برادر سبوخ سید کا سود کے بارے سوال پر میری رائے
[pullquote]شاہ جی نے سوال کیا کہ [/pullquote]
میں نے چار سال پہلے ایک صاحب کو آٹھ لاکھ روپے قرض دیا ، ڈالر اس وقت ایک سو روپے کا تھا ۔
اب ڈالر کی قیمت ایک صد بیالیس روپے ہے ۔ وہ مجھے جو رقم واپس کرے گا ۔ ہوگا تو وہ آٹھ لاکھ روپیہ لیکن
ایک اس کی قیمت اب چھ لاکھ روپے ہوگی
یہ تو روپے کی ویلیو کم ہوئی
دوسری جانب مہنگائی اور اشیاء کی قیمتوں میں چار سالوں کے درمیان جو بے پناہ اضافہ ہوا ۔ اس پر غور کریں تو
اب جو رقم وہ مجھے دے گا ، وہ ہوگی تو آٹھ لاکھ روپے لیکن اس کی قیمت چار لاکھ روپیہ ہوگی ۔
یوں میں نے آٹھ روپے دیکر واپس کیا حاصل کیا ہے ۔ چار لاکھ روپے ۔
اس کیس کو پلٹیے ۔۔۔
ربا کا مطلب استحصال ہے اور استحصال کس کا ہوا ؟
اور اس بندے نے ابھی تک میرے پیسے واپس نہیں کیے کیونکہ وہ اب بھی واپسی کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اسی وجہ سے میں اس سے مانگ بھی نہیں رہا ۔
[pullquote]سبوخ سید کے سوال پر میری گذارشات[/pullquote]
شاہ جی اس سوال کے جواب میں دو بحثیں ہوسکتی ہیں ایک فنی اور نظریاتی ہے۔ دوسری سادہ اور تبلیغی قسم کی ، تو دوسری سے شروع کرتے ہیں . لیکن دونوں طرح کی بحثوں سے سے قبل آئیے ایک محاورہ دوہراتے ہیں اور کچھ مسکراتے ہیں، باقی فقہی اور الہیاتی ڈبیٹس نے کب ختم ہونا ہے؟ گلگت کے ایک مشہور شاعرکے شعر کا خلاصہ یہ کہ ” دنیا کے طعنے اور فقرہ بازی ختم ہونے والی ہے نہ ہی میری محبت کی سزائیں پوری ہونے والی! اس لئے تھوڑا سا ریلکس ہولیں۔ محاورہ آپ کی ہندکو یا پنجابی زبان کا ہے ، کہاجاتا ہے ” یاری وچ چوڑیاں ٹوٹدیاں ریندیاں،اور پشتو میں کہیں تو ” پہ یارانو کہ خو بنگڑی ماتی گی”۔
اب اگر سادہ لفظوں میں دوسری بحث کا خلاصہ کہا جائے تو یوں کہاجاسکتاہے کہ جب آپ کسی کو قرضہ دیتے ہیں تو آپ کے دومقصد ہوسکتے ہیں
اول: اپنا مال محفوظ کرنا
دوم: صدقہ خیرات کرنا
موجودہ زمانہ کی بھاشا میں یوں کہیئے کہ کسی کو حفاظت کی نیت سے قرضہ دینا قریب قریب کرنٹ اکاونٹ میں پیسے رکھوانا ہے۔ اور ہمدردی کی وجہ سے قرضہ دینا صدقہ اور خیرات کرنا ہے جس پر آپ کو اللہ تعالی وہ سارے انعامات عطا فرمائیں گے،( ان شاء اللہ) جن کا وعدہ ہے۔
اب اگر آپ اپنے آٹھ لاکھ روپے کسی بھی بنک کے کرنٹ اکاونٹ میں رکھتے تو چار سال بعد آپ کو وہی آٹھ لاکھ روپے ہی ملتے، اور آپ وہاں ڈی ویلیو ہونے کے اعتراض کریں تو وہ فورا کہے گا” یاری وچ چوڑیاں ٹوٹدیاں ریندیاں، یا پہ یارانو کہ خو بنگڑی ماتی گی’!
کیونکہ جو کچھ آپ نے جہاں اور جس مقصد کیلئے رکھا تھا وہ آپ کو مل گیا، آپ کا مقصد اور ہماری ذمہ داری آپ کے پیسوں کی حفاظت تھی، وہ ہم نے کرلی، اب ڈی ویلیونہ ہونے کی ذمہ نہ ہم نے لی تھی،نہ آپ کا مطالبہ!
اسی طرح آپ کسی کو قرضہ دیتے ہیں تو اس پر صدقہ کرتے ہیں، اس سلسلہ میں ہوسکتاہے آپ کو تمام رقم سے بھی ہاتھ دھونا پڑجائے، جس کیلئے آپ راضی ہیں، اب جب آپ آخرت کا ثواب اور جنت جیسی عظیم نعمتوں کا حقدار بننا چاہتے ہیں( اللہ پاک اپنے نبی اکرمﷺ کے صدقہ آپ کو ہمیں سب کو بنائے) تو پھر کچھ سختی یا مادی نقصان بھی آپ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ لیکن دوسری طرف آپ کو اپنے پیسوں کے de-valuation کا شکوہ ہے تو جواب وہی ہے” یاری وچ چوڑیاں ٹوٹدیاں ریندیاں، یا پہ یارانو کہ خو بنگڑی ماتی گی’!
نیز اگر یہی پیسے آپ اپنے پاس کسی ” مدنی تکیہ” میں سی کر، اچھی خوشبو لگاکر الماری میں بند کر لیتے اور چار سال بعد نکالتے تو کیا ہوتا؟ وہی کچھ ہوتا، جو اوپر ہواہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں پیسہ کو تجارت میں لگاکر سرکل میں رکھنا پسندیدہ ہے۔ جمع کرکے رکھنا نہیں۔ ایک حدیث شریف سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: ألا من ولى يتيما له مال فليتجر فيه ولا يتركه حتى تأكله الصدقة (ترمذی)
یتیم کے سرپرست کو چاہیئے کہ وہ اس کا مال تجارت میں لگائے، اور روکے نہ رکھے کہ زکوہ اس کو کھا جائے۔
[pullquote] آپ کسی کو پیسے دیتے ہیں تو کیوں دیتے ہیں ؟ [/pullquote]
متوقع طور پر چند وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہم موضوع سے متعلق کو ذکر کرلیتے ہیں، نیز یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ قرض دینا آپ کی مجبوری نہیں بلکہ یہ ایک صدقہ اور خیرات ہے۔ سماجی خدمت ہے۔ اب سمجھئے کہ وجوہات یہ ہوسکتی ہیں .
1۔ ھدیہ (Gift) دیا ہو۔
2۔ کاروبار کیلئے دیا ہو(investment)
3۔ بطور قرض حسنہ دیا ہو، پھر قرض حسن دو چیزوں کیلئے دیا جاسکتا ہے
حفاظت کیلئے یعنی اپنا روپیہ محفوظ کرنے کیلئے
2۔ compassionate یعنی ہمدردی کے جذبہ سے ( قرض کیلئے اکثر فقہاء کے نزدیک کوئی ٹائم لمٹ نہیں ہوتی، حتی سادات حنفیہ کے نزدیک اگر ٹائم مقرر کربھی لیاجائے توبھی اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔البتہ یہ بات قرض دیتے ہوئے آپ کو یہ یاد رکھنا ہو گا کہاگر آپ قرضہ حسن compassionate ہوکر دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس بات پر راضی ہیں کہ اگر قرض لیا شخص اپنی کسی مجبوری کے تحت آپ کو قرضہ واپس نہ کرسکا، تو آپ اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرسکیں گے)
اب ان عاجزانہ گزارشات کے بعد nutshell کیطرف آتے ہیں
[pullquote]آپ نے کسی کو پیسے کیوں دیئے تھے؟ گفٹ؟[/pullquote]
پھر تو بات ہی ختم ہوگئی ۔ کاروبار کیلئے تو پھر تو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہونا پڑے گا۔ اور کاروبار کی تفاصیل ڈکلیئر کرنی پڑیں گی۔ اور اگر قرضہ دیا تھا تو دونوں صورتوں کی تفصیل عرض کردی۔
[pullquote]دوسری بحث ذرا خشک سی اور نظریاتی قسم کی ہے،وہ یہ کہ پیسہ ہے کیا یعنی اس legal status کیا ہے؟ [/pullquote]
اس بارے دو نظریات ہیں
1۔غیر مسلم ماہرین معیشت کا نظریہ
2۔مسلمان فقہاء کانظریہ
غیر مسلم علماء اقتصاد کے نزدیک دنیا کی چیزیں دو قسم کی ہیں
1۔ consumption Goods) یعنی وہ چیزیں جن سے ڈائریکٹ استفادہ کیاجاسکتا ہے۔
2۔ (production Goods)جن سے ڈائریکٹ استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔
اب ان کے نزدیک پیسہ یا پیپر منی یا ثمن کہدیں اس کو رکھنے کیلئے کوئی خانہ نہیں تھا تو انہوں نے اس کو دوسری قسم میں ڈال دیا، اور اس کو بھی means of earning بنادیا. لہذا پروڈکشن گوڈز سے جو جو کام لئے جا سکتے ہیں وہ روپیہ سے بھی لئے جاسکتے ہیں۔ یعنی اس کو بیچنا، خریدنا، کرایہ پر دینا اس کو قرض دیکر اس پر نفع لینا وغیرہ وغیرہ۔ اب اس نظریہ کے حامی ڈی ویلیو یا inflation کے ساتھ ساتھ ایک اور بات بھی کرتے ہیں، علم الاقتصاد کی زبان میں اس کو opportunity cost یا الفرصۃ الضائعہ کہا جاتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے فلاں شخص کو جو تین ہزار ڈالر دیے تھے، اگر میں نہ دیتا اور ان سے کاروبار کرتا تو آرام سے دو سال میں ایک ہزار ڈالر مزید کما سکتاتھا، لیکن اس کو دینے کی وجہ سے میں نے منافع کی کی قربانی دی، لہذا مجھے اس کا بدلہ ملنا چاہیئے۔
باقی یہ نظریہ اتنا کمزور ہے کہ خود خود نان مسلم ماہرین نے بھی اس پر سخت تنقید کی ہے۔ Kewal krishan, dewett:اور Ludwig von mises) جیسے لوگوں نے بھی اس کو اس کے بارے بڑے سخت الفاظ لکھے ہیں۔ (میں نے اپنے بی ایس کے تھیسز شریعہ رولنگ آف بٹکوئین لکھتے وقت وہ ساری تفاصیل جمع کی تھیں)
جبکہ مسلم جیورسٹ کا نظریہ یہ ہے کہ پیسہ صرف ایک میڈئیٹر ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ لہذا جب تک کرنسی کی ویلیو موجود ہے، اس کو بیچا یا خریدایا کرایہ پر نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ ویلیو ختم ہونے کے بعد اس کی حیثیت ایک خوبصورت کاغذ یا ایک تصویر کیطرح ہوگی۔ جو اس کے جواز کے قائل ہیں ان کے نزدیک درست اور جو عدم جواز کے قائل ہیں ان کے نزدیک ناجائز ہوگا۔
واللہ اعلم