جناب سید مراد علی شاہ صاحب ،مجھے بالکل اندازہ ہے کے آپ بہت مصروف انسان ہیں، دن رات ایک کرکے سندھ کے عوام کی خدمت کر رہے، مشکل سے ہی آپ چند گھنٹے نکال کر سو لیتے ہونگے اور دوران نیند بھی آپ سندھ کے خوشالی کے خواب ہی دیکھتے ہونگے. اب ایسے میں میرے اس فضول خط کو پڑھنے کا وقت تو آپ کے پاس بالکل بھی نہیں ہوگا پر خیر میں رہا عادتاً مجبور تو فضول باتیں کرنے سے باز آ نہیں آسکتا ۔میرا سلام قبول ہو..
شاہ صاحب گزارش یہ ہے آپ اس پارٹی کے ورکر ہیں جو روس اور چین کے انقلابوں سے متاثر ہوکر بنی تھی اور کسی وقت عوام کو سرخ انقلاب کے خواب بھی آپ کی پارٹی نے دکھلائے تھے جو پارٹی اب صرف جمہوریت تک محدود ہوگئی ہے. خیر میرے خط کا مطلب ان سب پر بات کرنا نہیں ہے، ان چیزوں پر کبھی چیئرمین صاحب کو خط لکھوں گا ۔شاہ صاحب آپ نہایت ہی قابل آدمی ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کے بینظیر صاحبہ نے کم عمری میں آپ کو پارٹی کے ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل کیا تھا۔آپ کی قابلیت پر تو کوئی شک نہیں پر آخر کیا وجہ ہے تیسری بار بھی آپ لوگ سندھ حکومت بنانے میں کامیاب ہو توگئے، مگر کوئی ایک بھی ایسا منصوبہ لگانے میں مکمل ناکام رہے جو سندھ بھر کے عوام کو پینے کا صاف اور میٹھا پانی فراہم کر سکے.
آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ آج بھی آدھے کراچی کے لوگ صبح آفس ،اسکول ،کالج یا یونیورسٹی جاتے وقت نہانے کے بجائے ہاتھ منہ دھوکر جاتے ہیں ، کئیوں کو تو یہ بھی نصیب نہیں ہوتا.۔ کراچی میں جتنی لڑائی جھگڑے، گینگ وار کے وقت میں بھی نہیں ہوئے ہونگے، جتنے آج کل پانی کی ایک ٹینکی بھروانے کے لئے ایک پلازہ میں رہنے والے لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں .
آخر کیا وجہ ہے کے آج بھی سندھ بھر کی اسپتالوں میں آدھے سے زیادہ مریض زہریلا اور نہ صاف پانی پینے کی وجہ سے بیمار اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے ہیں۔ ہاں شاہ صاحب آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ سندھ کے مختلف اضلاع جیسے کہ تھر ،بدین وغیرہ میں تو پانی کا نام بھی باقی نہیں رہا. کیا وہاں واقعی پانی کی قلت ہے یا پھر ایک سازش کے تحت وہاں کے مقامی لوگوں کی نقل مکانی کروائی جارہی ہے،تاکہ وہ زمینیں سرمایہ داروں کو دی جائیں تاکہ وہ وہاں انڈسٹری لگا سکیں؟
شاہ صاحب چلتے ہیں اگلی بات کے طرف سندھ بھر میں 500سو سے بھی زیادہ ایڈز کے مریضوں کی نشاندہی ہوئی ہے مگر آپ کی وزیر صحت اس طرح ری ایکٹ کر رہی ہیں جیسے کے ایڈز کوئی خطرناک وائرس کے بجائی کوئی موسمی بخار ہے۔ جناب اعلیٰ اور آپ کو ایک بات یاد دلاتا چلوں کے ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ کے گرد نواح سے ظاہر ہوئے ہیں۔ اب وہ معصوم بھولے بھالے لوگ ایک طرف تو اس بیماری کا نام سن کر پریشان ہیں اور افسوسن کر رہے ہیں کہ یا خدا کینسر ،ٹی بی، ہیپاٹائٹس دیا ہوتا اب یہ ایڈز کیا بلا ہے. اور دوسری طرف حکومت اور وزارت صحت کی لاپرواہی۔ "ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے ” جی شاہ صاحب سندھ کے لوگ مجبور وفا ہیں یا ان کی کوئی اور مجبوری ہےجو بار بار آپ کی پارٹی کے ہاتھ اپنے صوبے کی ڈوریاں دیتے ہیں. بادشاہ سلامت، گزارش ہے کہ ان سادہ دل لوگوں کو کم سے کم انسان تو سمجھیں. اب بیمار ہو بھی گئے ہیں تو دو گولیاں دلوا ہی دیں، اتنا تو حق بنتا ہی ہے ان کا ۔ باقی آپ کی شان سلامت رہے، غریب ہے، مر جائے گا، آپ کا دربار چلتا رہے.
شاہ صاحب، سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر پرائیویٹ کلینک کھول کر دکان داری بھی کر رہے ہیں اور سرکار سےتنخواہ بھی لے رہے ہیں۔تحصیل کی سطح پر اسپتالوں کا جو بھی بجٹ آتا ہے وہ کسی اسپتال میں خرچ ہوتا ہوا کہیں بھی نظر نہیں آتا. پھر وہ پیسے لوکل نمائیندوں کے جیب میں جاتے ہونگے یا کسی اور کے، لیکن عوام کو بس اتنا پتہ ہے کہ کسی سرکاری اسپتال کے طرف رخ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہاں بڑے شہروں کے اندر چند سرکاری اسپتال ہیں جو ایکٹو رهتے ہیں مگر وہاں بھی اچھی سفارش کی ضرورت رہتی ہے۔ علاوہ اس کے پورے سندھ کے اندر بیماری کی حالت میں لوگ کسی دربار کا رخ کرتے ہیں، یا پھر کسی مولوی سے تعویذ لیکر اپنی بیماری سے چھٹکارہ چاہنے کی کوشش کرتے ہیں،کیوں کہ انہیں اندازہ ہے کے کسی ہسپتال میں ذلیل ہوکر مرنے سے بہتر ہے کے کسی درگاہ میں سکون سے مر جائیں۔ پرائیویٹ اسپتالوں کا علاج تو صرف سندھ کے 5فیصد لوگ ہی خرید سکتے ہیں۔ میرے بادشاہ سلامت، آپ سن رہے ہیں نا..
شاہ صاحب، مجھے آپ کی قابلیت پر بالکل کوئی شک نہیں ہے، پر آخر ایسی کونسی رکاوٹ ہے جو تیسری مرتبہ سندھ میں حکومت بنانے کے بعد بھی ان مسائل سے نمٹنے کا کوئی حل نہیں نکال سکے ؟ میں تو حیران ہوتا ہوں پھر کیسے بلاول بھٹو صاحب نواز شریف صاحب کو سندھ کے اسپتالوں میں علاج کروانے کا مشورہ دے رہے تھے ! شاہ صاحب، حیران تو آپ بھی ہوئے ہونگے، ہے نا؟
جناب سید مراد علی شاہ صاحب، یقین مانیے کے اتنے مسائل میں سندھ کے عوام پھنسے ہوئے ہیں کہ کیا بتاؤں پر پتا نہیں کیوں آپ کے سی ایم ہاؤس کی دیواروں کے اندر کوئی بات کیوں نہیں پہنچتی. دیواریں شائید لوہے کی بنی ہوں، میرے بادشاہ کو سیکیورٹی کا مسئلہ بھی تو درپیش ہے، جان ہوگی تو جہان ہوگا، کیوں میرے بادشاہ سلامت!!
سر !! تعلیم کی صورتحال پر آپ کو یاد دلانہ چاہوں گا کہ پرائمری سے لیکر ہائی اسکولوں تک اس وقت صرف 20 فیصد ایسے اسکول ہیں جہاں پر درس تدریس کا عمل جاری ہے. اس کے علاوہ تمام اسکول صرف نام اور ریکارڈ میں اسکول ہیں جہاں اسکولوں والا کوئی کام نہیں ہوتا. اگر یقین نہ آئے تو میں آپ کو یہ سب وزٹ بھی کروا سکتا ہوں. اعلیٰ تعلیم کی اگر بات کروں تو سندھ کے مختلف اضلاع جوکہ اس وقت نہایت ہی پیچھے رہ گئے ہیں، ملک کے دوسرے ترقی یافتہ شہروں سے موازنہ کیا جائے، تو وہاں پر آج بھی کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں کے وہاں کے مقامی لوگ وہاں تعلیم حاصل کر سکیں۔ جیکب آباد ،کشمور، گھوٹکی، کمبر شہداد کوٹ، دادو ،تھر پارکر ان سارے اضلاع کے طلب علم دوسرے شہروں میں تعلیم کے لئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور وو غریب گھرانے جو یہ ٹھوکریں بھی افورڈ نہیں کر سکتے وہ تو تعلیم حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔
جناب سید مراد علی شاہ صاحب اگر ان لوگوں پر رحم کی نظر کریں گے تو آپ کا کیا جائے گا ایک ایک یونیورسٹی ان غربت زدہ شہروں کو بھی دے دیں۔
والسلام،
سندھ کا ایک عام شہری
علی برکت بلوچ