پچھلے ہفتے دنیا چینل کے مشہور اینکر دوست کامران شاہد کے پروگرام میں ارشاد بھٹی، جنرل اعجاز اعوان، علی احمد کرد اور میں‘ شریک تھے۔ کامران شاہد نے خبر دی: حکومت شدت سے چاہتی ہے کہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام میں جو مایوسی پھیل رہی ہے اس پر میڈیا عوام کو سمجھائے اور تاثر بہتر کرے۔
میں نے کہا: کامران‘ تو پھر عمران خان صاحب نے وزیروں کی جو فوج بھرتی کی ہوئی ہے وہ کس کام کے لیے ہے اگر حکومتوں کا دفاع میڈیا نے کرنا ہے؟ وزیر مزے کریں، مال بنائیں، کرپشن کریں اور غلط فیصلے کریں جن کے نتیجے میں عوام پھٹ پڑیں یا بلبلا اٹھیں لیکن میڈیا انہیں تسلی دیتا رہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا؟
دوستوں کی محفل میں بھی ایک اہم دوست نے انکشاف کیا کہ حکومت نے میڈیا سے رابطے کیے ہیں کہ ہاتھ ذرا ہولا رکھا جائے اور مدد کی جائے۔ عمران خان کے ایک میڈیا ایڈوائزر کے بارے میں اس دوست نے کہا: وہ کہتے ہیں‘ اپنے ٹی وی اینکرز کو بتائیں کہ وہ مدد کریں اور عوام کو عمران خان کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں مثبت انداز میں سمجھائیں۔
اس محفل میں وہی پرانے دوست ارشد شریف، خاور گھمن، ضمیر حیدر، عدیل راجہ، علی اپنے دوست شاہد بھائی کے گھر جمع تھے‘ جو ہمارا ٹھکانہ ہوتا ہے۔ اس دوست کا کہنا تھا: میں نے حکومت سے کہا ہے کہ چلیں ٹھیک ہے‘ آپ بدلے میں چینلز کو اشتہار دیں گے‘ لیکن یہ بتا دیں دفاع کیسے کرنا ہے؟ کچھ پوائنٹس بھی بتائیں جو عوام کو بیچے جائیں تاکہ یہ نہ لگے کہ میڈیا حکومت کے ساتھ مل کر نیا کھیل کھیل رہا ہے۔ ایڈوائزر کا جواب ملا: یہ سب جواز اور نکتے آپ خود ڈھونڈ کر پہلے اپنے اینکرز کو سمجھائیں اور اینکرز آگے عوام کو سمجھائیں۔
میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے کہا: یہی حکومت کچھ دن پہلے تک میڈیا گروپس کو سمجھا رہی تھی کہ وہ اپنے بزنس ماڈل درست کریں۔ ہمیں طعنے مل رہے تھے۔ وہی اب خود اسی ”نالائق اور نااہل‘‘ میڈیا سے مدد مانگ رہے ہیں۔ عمران خان کے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری آتے جاتے میڈیا کو دو تین ‘چپیڑیں‘ مار رہے تھے۔ عمران خان کو سجھایا گیا کہ میڈیا کو دبا کر رکھیں۔ میڈیا کا دماغ خراب ہو گیا ہے اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے میڈیا سیل نے سوشل میڈیا پر ہر اس صحافی کو گالیاں دیں جس نے ذرہ بھر بھی تنقید کی۔ اب حکومت چاہتی ہے‘ میڈیا ساتھ دے اور لوگوں کو مشکلات سمجھائے۔ سوال یہ ہے کہ چند ماہ پہلے تک جس میڈیا پر تبرہ کیا جاتا تھا اور ملک کے تمام مسائل کا ذمہ دار سمجھا جا رہا تھا‘ وہی اب کیسے عوام کو معیشت کی تباہی، ڈالرز کی اڑان، گیس، بجلی، تیل کی قیمتوں اور سات سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگنے کی خبروں کو اچھے طریقے سے عوام کو بیچ سکتا ہے؟ مان لیتے ہیں میڈیا تیار ہو جاتا ہے‘ توکیا عوام اپنی جیب سے سات سو ارب روپے نکال کر حکومت کی ہتھیلی پر رکھ دیں گے کیونکہ میڈیا کہہ رہا ہے؟
جب مہنگائی بڑھ رہی ہے اور لوگوں کی اپنی آمدن بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے تو مجھے سمجھائیں لوگ کہاں سے سات سو ارب روپے لائیں گے تاکہ وہ ٹیکس ادا کر سکیں؟ پہلے ہی اسد عمر نے گیس پر سو ارب روپے کے ٹیکس لگائے، بجلی اور تیل مہنگی کرکے گئے۔ وہ اربوں روپے ابھی لوگ ادا کر رہے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے سات سو ارب روپے کے مزید ٹیکس لگیں گے۔ جب لوگوں کی انکم ہی نہیں بڑھی تو وہ کہاں سے پیسے لائیں گے؟ وہ اپنے اخراجات کم کریں، لائف سٹائل نیچے لائیں، بچوں کو اچھے سکولوں سے نکال کر فیسوں سے پیسہ بچائیں، گاڑی بیچ کر موٹر سائیکل پر سوار ہو جائیں یا موٹر سائیکل چھوڑ کر سائیکل پر آ جائیں یا پھر سائیکل پر ہیں تو پیدل چلنا شروع کر دیں، بچوں کی شادیاں کرنا ہیں تو اس پر مہمان بلانا بند کر دیں تاکہ جو بچت ہو اس سے ٹیکس ادا کر سکیں؟ آخر کچھ نہ کچھ تو عوام کو کرنا ہو گا کہ وہ سات سو ارب روپے کے نئے ٹیکس دیں۔
میرا خیال تھا پاکستان میں کسی حکومت کے تین اہم فیز ہوتے ہیں۔ نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو وہ مغروریت سے بھری ہوتی ہے کہ عوام نے اسے ووٹوں سے منتخب کیا ہے اور وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ عوام بھی نئی حکومت کے نئے ٹیکس اور مشکل فیصلے برداشت کر لیتے ہیں کہ چلیں نئی حکومت کو وقت دیں۔ حکومت غیر مقبول فیصلے کرے تو بھی چل جاتے ہیں۔ اس وقت میڈیا میں اگر حکومت کے خلاف خبر چھپ جائے تو بھی لوگ پروا نہیں کرتے۔ اس لیے حکومتیں میڈیا اور صحافیوں کی خبروں کو اہمیت نہیں دیتیں۔
دوسرا مرحلہ حکومت کے دوسرے سال شروع ہوتا ہے جب میڈیا حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن سامنے لانا شروع کرتا ہے تو حکومت اسے دبانا اور دھمکانا شروع کر دیتی ہے۔ یہ کام بھی ایک ڈیڑھ سال تک چلتا ہے۔ میڈیا مالکان پر دبائو ڈالا جائے گا۔ اینکرز اور صحافیوں کو بھی ڈرایا جائے گا کہ ان کی نااہلی عوام کے سامنے نہ لائی جائے۔ لیکن اس دوران حکومت اپنی پرفارمنس درست کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ سارا زور عیاشیوں اور نالائقیوں پر ہوتا ہے۔
حواری یہ سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ حکومت درست چل رہی ہے لیکن میڈیا عوام میں مایوسی پھیلا رہا ہے۔ جب بھی حکومت اپنی پرفارمنس سے لوگوںکو مطمئن کرنے میں ناکام رہتی ہے تو میڈیا کی خبریں اور پروگرام لوگوں میں مقبول ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو ان کی بات کر رہا ہے۔ جو عوام کچھ عرصہ پہلے میڈیا پر تبرہ کرتے تھے کہ وہ نئی حکومت کو وقت نہیں دے رہا‘ وہی عوام الٹا میڈیا پر تبرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ حکومت کی نااہلی پر خاموش کیوں ہے؟ حکومت کی کرپشن کی خبریں کیوں چھپا رہا ہے؟ عوام میڈیا پر الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ حکومت کے ہاتھوں بک گیا ہے جبکہ وہ ذلیل ہو رہے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد دوسرا فیز ختم ہو جاتا ہے اور حکومت میڈیا کو گالی گلوچ اور دھمکیاں دے کر بھی ناکام رہتی ہے تو پھر اس کا تیسرا اور آخری فیز شروع ہوتا ہے۔
تیسرے فیز میں میڈیا کو بلا کر دوستی کی درخواست کی جاتی ہے‘ اور کچھ فائدے پہنچانے کا لالچ دیا جاتا ہے کہ اپنی ٹی وی سکرین پازٹیو کریں۔ فرینڈلی پروگرام کریں۔ کچھ مہربانی فرمائیں۔ میں نے کہا: اگر نواز شریف میڈیا پر چوبیس ارب خرچ کرنے کے بعد بھی بیٹی سمیت اڈیالہ جیل جا بیٹھے تو سمجھ لیں میڈیا کتنی مدد دے سکتا ہے۔ دو تین کو چھوڑ کر باقی میڈیا گروپس کے ساتھ نواز لیگ کے تعلقات بہتر ہی رہے۔ تو پھر کیا ہوا؟ زرداری صاحب نے بھی پچھلے دس سالوں میں پہلے وفاقی حکومت اور پھر سندھ میں اربوں روپے میڈیا پر لگائے کہ ہماری حکومت کو اچھا بنا کر پیش کریں۔ پھر کیا ہوا؟
آج کل وہی زرداری‘ فریال تالپور کے ساتھ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ سنا ہے کانپتے ہاتھوں سے چائے کی پیالی بھی نہیں اٹھا سکتے‘ جو نیب کی پیشی کے موقع پر پیش کی جاتی ہے۔ تو کیا فائدہ ہوا اتنے اربوں روپوں کا؟ میں نے بات جاری رکھی: جب حکومت میڈیا سے اپنی بقا کے لیے بھیک مانگنے پر آ جائے تو سمجھ لیں وہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔ آپ پچھلے تیس سالوں کی حکومتیں دیکھ لیں۔ جونیجو، بینظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ جنرل مشرف‘ سب نے اسی فارمولے کو فالو کیا ہے۔ جنرل مشرف زیادہ چل گئے تھے کیونکہ ان کے پاس فوجی طاقت تھی جبکہ سیاسی وزیر اعظم اسی فارمولے کے تحت گرتے گئے۔
عوام کے مینڈیٹ پر غرور اور فخر سے شروع، بری کارکردگی پر میڈیا کو دھمکیاں اور آخر میں منت ترلے پر اترنے والی حکومتیں چھ ماہ یا پھر ایک سال ہی چل پاتی ہیں۔
جب آپ میڈیا‘ جو روایتی طور پر حکومتوں کا دشمن ہوتا ہے‘ سے مدد کی اپیل کرتے ہیں تو سمجھ لیں آپ کے دانے مک گئے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد کہ حکومت میڈیا سے مدد چاہتی ہے‘ سمجھ لیں دانے مک گئے ہیں۔ میڈیا جب بھی عوام کو حکومت دوست بن کر کوئی نصیحت کرے گا وہ خود اپنی مقبولیت کھو بیٹھے گا۔
عوام کے مینڈیٹ کے نعرے سے لے کر میڈیا کو گالی گلوچ اور دبانے کے بعد اب حکومت کا تیسرا فیز شروع ہو چکا ہے‘ جہاں کارکردگی کی جگہ منت ترلے نے لے لی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کا تیسرا اور آخری فیز ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں بہت جلد شروع ہوا ہے اور SOS اپیل کر دی گئی ہے۔ میڈیا سے مدد کی اپیل اس وقت کی گئی ہے جبکہ حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے میں بھی ابھی تین ماہ باقی ہیں!