پارٹی ختم نہیں بلکہ ابھی شروع ہوئی ہے۔ ایک پنڈورا باکس ابھی سینیٹ میں کھلے گا اور دوسرا پھر قبائلی اضلاع کے اندر۔ چھبیسویں آئینی ترمیم نے ابھی سینیٹ سے منظور ہونا ہے جہاں پہلے سے بلوچستان کے سینیٹرز نے بل جمع کیا ہے، جس میں اُنہوں نے بلوچستان کی اسمبلی کے حلقوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ مطالبہ اُن کا جائز بھی ہے کیونکہ بلوچستان کے قومی اسمبلی کے ایک حلقے کا رقبہ پورے پختونخوا کے رقبے سے زیادہ ہے۔ دوسرا پنڈورا باکس یہ کھلے گا کہ بل میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ چار حلقوں کا اضافہ قبائلی علاقوں کے کس ضلع میں کس بنیاد پر ہوگا۔ چنانچہ اب کرم ایجنسی والے کہیں گے کہ ہمارے بڑھا دو، اورکزئی والے کہیں گے ہمارے بڑھا دو اور وزیرستان والے کہیں گے ہمارے بڑھادو۔ علیٰ ہذا القیاس۔
سوال یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں نشستیں بڑھانے کا معاملہ پی ٹی آئی کو گزشتہ نو ماہ میں کیوں یاد نہ آیا اور اب وہاں پر صوبائی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی وہ یہ کام ہنگامی بنیادوں پر کیوں کرنے لگی جس کے لئے اسد قیصر اور نورالحق قادری مل کر خواجہ آصف اور راجہ پرویز اشرف کےقدموں میں بھی بیٹھ گئے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ پی ٹی ایم جس کے بارے میں چند روز قبل عمران خان صاحب اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ وہ غیر ملکی طاقتوں کی آلہ کار ہے، کیسے یکدم پی ٹی آئی کی چہیتی بن گئی اور کیوں کر محسن داوڑ کے سر پر پہلی آئینی ترمیم کے کریڈٹ کا تاج سجا دیا گیا؟۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف چور چور اور سلیکٹڈ سلیکٹڈ کے نعرے لگانے والی تمام جماعتیں کیسے محسن داوڑ کے بل پر ایک صف میں ایسے کھڑی ہوگئیں کہ نہ کوئی غدار رہا اور نہ کوئی وفادار، نہ کوئی چور رہا اور نہ کوئی فرشتہ؟
ان سوالوں کے کا جواب یہ ہے کہ اِس معاملے کے اصل سرغنہ پیرزادہ نورالحق قادری ہیں۔ دیگر ایم این ایز اور سینیٹرز کی طرح وہ بھی نہیں چاہتے کہ قبائلی اضلاع میں اُن جیسے اجارہ داروں کے ساتھ ساتھ ایم پی ایز کی صورت میں نئی قیادت سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں ہو کر بھی قادری صاحب نے فاٹا کے انضمام کی بھرپور مزاحمت کی تھی اور انتخابی مہم کے دوران بھی ملکانان سے وعدے کرتے رہے کہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ وہ پی ٹی آئی کے قبائلی علاقوں کے چیپٹر کے صدر ہیں اور مکمل انضمام کے بعد اُن کا یہ عہدہ بھی ختم ہو جائے گا جبکہ پورے صوبے کے صدر وہ بن نہیں سکتے۔
اُنہوں نے اپنے لئے تو عمران خان سے مذہبی امور کی ”برکتوں“ سے مالامال وزارت ہتھیالی لیکن تمام سیاسی قیادت کے وعدے کے مطابق قبائلی اضلاع کے لئے سو ارب روپے تو کیا، بیس ارب روپے بھی نہیں دلوا سکے۔ چنانچہ اب اگر 2جولائی کو وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں تو پی ٹی آئی کا برا حشر ہوسکتا ہے۔ چنانچہ گورنر اور وزیراعلیٰ کو ساتھ ملا کر اُنہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ صوبائی انتخابات کم از کم چھ ماہ کے لئے ملتوی کرا دیں۔
قادری صاحب نے اُن کو بتایا کہ اِس دوران ہم صحت کارڈ تقسیم کر لیں گے۔ مجوزہ جرگوں میں پی ٹی آئی کے عہدیداروں کو اندر کرا لیں گے۔ اِسی طرح صوبائی سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروا کر اپنے لوگ وہاں بٹھا دیں گے اور اِس کام کے لئے کم ازکم چھ ماہ کی مہلت چاہئے۔ عمران خان کے آن بورڈ ہونے کے بعد قادری صاحب نے اسپیکر اسد قیصر کو ساتھ لے کر الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات ملتوی کرانے کی بہت کوشش کی لیکن جب وہاں سے یہ بتایا گیا کہ ازروئے آئین وہ جولائی سے آگے نہیں جا سکتے تو آئینی ترمیم کی کوششیں شروع کردی گئیں۔
نورالحق قادری صاحب انتہائی میٹھی زبان بولتے ہیں اور شہد کا لیبل لگاکر زہر فروخت کرنے کے ماہر ہیں اس لئے جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور اپنی پارٹی کے قبائلی علاقہ جات کے ایم این ایز کو ساتھ لیا۔ قیادت محسن داوڑ کو دے دی اور اُن سب کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں کے پاس بطور جرگہ لے گئے۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور بلاول بھٹو جیسے لوگوں کو قبائلی اضلاع کے معاملات کا علم ہے اور نہ اُن کو اِس سے کوئی خاص دلچسپی رہتی ہے۔ سب جماعتوں کے ایم این ایز کو دیکھ کر وہ یہ سمجھے کہ شاید یہ تمام قبائلی عوام کی خواہش ہے کہ بے شک انتخاب ملتوی ہو جائے لیکن حلقوں میں اضافہ ہو۔
چنانچہ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) سمیت جے یو آئی، جماعت اسلامی اور اے این پی نے بھی حمایت کا وعدہ کردیا۔ معاملہ اگر صرف قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کا ہوتا تو مجھ سے زیادہ کوئی خوش نہ ہوتا اور منظوری سے قبل میں نے اسد قیصر اور محسن داوڑ سمیت کئی ذمہ داران کی منت کی کہ وہ بل میں یہ شق رکھ دیں کہ اِس وقت جن صوبائی انتخابات کے لئے مہم جاری ہے، وہ ملتوی نہیں کئے جائیں گے لیکن ہماری درخواست ماننے کے بجائے پی ٹی ایم نے بل میں الٹا یہ شرط رکھ دی کہ وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات چھ ماہ سے پہلے نہیں ہوسکیں گے اور یہ مزید ڈیڑھ سال تک ملتوی کئے جاسکیں گے۔
اب ایک طرف قبائلی عوام پر احسان کیا جارہا ہے کہ اُن کی سیٹیں بڑھادی گئیں لیکن دوسری طرف یہ ظلم کیا جارہا ہے کہ پختونخوا اسمبلی کو قبائلیوں کی نمائندگی سے ایک سال تک محروم رکھنے کے بعد مزید ڈیڑھ سال کے لئے محروم رکھا جارہا ہے حالانکہ انضمام کے لئے سب سے زیادہ ضرورت پختونخوا اسمبلی میں قبائلی منتخب نوجوانوں کی نمائندگی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سازش کامیاب ہوئی اور سینیٹ سے بھی یہ بل اسی طرح پاس ہوا تو وہ 435امیدوار جنہوں نے 2جولائی کو ہونے والے انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کئے ہیں، کافی اخراجات اور تیاریوں کے بعد کس کیفیت سے دوچار ہوں گے، شاید اس کا ادراک کسی نے نہیں کیا۔
جس روز قومی اسمبلی سے یہ بل پاس ہوا اُس روز اسد قیصر اور قادری صاحب چیئرمین سینیٹ کے منت ترلے کررہے تھے کہ وہ سینیٹ کے اجلاس کو جاری رکھیں لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس روز ازروئے قانون اجلاس ملتوی ہوا اور اب چیئرمین سینیٹ کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ جلدی اجلاس بلائیں۔ اگر سینیٹ سے یہ اسی شکل میں منظور ہوا تو پھر صدر کے دستخط کے ساتھ الیکشن کمیشن صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کردے گا اور اگر 2جولائی تک یہ بل اِسی شکل میں سینیٹ سے پاس نہ ہوا تو پھر صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوجائیں گے لیکن آخری وقت تک امیدوار اور ووٹرز گومگو کا شکار رہیں گے۔