چنداجی جتنے پیارے ہیں اتنے ہی متنازعہ بھی ہیں۔یہ آج کی بات نہیں بلکہ زمانوں سے ایسے چل رہا ہے،جو چیز جتنی پیاری ہو وہ اتنی متنازعہ بن جاتی ہے،چاند چاہے حقیقی ہو یا معنوی اعتبار سے بولا جا رہا ہو،چاہے افق پر ہو یا سامنے گھر کی کھڑی میں ہویا پھر شاعر کی آمد و آوردکا موضوع ہو۔تنازعے کی صورت کہیں نہ کہیں ضرور نکلتی ہے۔مرزا غالب اپنی محبوبہ سے چاند کے اختلافِ احوال کی وجہ بتاتے ہوئے کہہ گئے تھے:
ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال
آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے
باقی صورتوں اور مہینوں میں ہو نہ ہو ماہ صیام کی آمد اور اختتام پر چاند صاحب خوامخواہ ہی متنازعہ بن جاتے ہیں۔اس تنازعے کا میں خودہوش سنبھالنے سے مسلسل چشم دید ہوں۔مسجد قاسم کی طرح میرے شہر میں بھی ہر سال دو بار یہی تنازعہ جنم لیتا رہا ہے۔ ماہ صیام یا عید الفطر کاا علان سرکاری طور پر جب بھی ہوتا تو اس کی باقاعدہ منادی شہرکی بلدیہ بھی تانگے پر لاؤڈ سپیکر لگوا کر اعلان کروایا جاتا لیکن شہر کی مسجد الصادق کے امام کو اگرشہادت موصول نہیں ہوئی تو سرکاری عید کے دن بھی بقول امام صاحب اپنے پیرو کاروں کے ان کو روزہ رکھوا کر”شیطان“ کے درجے پر فائز کروا یا جاتا اور اس روزہ رکھنے کا اعلان سائیکل رکشے پر لاؤڈ سپیکر لگوا کر پورے شہر میں اسی طرح منادی کروائی جاتی ،جس کے الفاظ کچھ یوں ہوتے:
”تانگے پو جو اعلان ہو رہا ہے وہ سراسر غلط ہے، عید پرسوں ہوگی۔“
اب اس اعلان پر کچھ حضرات روزہ بھی رکھتے اور ساتھ اپنی مخصوص لسانی ادائیگی میں بھاشن بھی دیتے وہ ملاحظہ کر لیجئے:
”یہ مفتن نہ مانے ہمیں سیطانن بناوے“(یعنی یہ مفتی صاحب سرکاری اعلان کو نہیں مانتے اور ہمیں عید کے دن روزہ رکھوا کر شیطان بناتے ہیں۔)اسی طرح کے کئی واقعات ہیں جنہیں روایت کیا جاسکتا ہے لیکن تنگیٔ داماں آڑے ہے۔
بھلا ہو فواد چودھری صاحب کا،انہوں نے اس طر ح کے واقعات خصوصاً صوبہ خیبر پختوانخواہ کے تجربے سے اپنی نئی وزارت کا رعب دبدہ بنانے کے لئے چاند جیسے صدیوں پرانے قضیئے کو چھیڑ دیا ۔ رمضان المابرک شروع ہوتے ہی انہوں نے آئندہ دس قمری سالوں کا کیلنڈربنانے کے لیے سپارکو، محکمہ موسمیات، ٹیکنالوجی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرد ی جو عیدین، محرم، رمضان سمیت تمام مہینوں کا کیلنڈرجاری کرے گی۔فواد چودھری صاحب کے بقو ل اس اقدام سے ہر سال رویت ہلال پرپیدا ہونے والا تنازع ختم ہوگا۔
اب آئیے پہلے سائنسی اور پھراس کے بعد احادیث کے حوالے کے ساتھ چاند کی رویت بارے سمجھانے کی سعی کرتا ہوں۔غلطی پر اصلاح کا متمنی ہوں۔
سب سے پہلے سائنسی مضمون کے ایسوسی ایٹ پروفیسر حسام الدین صاحب کا مضمون”چاند کی حقیقت اور رویت مسئلہ“ سے چند اقتباس پیش کرتا ہوں۔
”چاند زمین کے گرد اور زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔اس لئے زمین سورج کی روشنی کو ہمیشہ چاند کی مکمل سطح پرپہنچنے نہیں دیتی۔زمین کی رکاؤٹ کی وجہ سے چاند کے کبھی چھوٹے اور کبھی بڑے حصے پر سورج کی روشنی پہنچتی ہے تو جتنا حصہ اس روشنی سے چمکتا ہے، چاند کی اتنی شکل بنتی نظر آتی ہے۔کبھی پورے چاند پر روشنی پڑتی ہے جو گو ل شکل کا پورا چاند نظر آتا ہے اس طرح کبھی چاند ہلال،کبھی بد ر ہوجاتا ہے۔ہلال کی حالت میں چاند کے بہت باریک حصے پر روشنی پڑتی ہے، پھر اس کا سائز بڑھتا جاتا ہے۔ سات دن کے بعد آدھا اورچودہ دن کے بعد وہ مکمل چاند بدر کی حالت میں ہوتا ہے۔پھر اس کا سائز گھٹنے لگتا ہے،اکیس دن بعد وہ دوبارہ آدھے اورچھبیس دن بعد وہ غائب ہوتا ہے، اس پوزیشن کو محاق کہتے ہیں۔اس وقت چاند کے اس حصے پرروشنی پڑتی ہے جو زمین کی طرف نہیں ہوتا۔‘‘
پروفیسرصاحب کے مضمون کا ایک اور قتباس ملاحظہ کیجئے:
”چاند کی پیدائش زمین کے آسمان پر ایک ہی وقت میں ہوتی ہے لیکن چاند پیدا ہوتے ہی انسانی نظر میں آنے کی قابل نہیں ہوتا۔ کافی وقت گذرنے کے بعد یہ انسانی نظر میں آنے کے قابل ہوتا ہے، چونکہ چاند کا مدار بیضوی شکل کا ہو تا ہے اس لئے چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ کبھی 252710 میل تک زیادہ ہوتا ہے اور کبھی 221463میل تک کم ہو جاتا ہے، اس لئے اگر چاند زمین کے قریب ہو تو کم ازکم17 گھنٹے کی عمر کے بعد چاند انسانی نظر میں آنے کا امکان ہوتا ہے اور اگر فاصلہ زیادہ ہو تو 24 گھنٹے کی عمر کے بعد چاند انسانی نظر میں آنے کا امکان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات لوگوں کو شک ہوتا ہے جب وہ دوسرے دن کے چاند کے سائز کو دیکھتے ہیں جو بڑا نظر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ حکومت نے ایک دن کی غلطی کر دی لیکن یہ بات صحیح نہیں جیسے مثال کے طور پر اگر پہلے دن چاند کی عمر15 یا16 گھنٹے کی ہوتو وہ انسانی نظر میں نہیں آئے گا اور دوسرے دن وہ16+24=40 گھنٹے کا بن جائے گا جو بڑا بھی ہوگا اور زیادہ عرصے تک افق پر بھی رہے گا۔ یقینی طور پر29 دن والے مہینے کے چاند سے30 دن والے مہینے کا چاند بڑا دکھائی دے گا اس میں شک نہیں ہونا چاہیے20گھنٹے کی عمر والا چاند45 منٹ افق پر رہے گا اور40 گھنٹے کی عمر والاچاند90 منٹ اُفق پر رہے گا۔ اسکے علاوہ مشرقی نصف کُرے کے مغربی علاقوں میں چاند پہلے نظر آسکتا ہے کیونکہ مشرقی علاقوں میں چاند کی عمرکم ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہیں آسکتا جبکہ مغربی علاقوں میں پہنچتے پہنچتے اس کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے بڑ ا ہوتا ہے اور وہ نظر بھی آتاہے۔ہمارے ملک کے بھی انتہائی مغربی علاقوں مثلاً گوادر، پسنی اور جیوانی وغیرہ میں دوسرے علاقوں کی نسبت چاند نظر آنے کے امکانات زیادہ نہیں اور مشرقی وسطی کے ممالک میں اس لئے چاند پہلے نظر آتا ہے۔ موسم گرمامیں ملک کے انتہائی شمالی علاقوں مثلاً چترال اور گلگت میں چاند نظر آنے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔اوراس کے علاوہ چاند نظر آنے کے لئے سورج، چاند اور زمین کے درمیان بننے والے زاویے کی بھی اہمیت ہے۔اگر یہ زاویہ نو درجے سے کم ہوتو سائز بڑا ہو کر بھی چاند نظر نہیں آسکتا اور اس کے علاوہ موسم اور افق کی شفافیت بھی اہمیت کے حامل ہیں۔اور بادل چھا جائے اور گرد آلود ہوا کی کیفیت ہو تو چاند نظر نہیں آسکتا۔چونکہ زمین کے مدار اور چاند کے مدار میں تبدیلی آتی رہتی ہے کیونکہ یہ ہم سطح نہیں ہیں اور ہوا کی کیفیت بھی یکساں نہیں رہتی اور چاند کی رفتار میں بھی فرق ہوتا ہے کبھی زمین کے قریب ہو کر تیز گھومتا ہے اور کبھی زمین سے دور ہو کر آہستہ گردش کرتا ہے اس لئے ہم سائنسی طور پر مستقبل کے چاند کی پوزیشن بارے میں بات کر سکتے ہیں۔“
پروفیسر صاحب کے مضمون کے اس حصے تک تو محترم فواد چوہدری صاحب کی دلیل صحیح مانی جاسکتی ہے کہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت چاند وسورج،سیارے و سیارچے سب کی حرکت معلوم ہے لیکن کیا کیا جائے کہ یہ سائنس و ٹیکنالوجی جو فطرت اور تخلیق خدا وندی ہے اس کے کچھ اپنے اصول ضوابط اور گردش مدار کے قوانین ہیں۔احادیث کے حوالے سے قبل ایک آخری قتباس اسی پرفیسر صاحب کے اسی مضمون کا پیش کرتا ہوں جوسائنس و ٹیکنالوجی کے پروفیسر ہونے کے باوجود فواد چودھری صاحب سے اختلاف کر گئے ہیں،لکھتے ہیں:
”البتہ رویت ہلا ل کے بارے میں یقینی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس میں کئی ایک عوامل ہیں جو یکساں نہیں رہتے۔اس لئے حدیث شریف میں بھی چاند کو دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند کو دیکھ کر افطار کر نے کا حکم دیا گیا ہے۔سائنسی طور پر رویت ہلا ل کا کوئی کیلنڈر مرتب نہیں کیا جاسکتااور نہ ہی ہم کسی اور ملک کے اعلان اور مرتب کر دہ کیلنڈر کی پیر وی کرنے کے پابند ہیں کیونکہ ہمارے اور ان کے جغرافیا ئی حالات اور وقت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔“
(یہ مضمون پروفیسر صاحب نے 2016ء میں تحریرکیا تھا۔)
اب میں آتا ہوں اس فطری قاعدے اور قانون کی طرف جس کے حکم سے زمین و آسمان کا ہر ذرہ حرکت میں ہے اوراس کے قانون کو کئی صدیاں پہلے اس کے محبوب پیغمبر برحق آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لاگو کیا جس کی پیروی کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
اسلام میں سال میں دو تہواروں کو خوشی کے ایام کہا گیا ہے لیکن یہ دن محض رسمی تہوار نہیں بلکہ اسلام نے ان کو عبادت کے ایام کہا ہے۔اِن ایام کے آغاز انتہااور ان کو منانے کاطریقہ بھی اسلام نے وضع کر دیا ہے۔ رمضان، عیدالفطر اور عید الاضحیٰ ایسی عبادات ہیں جن کو منانے، شروع اور ختم کرنے کیلئے چاندکی رویت کا پابند کیا ہے۔اگر ان ایام میں کی گئی عبادات کوشریعت کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق نہ کیا گیا تو پھر یہ عبادتیں عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہونگی۔
حدیث کی مستند کتاب صحیح بخاری شریف میں ہے:
لاَتَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ وَلاَ تُفْطِرُوْا حتّٰی تَرَوْہُ فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہ
”روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو؛ جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو حساب لگالو(یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو)۔“
معلوم ہوا کہ شعبان کی29تاریخ کو چاند میں شک ہو جائے کہ ہوا یا نہ ہواتو اس دن روزہ رکھنا منع ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ شریعتِ اسلام نے جن معاملات کامدار چاند ہونے پر رکھاہے،اُس سے مراد چاند کا افق پر موجود ہونا نہیں بلکہ اُس کا قابلِ رویت ہونااور عام نگاہوں سے دیکھا جانا ہے۔
اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔
اَلشَّہْرُ تِسْعٌ وَّ عِشْرُوْنَ لَیْلَۃً، فَلاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْن
” مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کاہے؛ اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو (شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔“
لفظ ”رویت“ عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کے معنی:”کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے کے ہیں“۔
حدیث کے اس مفہو م کو اسی حدیث کے آخری جملہ نے اور زیادہ واضح کردیا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ اگر چاند تم سے مستور اور چھپا ہوا رہے یعنی: تمہاری آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں تو پھر تم اس کے مکلّف نہیں کہ ریاضی کے حسابات سے چاند کے وجوداور پیدائش معلوم کرو اور اس پر عمل کرو یا آلاتِ رصدیہ اور دور بینوں کے ذریعہ اُس کا وجود دیکھو؛ بلکہ فرمایا:
فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ•
یعنی: اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو تیس دن پورے کرکے مہینہ ختم سمجھو۔
لفظ ”غم الھلال علی الناس“ اُس وقت بولاجاتاہے؛ جب ہلال کے درمیان کوئی بادل یا دوسری چیز حائل ہوجائے اور چاند دیکھا نہ جاسکے۔
اب چودھری فواد حسین صاحب بتائیں کہ وہ قرآن وحدیث کے واضح حکم کے بعدسائنس و ٹیکنالوجی کی روشنی میں قمری کیلنڈرکیسے بنوائیں گے؟جب حدیث شریف کے مطابق یہ پابندی عائد کر دی گئی کہ چاند چھپ جائے یا بادل حائل ہو جائے اور نطر نہ آئے تو پیروی جاری صورتحال کی ہو گی اور چاند کے مستور ہونے یا بدل حائل کا مطلب یہ بھی واضھ کرہا ہے کہ چاند افق پر تو موجود ہے لیکن کسی سبب آنکھ سے اوجھل ہے۔اب چاند کے افق پر ہونے کو تو فواد چودھری صاحب کی سائنس و ٹیکنالوجی تو بتا دے دی جس سے کسی ذی شعور کو انکار نہیں لیکن کیا جائے کہ سرور کائنات کی حدیث جو دیکھنے اور شہادت کی پابندی عائد کر رہی اس کا روز قیامت فواد چودھری صاحب کیا جواب دیں گے؟جب تعلیم یافتہ افراد کی جانب سے ایسے بیانات آئیں گے تب مفتی منیب صاحب کا کہنا جائز بنتا ہے کہ دینی معاملات میں وزیر موصوف کی دخل اندازی ناجائز ہے۔جب ایسا رویہ اور سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر یقیناًمذہب کی تشریح و توضیع صرف مخصوص افراد کے پاس ہی رہ جاتی ہے ۔اسلام میں علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اور یہ فرض صرف دنیانوی اورسائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم نہیں بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں رہنے والے ضوابط سکھانے والے مذہب اسلام کی تعلیم فرض ہے تاکہ ہر بندہ خود ہی زندگی گزارنے کے اصول سیکھ کر امن سے رہ سکے اوراللہ تعالیٰ کی عطا کردہ فطری سائنس و ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے اور دنیان میں سائنس کی جتنی ایجادات ہیں ان کی عمل داری میں اللہ تعالیٰ کے ہی زمیں و آسمان میں پھیلائے ہوئے وسائل ہیں جنہیں انسا ن اپنی ایجادات میں استعمال کرتا ہے چاہے کوئی خدا کو مانے یا نہ مانے حالانکہ اس رب کائنات نے اپنی کتاب مبین میں صدیوں پہلے فرما دیا تھا:
”زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو“
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا یہ مطلب نہیں وہ چودہ سو سال پہلے متعین کردہ حدود کورد کردے اور چاند کی رویت سے متعلق واضح حدیث کو پس پشت ڈال کر چاند کے افق پر موجود ہونے کی سائنسی شہادت پر رمضان کے آغاز و اختتام کا اعلان کر دیا جائے اور پھر واضع حدیث کا کو سامنے لانے کو بوگس ذہنیت کا حامل قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے کہ یہ مولوی حضرات تو لاؤڈ سپیکر،تصاویر اور پرنٹنگ پریس کو بھی حرام قرار دیتے تھے۔اس دلیل پر بس اتنا ہی عرض ہے کہ دینی علم صرف مولویوں کے لیئے نہیں اس کا حاصل کرنا ہر مسلمان و عورت پر فرض ہے ہاں جب غیر مولوی احکام خداا ور رسول سے لا علم ہونگے تو پھر یہ صرف مولویوں کی میراث بن جائے گا جس کے نتیجے میں مولوی اور غیر مولی کے درمیان تنازعات پیداہوتے رہیں گے۔بہتر یہی ہے کہ کسی بھی بیان سے قبل قرآن اور مستند احادیث کا مطالعہ کرلیاجائے۔
آخر میں فواد چودھری صاحب کیلئے ابنِ انشا کا ایک شعر جو مجھے ہمیشہ پسند رہا ہے:
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا،چاند کسی کا ہوتا ہے؟
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے اے میرے اچھے انشا چاند