بھارت کے سترہویں لوک سبھا انتخابات کے چھ مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ اب آخری مرحلہ باقی ہے اور نگاہیں نتائج پر مرکوز ہیں۔ قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ کوئی مودی لہر برقرار رہنے کا دعویٰ کر رہا ہے‘ تو کسی کو چونکانے والے نتائج کی امید ہے۔ بہر حال2014ء کے الیکشن کے نتائج پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ مودی لہر کا شورضرورتھا‘ لیکن بی جے پی کو محض 31فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے بکھرائو کے سبب ووٹوں کی تقسیم ہوئی اور بی جے پی کی راہ آسان ہو گئی؛ اگر مودی لہر ہوتی تو ووٹوں کا تناسب زیادہ ہونا چاہیے تھا۔
2019ء کے حالات2014ء سے مختلف ہیں۔ مودی لہر کا شور بھی کم ہے اور اپوزیشن پوری طرح متحد نہیں ‘ لیکن2014ء کی طرح بکھری ہوئی بھی نہیں۔بی جے پی کو ہر ریاست میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔بھارت کا مزاج کہے جانے والی دِلّی کی بات کریں تو سہ رخی مقابلہ نظر آرہا ہے۔ دِلّی ‘بھارت کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے‘ جہاں تمام ریاستوں ‘ زبانوں اور فرقوں کے لوگ رہتے ہیں۔1977ء سے اب تک دِلّی اور بھارت کا مزاج تقریباً ایک جیسا رہا ہے‘ جس وقت بی جے پی عروج پر تھی‘ اس وقت دِلّی میں بھی مضبوط تھی۔اس بار دِلّی میں بی جے پی ‘ کانگرس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ دِلّی اور بھارت کے انتخابی نتائج کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں کے نتائج ملک کے نتائج سے ملتے جلتے رہے ہیں۔
1975ء میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی ‘ اس کے بعد1977ء کے الیکشن میں کانگرس مخالف ماحول نظر آیا۔ا س الیکشن میں542میں سے345سیٹیںجنتا پارٹی اتحاد کو ملیں۔ کانگرس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس الیکشن میں بھارت بھر کی ہوا‘ دِلّی میں بھی نظر آئی اور یہاں کی تمام سات سیٹوں پر جنتا پارٹی کی جیت ہوئی تھی۔
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی غیر کانگرسی پارٹی نے مرکز میں سرکار بنائی تھی‘ لیکن یہ سرکار زیادہ دنوں تک نہ چل سکی اور پھر الیکشن1980ء میں ہی ہو گئے۔ اس الیکشن میں دِلّی کے نتائج1977ء سے یکسر مختلف تھے۔ تمام سیٹوں پر کانگرس امیدواروں نے جیت حاصل کی تھی اور 353 سیٹوں کے ساتھ کانگرس نے واپسی کی تھی۔1984ء میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل بعد الیکشن طے شدہ وقت سے ایک سال قبل ہی ہو گئے تھے۔ اس الیکشن میں اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ سے عوام میں زبردست اشتعال تھا‘ جس کا سیاسی فائدہ ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو ملا۔ گانگرس نے514میں سے 402 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔وہیں دِلّی کی ساتوں سیٹوں پر کانگرس نے قبضہ جمایا لیا۔ 1989ء کے الیکشن میں عوام کانگرس سے ناراض تھے‘ پھر بھی پارٹی نے سب سے زیادہ197سیٹوں پر جیت درج کی تھی‘ لیکن جنتا دل143‘ بی جے پی85اور کمیونسٹ پارٹی کی حمایت سے سرکار بن گئی۔اس الیکشن میں بھی دِلّی میں بی جے پی نے چار‘ کانگرس نے دو اور جنتا دل نے ایک سیٹ جیتی ۔
1977ء کی طرح1989ء میں بھی جنتا دل کی سرکار زیادہ دن نہ چل سکی اور اتحاد میں آپسی ٹکرائو کی وجہ سے‘ وی پی سنگھ کی سرکار گر گئی اور بعد میں کانگرس کی حمایت واپس لینے کے بعد چندر شیکھر کی حکومت بھی ہاتھ سے نکل گئی۔
اس کے بعد1991ء میں ایک بار پھر الیکشن ہوئے۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ سے قبل سابق وزیراعظم راجیو گاندھی پر جان لیوا حملہ ہوا‘ جس میں ان کی موت ہو گئی۔ کانگر س نے اس بار راجیو گاندھی کے نام پر ووٹ مانگے‘ لیکن1984ء جیسی حمایت نہ حاصل کر پائی۔ کانگرس کو244سیٹوں پر فتح ملی اور حکومت بنانے میں کامیاب رہی‘ جبکہ بی جے پی کو120سیٹیں ملیں ‘لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔1996ء میں بی جے پی نے 160 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور پہلی بار سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔اس کے بعد بی جے پی نے اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں حکومت قائم کی ‘ جو محض تیرہ دن چل سکی۔
اس کے بعد ایچ ڈی دیو ی گوڑا اور اندر کمال گجرال کانگرس کی حمایت سے وزیراعظم بنے۔ 1998ء میں پھر سے الیکشن ہوئے‘ جس میں بی جے پی نے182سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ‘ جبکہ دِلّی میں سات میں سے چھ سیٹوں پر قبضہ جمایا۔ اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں این ڈی اے کی سرکاری بنی جو اعتماد کاووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی اور حکومت گرا دی گئی‘ کیونکہ کوئی پارٹی سرکار بنانے کی پوزیشن میں نہ تھی‘ اس لیے پھر 1999ء میں الیکشن ہوئے اور بی جے پی نے 180 سیٹوں پر جیت حاصل کی اور این ڈی اے کی حکومت بنی‘ اس الیکشن میں ساتوں کی ساتوں سیٹیں ‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جھولی میں آئیں۔
2004ء اور2009ء میں کانگرس کی حکومت قائم ہوئی۔2004ء میں دِلّی میں کانگرس کو چھ اور بی جے پی کو ایک سیٹ ملی تھی‘ وہیں 2009ء کے الیکشن میں دِلّی کی تمام نشستیں کانگرس نے جیتیں۔2014ء کے الیکشن میں بی جے پی کو پہلی بار اکثریت ملی اور دِلّی پر قبضہ بھی اسی کا رہا۔ اب 2019ء کا الیکشن سامنے ہے۔ چھ مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔
ایسے میں بڑا سوال یہی ہے کہ کیا اس بار بھی دِلّی اور ملک کا نتیجہ ایک جیسا ہو گا؟بہر حال اس بار ووٹوں کی تقسیم تین سطح پر ہوتی نظر آرہی ہے۔ اول ‘مذہب کے نام پر ۔ دوم‘ ذات پات کے نام پر اور سوم ‘ مودی کے نام پر۔
کچھ لوگ مودی کو پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنا مسیحا مانتے ہیں ‘ جبکہ دوسرا طبقہ مودی کو نا پسند کرتا ہے اور اسے تمام مسائل کی جڑ مانتا ہے؛ اگر سٹہ بازار کی بات کریں‘ تو اس بار بھی اتحاد حکومت بننے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے اور این ڈی اے کا پلڑ ابھاری بتایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کو250نشستیں ملنے کا امکان ہے۔سب سے زیادہ سیٹوں کے لیے بی جے پی کا ریٹ32پیسے ہے وہیں اکیلے سرکار بنانے کے لیے 3روپے50پیسے ہے ‘جبکہ اتحادیوں کی حکومت بنانے‘ یعنی این ڈی اے کا ریٹ محض12پیسے ہے۔ 272سیٹوں کے لیے کانگرس کا ریٹ100روپے ہے۔ کانگرس اتحاد سرکار بنانے پر50روپے ہے۔ سٹہ بازوں کی نظر میں عظیم اتحاد تیسرے نمبرپر ہے۔
دریں اثناء سیاسی نظریہ سے کافی اہم بھارت کی ریاستیں بہار اور یو پی میں بھی حالات تقریباً ایسے ہی ہیں۔ان ریاستوں میں بھی کسی پارٹی کی پوزیشن مضبوط نظر نہیں آرہی۔ ظاہر ہے کہ اتحاد کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست میں کس پارٹی کو منزل ملتی ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔