یہ الفاظ میرے کانوں کو بڑے بھلے لگ رہے تھے کیونکہ آج کل بہت سے پاکستانی اپنے پیارے وطن کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کیفیت کا شکار رہتے ہیں۔ کسی بھی سیاستدان نے حکومت پر تنقید کرنا ہو تو وہ سب سے پہلے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حکمرانوں نے پاکستان کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ جب کوئی حکمران یہ تسلی دیتا ہے کہ گھبرائو نہیں ہم ایک نیا پاکستان بنائیں گے اور مشکلات کا دور بہت جلد ختم ہو جائے گا تو حکمران کی بات پر یقین کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کے حالات پہلے سے زیادہ برے ہو چکے ہیں۔ اِن برے حالات میں ایک شخص بار بار مجھے تسلی دے رہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے اور مجھے واقعی اُس کے الفاظ میں روشنی کی کرن نظر آرہی تھی کیونکہ وہ پاکستانی نہیں تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب آدھے سے زیادہ پاکستان خوف اور مایوسی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے تو یہ کون ہے جسے پاکستان کے مستقبل میں روشنی نظر آرہی ہے؟
پاکستان کے مستقبل کو روشن قرار دینے والے اِس شخص کا نام کونی نوری ماٹسوڈا ہے، جو پاکستان میں جاپان کے نئے سفیر ہیں۔ ایک جاپانی سفارتکار کی طرف سے پاکستان کے بارے میں یہ امید پسندی میرے لئے بہت غیر متوقع اور غیر روایتی تھی۔ یہ الفاظ چین کا سفیر کہتا تو میں مسکرا کر اُس کا شکریہ ادا کرتا اور گفتگو کا رخ پاکستانی دلہنوں کے سوداگروں کی طرف موڑ دیتا جو پاکستان سے دلہن خرید کر چین میں فروخت کرتے ہیں اور آج کل چین کی حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر اِن انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔
چین اور پاکستان کی دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری قرار دیا جاتا ہے لہٰذا چین کا کوئی سفارتکار پاکستان کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کرتا دکھائی دے تو ہم اُس دوست کا شکریہ تو ادا کر دیں گے لیکن سوچیں گے ضرور کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو کافی عرصہ ہو گیا ہے پھر بھی پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار کیوں نظر نہیں آرہے؟ پاکستان کے بارے میں ایسی ہی اچھی اچھی باتیں ترکی یا سعودی عرب کے سفارتکار کریں تو ہم یہی سمجھیں گے کہ ہمارے دوست ہمیں تسلیاں دے رہے ہیں لیکن جاپان کے سفیر کی گفتگو میں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ کونی نوری ماٹسوڈا پاکستان سے قبل امریکہ، روس، اسرائیل اور ہانگ کانگ میں سفارتکاری کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ اُنہیں جاپان کے شاہی خاندان کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔
کونی نوری ماٹسوڈا روسی زبان پر بہت عبور رکھتے ہیں اور پاکستان کو صرف جاپان نہیں بلکہ روس کی نظر سے بھی پرکھتے رہتے ہیں کیونکہ جب وہ ماسکو میں تعینات تھے تو اُنہیں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا احساس ہوا۔ وہ مدہم لہجے میں خوبصورت انگریزی بولتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ہم جاپانیوں کو اسکول میں ورلڈ ہسٹری کا ایک لازمی مضمون پڑھنا پڑتا ہے۔ اُس ورلڈ ہسٹری میں ہم موہنجوڈارو، ہڑپہ اور گندھارا تہذیبوں کے متعلق پڑھتے ہیں اور ہمیں اسکول میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اِن تہذیبوں کے آثار پاکستان میں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جب 1951میں سان فرانسسکو میں امن معاہدہ ہوا تو امریکہ نے جاپان پر اپنا قبضہ ختم کیا تھا، جن ممالک نے اِس امن معاہدے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اور اُس پر دستخط کئے، اُن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ چین کو یہاں بلایا ہی نہیں گیا تھا، بھارت کو بلایا گیا لیکن بھارت سان فرانسسکو نہیں آیا تھا۔
کونی نوری ماٹسوڈا کہہ رہے تھے کہ وہ اکثر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھارت وہاں کیوں نہیں آیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ دراصل بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اعلیٰ تعلیم برطانیہ میں حاصل کی تھی لیکن حقیقت میں وہ ایک سامراج دشمن انسان تھے۔ گاندھی اور نہرو نے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو بھارت کے گورنر جنرل کے طور پر قبول کر لیا تھا لیکن قائداعظم نے اُسے پاکستان کا گورنر جنرل تسلیم نہیں کیا کیونکہ اُسی لارڈ مائونٹ بیٹن نے 1945میں دوسری جنگ عظیم کے دوران سنگاپور میں جاپانی فوج کو شکست دی تھی۔ سنگا پور اور برما میں آزاد ہند فوج کے ہزاروں سپاہی جاپانی فوج کے ساتھ تھے۔
یہ فوج سبھاش چندرا بوس نے جاپان کی مدد سے کھڑی کی تھی، جس کا مقصد ہندوستان کی آزادی تھا۔ سنگا پور میں اُس فوج کے کمانڈر میجر جنرل محمد زمان کیانی تھے، جن کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے جنگی قیدی بن گئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ راولپنڈی آگئے اور اُنہوں نے کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا۔ جنرل محمد زمان کیانی سمیت آزاد ہند فوج کے سینکڑوں افسران اور جوان برطانوی فوج سے نفرت کرتے تھے۔ اُن سب کی ہمدردیاں جاپان کے ساتھ تھیں، اُنہوں نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا کہ جاپان سے اتحادی افواج کا تسلط ختم کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نہرو ڈبل گیم کررہا تھا۔ وہ ایک طرف روس کے ساتھ تھا دوسری طرف امریکہ اور برطانیہ کو بے وقوف بنارہا تھا۔ نہرو نے آزاد ہند فوج کے افسران اور جوانوں کو وہ عزت نہیں دی جو اُنہیں پاکستان میں حاصل تھی۔ اِس منافقانہ پالیسی کی وجہ سے نہرو نے معاہدہ سان فرانسسکو کی حمایت نہیں کی۔ میری گزارشات سن کر کونی نوری ماٹسوڈا نے اثبات میں سرہلا اور کہا کہ آج مجھے سمجھ آگئی بھارت معاہدہ سان فرانسسکو سے کیوں بھاگ گیا تھا۔
جاپانی سفیر کہہ رہے تھے کہ ایک زمانہ تھا کہ جاپان کے بڑے بڑے بزنس مین کراچی آیا کرتے اور میٹرو پول ہوٹل میں ٹھہرتے تھے۔ پھر زمانہ بدل گیا، پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں گرمجوشی نہ رہی، اب جاپان کی حکومت نے پاکستانیوں کو ورک پرمٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹویوٹا اور سوزوکی سمیت بہت سی کمپنیاں پاکستان میں کام کررہی ہیں اور اب نسان بھی پاکستان آرہی ہے۔ یہ میرے لئے ایک خوشخبری تھی کیونکہ نسان ایک ایسی جاپانی ملٹی نیشنل کمپنی ہے جو فرانس کی رینالٹ کی پارٹنر ہے۔ جاپانی سفیر نے کہا کہ وہ بہت جلد ایشیائی ترقیاتی بینک کے وفد کو بھی پاکستان آنے کی تجویز دیں گے۔
اِس بینک کا سربراہ جاپانی ہوتا ہے کیونکہ اِس بینک میں جاپان سب سے بڑا حصہ دار ہے۔ ڈنر ٹیبل پر میرے سامنے’’سوشی‘‘ لائی گئی تو جاپانی سفیر نے کہا کہ یہ جاپانی فوڈ ہے لیکن اِس میں استعمال کی گئی مچھلی، سبزیاں اور چاول سب پاکستانی ہیں۔ پاکستان میں سب کچھ موجود ہے صرف اُسے سنبھالنے اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ مشکل تھا لیکن اُس معاہدے کے بعد جاپانی سرمایہ کار بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کریں گے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ عالمی مالیاتی اداروں اور غیر ملکی حکومتوں کے پاکستان پر اعتماد کو مستحکم کرے گا۔
اِس طویل گفتگو کے اختتام پر کونی نوری ماٹسوڈا نے کہا کہ پاکستان کو صرف اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہونا بلکہ خطے میں استحکام کے لئے بھی پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لئے پاکستان اچھا کردار ادا کر رہا ہے، امید ہے پاکستان ایسا کردار سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کے لئے بھی ادا کرے گا۔ جاپانی سفیر بار بار کہہ رہے تھے جو کام پاکستان کرسکتا ہے وہ ترکی، انڈونیشیا یا کوئی دوسرا بڑا اسلامی ملک نہیں کرسکتا۔ میری زبان سے فوراً نکلا ’’ان شاءاللہ‘‘۔ جاپانی سفیر سے رخصت لے کر واپس آیا تو دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں جو یقین و اعتماد جاپانی سفیر کو ہے وہ یقین و اعتماد ہمارے سیاستدانوں کو بھی عطا کردے۔