عالمی سطح پر ریاستی بحران زور پکڑ رہے ہیں۔بھارت میں حالیہ انتخابی نتائج کے بعد ریاستی ڈھانچے پر بحث و مباحثے سر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔یہی صورتحال پاکستان میں بھی نظر آرہی ہے۔سندھ میں نمائندگی کے دعویدارآصف علی زرداری نے اپنی نمائندگی کا سراٹھاتے ہوئے واضح طور کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستانی فیڈریشن کے اختیارات تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔یہی صورتحال بھارت میں ہے جہاں حالیہ انتخابات کے نتیجے میں تقسیمِ اختیارات کی بحث شروع ہو چکی ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ برصغیر میں تقسیمِ اختیارات کے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟دونوں بڑی عالمی طاقتیں ‘ امریکہ اور چین ‘دو طاقتوں کے مابین اپنے اختیارات میں باہمی توازن پر بھی (تقسیم اختیارات ) کے معاملات طے کرنے کی راہ پر چلتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔
چین کے ساتھ ٹیکنالوجی وارمیںامریکہ نے چین اور اس کی عالمی سطح پر مسابقتی ٹیک کمپنیز‘ ہیوی ٹیکنالوجی پردو اہم حملے کیے ۔15 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے‘ جس میں غیر ملکی کمپنیوں کا دائرہ کار واضح کیا گیا ۔ تیار کردہ مسودے میںمعلومات اور مواصلات کی تکنیک شامل ہے۔کچھ مخصوص معاملات کو روکنے کے اختیارات بھی دیے گئے ۔ امریکی صدر کے حکم میں چین اوراس کی ٹیکنالوجی کمپنی (ہواوے) کا واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیامگر ان احکامات کے پیچھے مقاصد واضح ہیں۔ امریکہ نے 5G نیٹ ورک اور دوسرے اہم بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے کئی پابندیاں لگائیں۔ ایک ہی دن امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا کہ ہواوے(چینی ٹیکنالوجی کی کمپنی) اوردیگر چینی کمپنیوں کو ایک فہرست میں شامل کیا ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی امریکی کمپنی جو ٹیکنالوجی‘ خدمات یا مصنوعات برآمد کرنا چاہتی ہے ‘اسے امریکی حکومت سے خصوصی لائسنس لینا ہوگا۔
دونوں فیصلوں سے چین کی معیشت کو نقصان پہنچے گا‘خاص طور پر اگر امریکہ سختی سے انہیں نافذ کرنے کا انتخاب کرتا ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر زیادہ تر ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کررہا ہے۔اسے ہواوے اور چین کے ٹیکنالوجی سیکٹر کو بڑا خطرہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ اہمیت کا حامل ہے‘ ان کے قوائد و ضوابط سے بہت سے امریکی سپلائرز چلتے ہیں‘جس پر ہواوے اور دیگر چینی ٹیک کمپنیوں کا انحصار بھی ہے ۔ پیچیدہ قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ کام کرنے کو محدود کیا جا رہا ہے ۔
ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر وسیع ہے‘ یہ کامرس ڈیپارٹمنٹ کو چینی کمپنیوں کے ساتھ ٹرانزیکشنز کو روکنے کی اجازت دیتا ہے۔چینی مواصلاتی کمپنی سمیت کئی کمپنیوں پر پابندیاں لگائی گئیں‘ امریکہ ٹیلی مواصلات کے بنیادی ڈھانچہ کو دوبارہ ترتیب دیا جارہا ہے ‘اسے اپنے لوگوں کے لیے خطرہ بھی قرار دیاگیا۔ ایک اہم بنیادی ڈھانچہ امریکہ کی ڈیجیٹل معیشت ہے۔ وسیع پیمانے پر طاقتور سائبر قانون ملتے جلتے ہیں‘ انہی کو جواز بناتے ہوئے امریکہ نے چینی مواصلاتی کمپنی پر الزامات لگائے۔ٹرمپ کے آرڈرکا مطلب ہے کہ چین ایک ایسی کمپنی کو تیار کر رہا ہے جو امریکی معلومات ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کوچوری کر کے امریکہ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ کامرس ڈیپارٹمنٹ کی انتظامی حکم کی تشریحات دیکھنے کے لئے اہم بات یہ ہے کہ ہدایات اور قواعد و ضوابط جاری کرنا شروع کررہا ہے‘ جس میں ٹیکنیکل طور پر گھروں میں استعمال ہونے والے روٹرز اور سوئچوں کے طور پراستعمال ہونے والے چھوٹے آلات کا سامان ختم کرنے کا سوچ رہا ہے۔ کامرس ڈیپارٹمنٹ نے ان ہدایات کو جاری رکھنے کے لئے ایک 150 دن کا وقت مقرر کیا۔
امریکی ایگزیکٹو آرڈر سے قبل چینی مواصلاتی کمپنی پر کئی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ٹیک کمپنی کی مصنوعات امریکہ میں کافی بڑی تعدادمیں فروخت ہوتی ہیں جومجموعی منافع کا ایک نسبتاً چھوٹا سا حصہ نہیں۔ چینی ٹیک کمپنی کے پرزہ جات صرف امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں برآمد کیے جاتے ہیں۔اب اس کمپنی نے 5 جی نیٹ ورک گیئر کی تعمیر بھی شروع کر رکھی ہے‘ جدیدسمارٹ فونزبنانے اور یہاں تک کہ مخصوص چپس تیار کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔چینی کمپنیوں پر عالمی مارکیٹ کافی حد تک انحصار کرتی ہے ۔چھوٹے چھوٹے پرزہ جات درآمد کرتے ہیں‘ان میں کئی امریکی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
نومبر 2018ء میں امریکہ نے 92 اعلیٰ سپلائرز کی ایک فہرست جاری کی‘ ان میں سے 33 سپلائرز امریکی کمپنیاں تھیں۔ واشنگٹن نے 2018ء میں ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھائے تھے‘ جب کامرس ڈیپارٹمنٹ نے ایک اور چینی ٹیکنالوجی کمپنی ZTE کو برآمدی استحکام سے عارضی طور پر مسترد کردیا تھا۔ تاہم امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ چین میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے معاہدے کی اجازت دینے میں لچکدار ی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔اگرچہ یہ آسان عمل نہیں ہوگا۔
امریکی پابندیوں کے باوجود تجارت کامحکمہ اجازت دینے میں لچکدار ی دکھا سکتا ہے‘جو نئے نامزد سپلائرز کے لئے دردسر کا باعث بنے ہوئے ہے۔ بڑی امریکی کمپنیاں پیچیدہ امریکی عالمی ایکسچینج کنٹرول قوانین کی نگہداشت کرتی ہیں‘ لیکن امریکہ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ قوانین کی پیچیدگی سے بچنے کے لیے بڑے اقدامات کریں۔ ٹیکنالوجی سیکٹر کے خلاف حرکتیں امریکہ اورچینی تجارتی مذاکرات میں کئی بار دیکھنے کو ملیں۔
واشنگٹن نے بیجنگ کو چار ہفتے کا نوٹس دیا ہے کہ اس سے قبل امریکہ معاہدے کرے۔ چینی درآمدات کے ٹیرف پر نظر ثانی کرنا ہوگی جو ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ چین کی جانب سے موقف سامنے آیا کہ تجارت پر نئے معاہدے کرنے میں کامیاب ہونے کی امید رکھتا ہے۔ امریکہ اور چین تجارتی جنگ میں تمام مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے کوئی فارمولہ دریافت کرسکتے ہیںجس کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
گلوبل ٹیک دنیا میںسوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا امریکہ اور چین ایک طویل گلوبلائزڈ شعبے کو الگ کرنے کی کوشش کریں گے؟ جو طویل پیچیدہ سپلائی چینلز کا حامل ہو سکتا ہے ۔دونوں طاقتوں کے مابین توازن طاقت کی قیاس آرائیوں کی ممکنہ گنجائشوں پرغورو خوض شروع ہو چکا ہے۔ دونوں فریق یقینی طور پر نئے قواعددریافت کرنے پررضا مند ہو سکتے ہیں۔دنیا میں تبدیلیوں کے حیرت انگیز امکانات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ بھارت ‘امریکہ اور چین کے ساتھ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی بقائے باہمی کے راستے نکالنا ضروری ہو جائیں گے۔