احترامِ رمضان جب کسی ناتراشیدہ اینکر کے ہاتھوں پامال ہو تو صحافتی اخلاقیات پر سوال اٹھتا ہے ۔ جب یہ حرکت پی ٹی وی پر ہو تو وزارت اطلاعات کٹہرے میں ہوتی ہے اور جب ایک ریاستی چینل پرایک ایسا اینکر اس کا ارتکاب کرے جو حکومتی ایم این اے بھی ہو تو پھر سوالات کا مخاطب حکومت وقت ہوتی ہے ۔ تب یہ سوال اٹھتا ہے کہ شعائر اسلامی کے بارے حکومت وقت کی پالیسی کیا ہے اور وہ چاہتی کیا ہے ؟
ماہ مقدس کے باب میں یہ چیز سمجھ لینی چاہیے کہ یہ انٹر ٹینمنٹ کا نہیں تزکیہ کا نام ہے ۔ ہمارے ہاں ہر چیز کمزشلائز ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ ہم نے’ کمرشلائزیشن آف رمضان ‘ کا حادثہ بھی رونما ہوتے دیکھا ۔ اقدار پامال کر دی گئیں اور احترام کے نازک آبگینے توڑ دیے گئے ۔ قدرے تاخیر سے ہی سہی مگر سماج میں اس بد ذوقی پر رد عمل آیا اور عدالتوں نے فیصلے کیے ، پیمرا متحرک ہوا اور یوں محسوس ہوا کہ طوفان بد تمیزی ختم تو نہیں ہوا لیکن کسی حد تک تھم ضرور گیا ہے ۔ اس سارے عمل میں پی ٹی وی ان چند چینلز میں سے ایک تھا جنہوں نے رمضان کے احترام کو مدنظر رکھا اور اسے کاروبار نہیں سمجھا بلکہ تزکیہ کی روح برقرار رکھی اور اپنی سنجیدگی اور ووقار کو کسی بد زبان اور بد ذوق کے پست رجحانات پر قربان نہیں کیا ۔
اب مگر حادثہ یہ ہوا کہ پست ذوقی اور بد زبانی کا یہ سونامی پی ٹی وی سے لپٹ چکا ہے اور اس قومی ادارے کی اقدار اور روایات بے رحمی سے پامال کی جا رہی ہیں۔ سوال وہی ہے: حکومت کہاں ہے؟ شعائر اسلامی کے بارے میں اس کی پالیسی کیا ہے؟
مزاح پطرس بخاری ہی کا کیوں نہ ہو ، اپنے مقام پر رہے تو اچھا لگتا ہے ۔ رمضان المبارک کا معاملہ بالکل الگ اور جدا ہے ۔ رمضان تہوار نہیں جہاں لونڈوں کے ہمراہ قہقہے بکھیرے جائیں ۔ رمضان انٹرٹینمنٹ بھی نہیں کہ مسخرہ پن کو گوارا کیا جائے ۔ رمضان عبادت اور تزکیہ کا مہینہ ہے۔ اب لازم ہے اس نسبت سے کوئی پروگرام ہو تو احترام رمضان کے تقاضے نظرانداز نہ ہونے پائیں. کسی کی افتاد طبع احترام رمضان کو مد نظر نہ رکھ پائے تو رمضان ٹرانسمیشن اس کا مقام نہیں. اپنے کمالات کے اظہار کے لیے اسے کسی اور فورم سے رجوع کرنا چاہیے.
بے ہودگی کسی شکل میں گوارا نہیں کی جا سکتی لیکن پی ٹی وہ پر تو بالکل بھی نہیں۔ یہ کسی ایک گروہ یا طبقے کا چینل نہیں۔ یہ قومی ادارہ ہے اور لازم ہے کہ اجتماعی قومی اقدار اور حساسیت کو یہاں ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ بجلی کے بلوں پر صارف سے ہر ماہ پچیس روپے کیا اس لیے ہتھیائے جاتے ہیں کہ اس چینل سے اجتماعی حساسیت کی توہین کی جائے اور اقدار پامال کی جائیں؟ سوال وہی ہے۔ وزارت اطلاعات کہاں ہے؟ حکومت کہاں ہے؟ اور اگر یہ بروئے کار نہیں آتیں تو پھر سوال یہ ہے کہ پارلیمان کہاں ہے؟
پی ٹی وی ریاست کا ادارہ ہے ۔ اور دستور پاکستان نے ریاست کو چند چیزوں کا پابند کر رکھا ہے۔آرٹیکل 31 میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جن کی روشنی میں لوگ نہ صرف قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزاریں بلکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم بھی سمجھ سکیں ۔غور فرنائیے، قرآن و سنت کے مطابق صرف زندگی گزارنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ ریاست کے لیے یہ بھی لازم قرار دیا گیا کہ وہ ایسے اقدامات کرے گی کہ لوگ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم اور حقیقت جان سکیں۔ کیا حکومت ہم طالب علموں کی رہنمائی فرمائے گی کہ ایک ریاستی نشریاتی ادارے پر رمضان ٹرانسمیشن میں جنسی لطائف کا سنایا جانا اس آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں؟
آزادی رائے کی ضمانت بلا شبہ دستور پاکستان میں فراہم کی گئی ہے لیکن آرٹیکل 19 میں آزادی رائے کی حدودوقیود بھی وضع کر دی گئیں ہے ۔ یہ آٹھ شرائط ہیں ۔اور پہلی شرط ہی اسلام کی شان و شوکت ہے۔ یعنی آزادی رائے کی آڑ میں ایسا کچھ نہیں کہہ سکتے جو اسلام کی شان و شوکت کے خلاف ہو۔ آرٹیکل 19 ہی میں لکھا ہے کہ آزادی رائے کو شائستگی اور اخلاقیات کے دائرے میں رہنا ہو گا۔اب آپ بتائیے ماہ مقدس میں آپ رمضان المبارک کی خصوصی ٹرانسمیشن کرتے ہیں اور وہاں آپ تفریح کا ساماں پیدا کرنے کے لیے ذو معنی جنسی لطائف کا سہارا لیتے ہیں تو کیا آپ آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی نہیں کر رہے؟
پیمرا آرڈی ننس میں ایک ضابطہ اخلاق دیا گیا ہے۔ اگر چہ پیمرا نجی سطح پر قائم کردہ الیکٹرانک میڈیا کے معاملات دیکھتا ہے تاہم اس کا جو ضابطہ اخلاق ہے اس کی حیثیت تو مسلمہ ہے۔ ایسا کہیں نہیں لکھا کہ یہ اصول صرف نجی چینلز کے لیے ہیں اور پی ٹی وی کو مادر پدر آزادی ہے وہ جو مرضی دکھاتا پھرے۔ایک ریاستی ادارہ ہونے کے ناطے پی ٹی وی کو زیادہ ذمہ دار اور زیادہ باوقار ہونا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کے ضابطے پامال کیسے ہو گئے؟ یہ سب کچھ سکرین پر چل گیا اور کسی نے ابھی تک نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اینکر کا تعلق اگر سرکاری جماعت سے ہو اور وہ رکن پارلیمان بھی ہو تو کیا اسے اخلاقیات اور اقدار کو پامال کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے؟
نجی چینلز کے خلاف تو شکایت کا ایک طریقہ کار موجود ہے سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی پر اخلاقی اور مذہبی اقدار پامال ہونے لگیں تو عوام الناس اس کی شکایت کہاں کریں اور کس سے کریں؟ کیا اس کا کوئی فورم موجود ہے اور کیا کبھی کسی نے عوام الناس کو اس بارے آگاہ کرنے کی کوئی کوشش کی؟پی ٹی وی انتظامیہ اور وزارت اطلاعات اس معاملے کی سنگینی کو اگر دانستہ طور پر نظر انداز کر دیں تو کیا ہم پارلیمان سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ حکومت سے جواب طلب کرے کہ پی ٹی وی ریاستی ادارہ ہے یا کسی کی کنیز؟
سماج اپنا شعوری سفر دھیرے دھیرے اور غیر محسوس طریقے سے طے کرتا ہے۔لیکن سفر جاری رہتا ہے۔ اس سفر میں جو آلائشیں سماج اپنی دہلیز سے اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک آتا ہے کوئی سونامی وہی غلاظت دوبارہ ان کی دہلیز پر لا پھینکے تو اسے المیہ ہی کہا جاتا ہے۔ ہماری قسمت دیکھیے یہ المیہ ہمارے سامنے رونما ہو رہا ہے۔ہم پی ٹی وی کی روایات اور اقدار کا جنازہ اپنے سامنے اٹھتا دیکھ رہے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون