آٹھ نو دس ہوئے ، بس انشا ء بس

وہ مغلیہ دور حکومت تھا جس کے تذکرے ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں ، یہ شغلیہ دور حکومت ہے پھٹی آنکھوں سے ہم جس کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ روش روش ٹوٹے وعدوں کی کرچیاں بکھری پڑی ہیں ۔ صبح دم فراق گورکھپوری یاد آ جاتے ہیں:

’’ جو کہا تھا اس نے مجھ سے ، جو کیا ہے اس نے مجھ سے
میری بے کسی سے پوچھو کہ ہے غم بھی آبدیدہ ‘‘

عمران کے بارے اب بھی حسن ظن ہے لیکن اس کے میمنہ میسرہ پر جو جنگجو کھڑے ہیں اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ شجاعت ، دلاوری ، حکمت اور بصیرت انہیں چھو کر نہیں گزری ۔ یہ وہ لشکری ہیں جو صرف فیس بک پر داد شجاعت دیتے ہیں ۔ رستم اور سہراب تو ان میں بہت ہیں مگر صرف ٹوئٹر کے ۔ زمینی حقائق کیا ہیں اور اہلِ زمین پر کیا بیت رہی ہے ، ان کی جانے بلا ۔ ستم کوشوں کو کوئی خبر کرے ، اس رویے سے تو تہذیبیں غروب ہو جاتی ہیں ، ایک گروہ کیسے سرخرو ہو سکے گا ۔ سمجھ نہیں آ رہی جو اپنے ساتھ ہو رہی ہے اس پہ رویا جائے یا جو عمران کے ساتھ ہو رہی ہے اس پر آنسو بہائے جائیں ۔

وزراء کیا کم تھے کہ اب لاٹ صاحب عزت مآب ڈپٹی کمشنر اسلام آباد بھی میدان میں آ گئے ہیں ۔ ٹوئٹر پر ایک محفل سجی ہے ۔ روز نیا تماشا ، روز نیا لطیفہ ۔ لاٹ صاحب مصرعہ اٹھاتے ہیں اور خوشامدیوں کا لشکر شام تک لاٹ صاحب جواں بخت کا سہرا کہتا رہتا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے راز کی یہ بات شاید پا لی ہے کہ مملکت خدادا د میں جب ہر شہسوار صرف سوشل میڈیا پر گھوڑے دوڑا کر کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے تو وہ اپنے گھوڑے باندھ کر کیوں رکھیں۔چنانچہ اب عالم یہ ہے کہ لاٹ صاحب کے ٹوئٹر پر اسلام آباد کا حلیہ بدل چکا ہے۔ نہ کہیں چور بازاری ہے نہ گراں فروشی ۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور رعایا لاٹ صاحب کے اقبال کی بلندی کے لیے روز ٹوئٹر پر دعاگو ہوتی ہے۔

زمینی حقائق سے بے نیاز ہو کر سوشل میڈیا پر آپ خود کو اور چند گماشتوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں ، حقائق نہیں بدل سکتے ۔ لاٹ صاحب بھی یہی کام کر رہے ہیں ۔ کیمرہ مین ساتھ لے جا کر کارروائی ڈالتے ہیں ٹوئٹر پر ڈال دیتے ہیں ۔ اشیائے خوردو نوش کی جو قیمتیں لاٹ صاحب کے ٹوئٹر پر پائی جاتی ہیں ، پورے اسلام آباد میں ان کا کہیں کوئی وجود نہیں ۔ ایک خیالی دنیا ہے اور لاٹ صاحب گھوڑے دوڑا رہے ہیں ۔ گھوڑے اتنے با سعادت ہیں کہ دوڑ ہی نہیں رہے ہنہنا بھی رہے ہیں ۔

لاٹ صاحب نے ٹوئٹر پر حکم سنایا : آج سے اسلام آباد میں دودھ 65 روپے لٹر فروخت ہو گا ۔ گداگران سخن نے ٹوئٹر پر مرحبا ، آفرین کے نعرے الاپ دیے ۔ غریب پرور لاٹ صاحب کے سہرے کہے جا رہے ہیں اور مشاعرہ تھمنے میں ہی نہیں آ رہا ۔ لیکن زمینی حقیقتیں کیا ہیں ، جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں۔ 65 روپے لٹر دودھ کی فروخت ممکن ہی نہیں ۔ 65 روپے لٹر کے حساب سے دودھ صرف ٹوئٹر پر مل سکتا ہے۔چنانچہ اس وقت اسلام آباد میں اس قیمت پر صرف لاٹ صاحب کے ٹویٹر پر دودھ موجود ہے ۔ بازار میں اس کے نرخ کچھ اور ہیں ۔ چند مخصوص جگہوں پر اس مقررہ قیمت پر اگر دودھ دستیاب ہے بھی تو اسے دودھ کہنا تہمت کے سوا کچھ نہیں ۔

لاٹ صاحب کو معلوم ہی نہیں کہ ایک بھینس ایک وقت میں کتنا دودھ دیتی ہے اور اس کے چارے اور نگہداشت اور ادویات پر کتنا خرچ اٹھتا ہے ۔ انہوں نے یہ معلوم کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ ان کے پیش نظر ٹوئٹر پر کمالات دکھانا تھے تا کہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں ۔ ایک کارروائی ڈالنا تھی سو ڈال دی ۔ اب ان کی بلا سے دودھ کی جگہ پائوڈر بیچا جائے یا کیمیکل سے دودھ تیار جائے ۔ انہوں نے 65 روپے ریٹ طے کر کے ٹوئٹر پر ڈال کر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں ۔ اب حکومت اگر اس طرح کے طفلان خود معاملہ نے چلانا ہے تو انجام نوشتہ دیوار ہے ۔

عمران خان برف کا ایک باٹ ہیں جو دھوپ میں رکھ دیا گیا ہے ۔ افسوس ہوتا ہے اور دکھ بھی ۔ عمران خان کرپٹ نہیں ہیں ۔ عمران خان نے سیاست کی آڑ میں خاندان کی ایمپائر نہیں کھڑی کرنی ، عمران خان نے اقتدار کی آڑ میں اپنے کاروبار کو بھی آگے نہیں بڑھانا ۔ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ وہ ٹارزن بھی نہیں ہیں ۔ وہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے ۔ انہیں ٹیم چاہیے ۔ اور ان کی ٹیم کا جو حال ہے ہمارے سامنے ہے ۔ کھلنڈرہ پن ، لا ابالی مزاج ، آتش فشاں لہجے ، دوسروں کے گریباں نوچ پھینکنے پر ہر دم آمادہ لیکن مروت ، تحمل ، وضع داری ، خوئے دلنوازی ، معاملہ فہمی ، حکمت اور اہلیت سے بالعموم بے نیازی ۔ اس رویے کے ساتھ تو گھر نہیں چلتے ، ملک کیسے چلے گا۔

بعض وزراء تو سماج کو ایسے سینگوں پر لیے ہوئے ہیں جیسے اندلس کا کوئی بُل محلے میں گھس آئے ، ہے تورو ، ہے تورو ۔ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حکومت تعمیر اور خیر خواہی کا نام ہے ۔ بہت سارے معاملات جو اچھے طریقے سے سلجھائے جا سکتے ہیں محض وزراء کے ناتراشیدہ رویوں سے الجھ جاتے ہیں ۔ ابھی رویت ہلال کا معاملہ دیکھ لیجیے ، فواد چودھری نے بلاوجہ نفرت اور تعصب کو فروغ دیا ۔ یہ بات شائستہ انداز میں بھی کہی جا سکتی تھی لیکن یہ بھاری پتھر اٹھانا شاید ان کے بس سے باہر ہے ۔ دوسروں کی توہین ، تذلیل اور تضحیک کا یہ رویہ اب تکلیف دہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جس تسلسل سے اس رویے کو فروغ دیا جا رہا ہے معلوم یہ ہوتا ہے یہ افتاد طبع کا معاملہ نہیں طے شدہ پالیسی ہے ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سماج کی اس تذلیل مسلسل سے کوئی خیر برآمد ہو سکتا ہے؟

تحریک لبیک کے رہنما کی ضمانت منظور ہوئی تو وزیر با تدبیر عدلیہ پر چڑھ دوڑے ۔ یہ دیکھنا تو اب عدالت کا کام ہے کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے یا نہیں لیکن میرے جیسا طالب علم یہ سوچ رہا ہے کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر کا اس سے کیا تعلق ہے کہ کسی کی ضمانت منظور ہو رہی ہے یا نہیں ۔ انشاء بھی کہاں یاد آئے:
’’ایک دو تین چار پانچ چھ سات
آٹھ نو دس ہوئے بس انشاء بس‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے