اسلام آباد سیکریٹریٹ کی تکلیف دہ کہانی

میرے ایک دوست کہا کرتے تھے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پاکستان سے 10کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بات بھی سچ ہے اسلام آباد ایک سرسبز و شاداب اور صاف ستھرا شہر ہے جو منظم انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ صفائی ستھرائی کا ایک الگ نظام موجود ہے۔ شہر کے ایک طرف مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیاں ہیں تو دوسری جانب راول ڈیم کا نیلا پانی۔ شہر کو انتظامی طور پر مختلف سیکٹروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سیکٹر میں کھیل کے گرائونڈ، پارکس، مارکیٹیں، اسکول وغیرہ موجود ہیں۔ 20لاکھ افراد کیلئے تعمیر کئے گئے اس شہر میں اب کم و بیش 35لاکھ سے زائد افراد سموئے ہوئے ہیں جن میں زیادہ تعداد سرکاری ملازمین کی ہے۔

اسلام آباد چونکہ ملک کے سب سے بڑے اور معتبر ادارے یعنی پارلیمنٹ ہائوس کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور ہم میڈیا والے طاقت کے ایوانوں کی رپورٹنگ کرتے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے بعد اسلام آباد میں ملکی نظم و نسق چلانے کا دوسرا اہم ترین حصہ اسلام آباد سیکریٹریٹ ہے۔ ملک میں فوجی ادوار میں پارلیمنٹ کو بند رکھ کر اسے بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی مگر ڈکٹیٹر اسلام آباد سیکریٹریٹ کو بند کر سکے نہ کبھی ایسا کیا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ سیکریٹریٹ عملی طور پر پورے ملک کو چلاتا ہے اور اسلام آباد سیکریٹریٹ کے افسران و ملازمین غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔دراصل اسلام آباد سیکریٹریٹ شاہراہ دستور پر واقع مختلف وفاقی وزارتوں، محکموں اور خود مختار سرکاری اداروں کے دفاتر کی عمارتوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ حکومت منتخب و آئینی ہو یا غیر منتخب، اس کے احکامات پر سیکریٹریٹ میں موجود متعلقہ دفاتر میں بیٹھے سرکاری افسران و ملازمین ہی عملدرآمد کرواتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش ہونے والی قانون سازی بھی اسی سیکریٹریٹ یعنی وزارتِ پارلیمانی امور اور وزارتِ قانون کی راہداریوں سے گزر کر ہی منظور ہوتی ہے۔

دارالحکومت اسلام آباد کی چکا چوند زندگی اپنی جگہ مگر یہاں اسلام آباد سیکریٹریٹ کے سرکاری افسران و ملازمین کے ابتر معیارِ زندگی کی تکلیف دہ کہانی بھی موجود ہے۔ اسلام آباد کے بلند معیارِ زندگی کے باعث یہاں مہنگائی بھی ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جس کا مقابلہ سرکاری تنخواہ کر ہی نہیں پاتی۔

پے اینڈ پنشن کمیشن کی طرف سے 2009میں سرکاری افسران و ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی سفارش کی گئی تھی مگر اس کے بعد سے آج تک اس کمیشن کا اجلاس ہی منعقد نہ ہو سکا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ٹیکس بھی کاٹا جاتا ہے لہٰذا شرح کے اعتبار سے یہ ملک میں ٹیکس دینے والا سب سے کمزور مگر بڑا طبقہ ہے۔ جب اسلام آباد کا ذکر آتا ہے تو سرکاری افسران و ملازمین بیچارے مراعات سے محروم ہی نظر آتے ہیں۔ اسلام آباد سیکریٹریٹ کے افسران و ملازمین اس وقت زیادہ مضطرب ہوتے ہیں کہ جب وہ اسلام آباد سیکریٹریٹ میں ہی موجود دیگر خود مختار اداروں کے ساتھی افسران اور صوبائی سیکریٹریٹ میں افسران اور ملازمین کو تنخواہوں میں ملنے والے الاونسز کا موازنہ کرتے ہیں۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس وقت گریڈ 17سے گریڈ 19تک کے اسلام آباد سیکریٹریٹ کے افسران کو چاروں صوبوں کے سیکریٹریٹس میں کام کرنے والے افسران کے مقابلے میں تنخواہوں کے ساتھ ایگزیکٹو الائونس، یوٹیلیٹی الائونس، ہائوس ریکوزیشن الائونس، انسینٹو الائونس، تعلیمی الاؤنس اور اسپیشل الاؤنس کی مدوں میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا جاتا۔ صوبوں نے اپنے سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسران و ملازمین کو متذکرہ بالا کم و بیش تمام الاؤنسز دے رکھے ہیں لیکن وفاق میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح اسلام آباد سیکریٹریٹ میں ہی موجود بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے گریڈ 17، 18اور گریڈ 19کے افسران کو ہی دیکھ لیں۔ گریڈ 17اور 18کے ہر افسر کو خصوصی بی آئی ایس پی الاؤنس کی مد میں 30ہزار روپے جبکہ گریڈ 19کے افسران کو 40ہزار یوٹیلیٹی کی مد میں، اسی ادارے کے گریڈ 17اور 18کے افسران کو 13ہزار 430جبکہ گریڈ 19کے افسران کو 30ہزار 815روپے ملتے ہیں۔ تعلیم، صحت، گھر اور سفر کے ساتھ ساتھ موبائل فون الائونس بھی الگ سے دیا جاتا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں عمومی طور پر افسران اسلام آباد سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسران و ملازمین کے مقابلے میں خوش ہیں۔ وفاقی حکومت کو سرکاری ملازمین کے درمیان اس تقسیم کوختم کرنا چاہئے۔ سرکاری ملازم وہ طبقہ ہے جو کسی غیر ضروری لڑائی جھگڑے میں پڑنے کے بجائے اپنی نوکری کی طرف ہی دھیان دیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے جھگڑا ہوگیا تو اس کی تنخواہ اسے وکیل کرنے کی اجازت دیتی ہے نہ غیر ضروری پیسے خرچ کرنے کی۔

ان سرکاری افسران و ملازمین کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ چند روز پہلے آفس مینجمنٹ گروپ کے نوجوان افسران کو بازئووں پر کالی پٹیاں باندھے دیکھا تو پوچھا کہ کس بات پر احتجاج ہو رہا ہے؟ پتا چلا کہ نوجوان افسروں نے اسلام آباد سیکریٹریٹ کے افسران و ملازمین کی تنخواہوں میں پائی جانے والی غیر آئینی و غیر قانونی تفریق کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے، روزانہ ایک گھنٹہ دفتری کام چھوڑ کر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس احتجاج میں باقی گروپس کے لوگ بھی شریک ہو رہے ہیں کیونکہ اسلام آباد سیکریٹریٹ ٹرانسفر پر ان کی تنخواہیں بھی سکڑ جاتی ہیں۔

پتا یہ بھی چلا ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے کی صورت میں مختلف گروپس میں بجٹ کے قریب حکومتی کاروبار مفلوج کرنے کیلئے مکمل ہڑتال کی تجاویز بھی موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد موجود بیورو کریٹس پر ہی انحصار کرنے کے بجائے اسلام آباد میں خاموش احتجاج کرتے ان سرکاری افسران و ملازمین کے جائز اور معقول مطالبات سنیں اور انہیں ریلیف دیں۔ اگر وزیراعظم نے اسلام آباد سیکریٹریٹ کے سرکاری افسران و ملازمین کو خوش رکھا تو یقین رکھیں کہ کام کے اعتبار سے وہ بھی وزیراعظم اور حکومت کو ہرگز مایوس نہیں کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے