عوام بھگت رہے ہیں، خواص کی باری کب؟

مجھے اک بہت ہی عزیز دوست نے یہ پیغام بھیجا ہے۔ خواص اور عوام اس پر غور فرمائیں۔ ممکن ہو تو خستہ حال معاشی کشتی کے نئے ملاح بھی اس کے بارے میں سوچیں۔ پیغام کچھ یوں ہے۔’’ایک غیر ملکی طالب علم نے کرپشن پر ایک مضمون لکھا جس میں اس نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ جس طرح ہر چیز پر ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ یعنی قابل استعمال کی مدت لکھی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح کرنسی نوٹوں پر بھی ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ لکھ دی جائے۔ کل مدت استعمال 5سال ہونی چاہئے۔ جب کرنسی نوٹوں کی یہ ایکسپائری ڈیٹ نزدیک آ جائے تو بینک والے ان کو تبدیل کر کے نئی ایکسپائری ڈیٹ والے نوٹ ایشو کر دیں۔

اس طرح کالے دھن کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور سرمایہ بھی گردش میں رہے گا‘‘پاکستانی معیشت جس حال اور جن ہاتھوں تک پہنچ گئی ہے اسے بستر مرگ سے اٹھانے کے لئے ایسے ہی ٹوٹکوں یا آئوٹ آف بوکس قسم کے نسخوں کی ضرورت ہے۔ معمول کے اقدامات سے معمولی سی بہتری بھی آئی تو کسی معجزہ سے کم نہ ہو گی اور معجزوں کے زمانے لد چکے۔پاکستان تو بہت ہی سپیشل کیس ہے اسی لئے اک عرصہ سے میں یہ بات بار بار لکھ اور بول رہا ہوں کہ یہاں مسئلہ اقتصادیات نہیں اخلاقیات کا ہے کیونکہ قدم قدم پر باڑ ہی فصلیں کھا رہی ہے، چور اور چوکیدار میں ورکنگ ریلیشن شپ عروج پر ہے۔ ابھی کل پرسوں خبر تھی جو آپ نے بھی سنی یا پڑھی ہو گی کہ کسٹم والوں نے خود اپنے گوداموں کا مال ہی بیچ کھایا۔ گندم سٹور کرنے والے گندم بیچ کر ان کی جگہ مٹی کی بوریاں رکھ دیتے ہیں۔ بجلی گیس والے بجلی گیس چوروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔

امتحانی پرچے ’’سیٹ‘‘ کرنے والے ان کا سودا کر لیتے ہیں تو کوئی مجھے سمجھائے یہاں اسد عمر، حفیظ شیخ یا شبر زیدی بلکہ ان جیسے ایک ہزار ایک ماہرین بھی کون سی توپ چلا لیں گے؟ ایک خاندان اگر خود ہی اپنی جائیداد برباد کرنے میں ایک دوسرے کے مقابل آ جائے تو دنیا کا کوئی ٹیکنو کریٹ، بیورو کریٹ، پروفیشنل یا پھنے خان اس خاندان کو دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکتا۔

جہاں حکمران خود سرکاری زمینیں پراپرٹی ڈیلرز کو دان کر کے پاکستان سے باہر جائیدادیں خرید لیں، جہاں خود ریلوے کے افسران سے ملی بھگت کے نتیجہ میں ریلوے ٹریک پر مارکیٹیں بنا لی جائیں وہاں اقتصادی استحکام ایسے ہی ہے جیسے کوئی پانی پر تاج محل تعمیر کرنا چاہے۔ مجھے تو اس پر بھی حیرت نہ ہو گی اگر کل کلاں یہ بریکنگ نیوز سننے کو ملے کہ لاہور کے ایئر پورٹ پر پلازہ بن چکا اور بنانے والوں کو ’’سٹے‘‘ بھی مل چکا۔ جب تک اخلاقیات کا یہ گلائو سڑائو جاری ہے….جو مرضی کر لو معیشت کسی کا بڑا بھی نہیں سنبھال سکے گا اور یہ سلسلہ نیا نہیں۔ جب پرویز مشرف صاحب کی حکومت آئی تو مجھے کسی سینئر کسٹم افسر نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’’ایجنسیوں‘‘ نے ہمارے گوداموں پر چھاپے مارے۔

وہ بیچارے ہمارے ویئر ہائوسز میں موجود کروڑوں اربوں کے ضبط شدہ سامان کا ’’آڈٹ‘‘ کر رہے تھے۔ ایک طرف وہ سمگل شدہ کپڑا ناپ رہے تھے تو دوسری طرف ایک ٹیم غیر ملکی شراب کی بوتلیں گن رہی تھی لیکن ان بھولے بادشاہوں کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا کہ کپڑا سو فیصد پورا ہے لیکن بیش قیمت کپڑے کو عام تام سستے کپڑے سے ری پلیس کر دیا گیا ہے اور جہاں تک تعلق ہے شراب خانہ خراب کا تو قیمتی غیر ملکی شراب کی جگہ دو نمبر مال ایک نمبر کارٹنز میں پوری کی پوری تعداد میں موجود ہے اور یہ سارے بیوقوف پورے جوش و جذبہ سے اپنا اور ہمارا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں۔اس ’’فخریہ کلچر‘‘ میں معیشت کے جمپ سٹارٹ، کک سٹارٹ کی باتیں ہی فضول ہیں لیکن یہ بات بابوئوں کو نہ پہلے کبھی سمجھ آئی نہ آئندہ ان کے پلے پڑے گی سو اپوزیشن کا یہ سوال ہی بے تکا اور بے سرا ہے کہ IMFپیکیج کے بدلے کیا سیاسی قیمت ادا کرنا ہو گی؟

اقتصادی استحکام کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، آگ کو پٹرول سے بجھانے کی مخلصانہ کوشش کے سوا کچھ نہیں اور آئی ایم ایف یعنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نامی اس انٹرنیشنل بنیئے کو بلیم کرنا بھی اک بھونڈی اور بھدی حرکت ہے کیونکہ IMFنے جو کیا اور کرے گا نہ گن پوائنٹ پہ کیا نہ کرے گا۔ آپ نے خود کرایا ہے اور ان کے ’’درِ دولت‘‘ پر حاضریاں دے دے کر کروایا ہے اس لئے ان کا دوش نہیں کیونکہ کمزور اور طاقتور میں معاہدہ طاقت ور کی شرائط پر ہوتا ہے۔

اصل سوال یہ کہ اس ملک کی معیشت کو قریب المرگ کس نے بلکہ کس کس نے کیا؟ہم نے کیا….ہمارے سابقہ حکمرانوں نے کیا کیونکہ وہ ہمارا ’’انتخاب‘‘ تھے۔ جیسے ہم تھے ویسے ہی حکمران ہم نے اپنے سروں پر مسلط کر لئے۔ قصور وار کا تعین آپ خود کر لیں لیکن یہ طے سمجھیں کہ IMF ’’معصوم ‘‘ ہے۔ تھوڑا سا افسوس اس بات پر ہے کہ عوام کو تو اپنے کئے کی سزا بلکہ سزائیں مل رہی ہیں اور جانے کب تک ملتی رہیں گی لیکن وارداتیوں کے ساتھ آنکھ مچولی جاری ہے، کتکتاریوں اور پولی پولی گرفتاریوں کا کھیل جاری ہے تو یہ سب کچھ بھی یونہی جاری رہے گا۔ معیشت میں جان ڈالنی ہے تو انہیں نشان عبرت بنائو۔عوام بھگت رہے ہیں، نشان عبرت بنتے جا رہے ہیں۔ان کے منتخب خواص کی باری کب آئے گی؟کہ جب تک دونوں نہیں بھگتیں گے، باز نہیں آئیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے