کل محترم سبوخ سید نے ایک پوسٹ لکھی جس میں روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے قرض دینے والے شخص کو ہونے والی نقصان کی تلافی کو سود سمجھنے یا نہ سمجھنے کا سوال اٹھایا گیا ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں ۔
” میں نے چار سال پہلے ایک صاحب کو آٹھ لاکھ روپے قرض دیا ، ڈالر اس وقت ایک سو روپے کا تھا ۔
اب ڈالر کی قیمت ایک صد بیالیس روپے ہے ۔ وہ مجھے جو رقم واپس کرے گا ۔ ہوگا تو وہ آٹھ لاکھ روپیہ لیکن ایک اس کی قیمت اب چھ لاکھ روپے ہوگی یہ تو روپے کی ویلیو کم ہوئی دوسری جانب مہنگائی اور اشیاء کی قیمتوں میں چار سالوں کے درمیان جو بے پناہ اضافہ ہوا ۔ اس پر غور کریں تو اب جو رقم وہ مجھے دے گا ، وہ ہوگی تو آٹھ لاکھ روپے لیکن اس کی قیمت چار لاکھ روپیہ ہوگی ۔
یوں میں نے آٹھ روپے دیکر واپس کیا حاصل کیا ہے ۔ چار لاکھ روپے ۔
اس کیس کو پلٹیے ۔۔۔
ربا کا مطلب استحصال ہے اور استحصال کس کا ہوا ؟
اور اس بندے نے ابھی تک میرے پیسے واپس نہیں کیے کیونکہ وہ اب بھی واپسی کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اسی وجہ سے میں اس سے مانگ بھی نہیں رہا ”
برادرم ذیشان ہاشم نے اپنی کتاب ” غربت اور غلامی کا خاتمہ کیسے ہو ” میں اس صورت کے ساتھ ساتھ بطور مثال دو مزید صورتوں کا بھی ذکر کیاہے ۔
1 میرے ایک دوست محمدارشد ملتان میں ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں ، مشرف دور میں ہوم فنانسنگ کا چرچا ہوا تو انہوں نے بنک سے ہوم فنانسنگ ( گھر پر قرض کی ایک قسم ) لی ، جس کا دورانیہ بیس سال تھا ، وہ اسی گھر میں رہتے ہیں جس کی انہوں نے فنانسنگ کروائی ہے ، وہ ماہانہ قسطوں میں آدائیگی کررہے ہیں جو اس سے نسبتا کم ہے اگر وہ ایساہی گھر کرایہ پر لیتے ، اب وہ بیس سال بعد یعنی 2021 میں اپنے گھر کے مکمل مالک ہوں گے ۔ اسی ملتان شہر میں میرے ایک اور دوست ہیں خالد صاحب جو ایک سرکاری ملازم ہیں ۔ خالد 1998 میں ملتان شفٹ ہوئے ، ماہانہ آج کل دس ہزار گھر کا کرایہ آدا کرتے ہیں اور جب مالک مکان کہے انہیں ایک ماہ کے نوٹس پر فورا گھر خالی کرنا ہوتاہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ استحصال محمد راشد کے ساتھ ہوا جو بیس سال کی ماہانہ ( مکان کی کرایہ کے برابر ) آدائیگیوں کے بعد گھر کے مالک بن جائیں گے یا استحصال خالد کا ہوا جو 1998 سے ماہانہ کرایہ کی صورت میں آدائیگی کے باوجود مالک مکان کے رحم وکرم پر ہیں ۔
2 ۔ میرے ماموں ایک بہت بڑے بیوپاری ہیں ، جو دیہات میں کسانوں کو اس شرط پر کھاد ، سپرے اور دوسری اجناس دیتے ہیں کہ جب فصل تیار ہوگی تو کسان انہیں وہ فصل بیچ کر اپنا قرض چکائے گا اور بقیہ رقم وصول کرلے گا ۔قرض کا عمومی دورانیہ تین سے چار ماہ ہوتاہے ۔ کھاد کی اگر نقد مالیت ایک ہزار ہے تو تین ماہ بعد تیرہ سو سے پندرہ سو وصول کی جاتی ہے ، اس سلسلے میں میرے ماموں کو ہمارے علاقے کے تمام علماء کا تعاون حاصل ہے جو فرماتے ہیں کہ یہ اجناس کا لین دین ہے ، سود یا ربا نہیں ہے ۔
جبکہ حکومت پاکستان کی زرعی ترقیاتی بینک یا دوسرے سبسڈی پر چلنے والے ادارے کسانوں کو سہ ماہی یا سالانہ قرض دیتے ہیں جن پر انٹرسٹ ریٹ تقریبا دس فیصد کے آس پاس ہوتاہے ( جس میں مرکزی بنک کی موجودہ شرح کی بدولت مزید کمی بھی متوقع ہے ) یعنی ایک ہزار کے قرض پر صرف اسی سے سو روپے ، سوال یہ ہے کہ انصاف کس صورت میں ہے اور استحصال کس صورت میں ۔
( غربت اور غلامی کا خاتمہ کیسے ہو ، صفحہ 90 ، 91)
سبوخ سید نے اپنی پوسٹ میں جس صورت کا ذکر کیاہے ، اور جس کا ذکر ذیشان ہاشم صاحب نے اپنی کتاب میں بھی کیاہے ، ایک مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل میں سود کے موضوع پر ہونے والے ایک مذاکرے میں مجھے ( بطور سامع ) شرکت کا موقع ملا تو اس مذاکرے میں محترم ڈاکٹر محسن نقوی نے بعینہ یہی سوال اٹھایا لیکن مجلس میں موجود علماء کرام میں سے کسی نے بھی اس کا جواب دینا شاید ضروری نہیں سمجھا ۔
اس موضوع پر ایک جگہ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے جوابی نکات مختصر سی صورت میں نظر سے گزرے تھے ( ان کے محاضرات اور کتاب ” حرمت ربا اور غیر سودی مالیاتی نظام ” میں نہیں ) بلکہ ان کے علاوہ کوئی دوسری کتاب میں ان کا ایک مضمون یا انٹریو تھا ۔ اگر دوستوں میں سے کوئی رہنمائی کرسکیں تو مہربانی ہوگی ۔