کی ضرورت ہے۔