حکومت کایہ خواب تھا کہ کسی بھی قیمت پر اور کچھ بھی ہوجائے آئی ایم ایف سے قرض لینا ہی ہے۔ بھیک نہ مانگنے کےتمام تروعدوں کے باوجودحکومت نے گھٹنےٹیک کر آئی ایم ایف سے بھیک مانگی اور آئی ایم ایف فائنل رائونڈ جیت گیا۔ آئی ایم ایف کے سونامی کوپاکستان کےغریب عوام کوجکڑنےکی اجازت دینے کیلئےمبارک باد۔ آئی ایم ایف کی جانب سے دیےگئے پیکج کےباعث اب راتوں کی نیند اُڑنی شروع ہوگئی ہے کیونکہ غریب عوام کیلئےمہنگائی میں اضافہ شروع ہوگیاہے۔
پاکستان پیروکریسی، آدھی جمہوریت اور بدترین اکنامی کریسی کے ہاتھوں مشکلات میں گھراہے۔ بطورِقوم ہم طویل مدتی منصوبہ بندی اور حل کی بجائے ایڈہاک اور روزانہ کی بنیادوں پرکام کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارانظام عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوچکاہے۔ ہم حالات کو خراب کردیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھی انھیں ٹھیک کریں گے اور قومی معاملات پر ہماری قدامت پسند سوچ نےہمارے لیےمشکلات پیدا کردی ہیں۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جمہوریت ہے لیکن حقیقت میں قومی اہمیت کےحامل معاملات کوحکومت پارلیمنٹ میں لے کر ہی نہیں جاتی۔
ہماری جمہوری روایات کہاں ہیں؟ اوپربیان کیاگیا کوئی بھی نظام ملک کوبہتر نہیں کرپارہابلکہ ہم صرف الزامات کی جنگ دیکھ رہے ہیں جہاں ہم صرف الزامات ہی لگارہے ہیں، طاقت ور مافیااور مفادپرست کالےدھن کوکنٹرول کررہے ہیں جو حقیقی معیشت سے بھی بڑا ہے۔ مجھے یہ کہنا چاہیئےکہ یہ کالے دھن والا مافیا ایک متوازی حکومت ہے جو خوفناک اور سیاہ اثرورسوخ سے اہم تعیناتیاں کرتا ہے۔ درحقیقت آئی ایم ایف پہلے ہی طے کرچکی تھی کیونکہ روپے کی قدرمیں کمی اور نئے ٹیکسز کے اشارے شرائط کاحصہ تھے۔ نئی معاشی ٹیم آئی ایم ایف سے فائدہ اٹھانےاورقوم کومزید گروی رکھنےکیلئےایک معاہدے کرنے کیلئے لائی گئی تھی۔ قومی اثاثوں کو مزید گروی رکھنے کی ڈیل طے ہوچکی ہے اور اب ہمیں مزید بوجھ کیلئے تیار رہنا ہوگا۔
یہ ڈیل اور دیگر معاشی بوجھ ظاہر کرتے ہیں کہ مہنگائی ایک بڑے سونامی کی طرح ہوگی جو مہنگائی کا ایک بڑاجن لے کرآئے گا اور پاکستان میں آئی ایم ایف سے پیار کرنےوالوں کا شکریہ۔ عوام امید کررہی تھی کہ حکومت پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرےگی۔ یہ امرقابلِ ذکرہےکہ ہر سطح پر مسلسل انکار کےباوجود عام آدمی کے ذہنی سکون اور خوشیوں کیلئے قیمت بڑھادی گئی۔ آئی ایم ایف ڈیل سے پہلے ہی پٹرول کی قیمت 9روپے تک بڑھائی گئی لیکن یہ کہا جاتاہےکہ یہ بھی آئی ایم ایف کے ساتھ خفیہ ڈیل کا حصہ تھا۔ یہ اضافے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور لوگ مزید معاشی دبائومیں آئیں گے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی آئی ایم ایف کی شرط پوری کردی گئی اور یہ دیکھنا خوفناک ہے کہ پاکستان میں صرف مارچ میں ہی اب افراطِ زر8.82فیصد سے 9.41فیصدتک پہنچ چکاہے، جو گزشتہ پانچ سالوں میں بلند ترین ہے۔
ایسا کیوں ہوا، واضح طورپر حکومت سے اسے اوپر جانے دیاکیونکہ اسے قابوکرنےوالےپیرامیٹرزکو آزاد انہ طورپرکام کرنے کی اجازت دی گئی اور کرنسی کی اضافی چھپائی اور اندرونی اور بیرونی مزید قرضوں کے باعث افراطِ زرمیں اضافہ ہوا۔ رمضان میں عام استعمال کی تمام اشیاء کی قیمتں بڑھانے سےعام آدمی پر مزید بوجھ ڈال دیاگیاہے۔ ذخیرہ اندوزوں کوقابوکرنےکی بجائے حکومت ہی عام استعمال کی اشیاءکی قیمتیں بڑھا کرلوگوں کی زندگی اجیرن بنانےمیں ملوث ہے۔ عام اشیاء پر نظر ڈالنے سے پتہ لگتاہےکہ گوشت کی قیمتوں میں 20 سے50روپے اضافہ کیاگیا، مٹن کی قیمت 950روپے سے1050روپے تک بڑھائی گئی، ہڈی کےبغیرگوشت 600روپے سے بڑھا کر اب 620 سے 640روپے تک میں فروخت ہورہاہے۔
چکن ڈیلرز اب 380 سے390روپے فی کلو وصول کررہے ہیں جبکہ مارچ کے آخری ہفتے میں چکن 310سے320روپے فی کلو میں فروخت ہورہاہےتھا۔ یہ صرف ایک شئےکی بات ہے۔ دیگراشیاء میں آٹےکی قیمت میں دوباراضافہ کیاگیا۔ چینی کی قیمت بھی 65روپے فی کلو سے70روپے فی کلو ہوچکی ہے۔ دوسری جانب سبزیوں میں پیاز کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ تیل اور گھی بنانے والوں نے بھی 180 روپے فی لیٹر سے 20روپے اضافے کےبعد 200 روپے فی لیٹر تک قیمتیں بڑھادیں۔ حال ہی میں حکومت نے عوام پر مہنگائی کاایک اوربم گرادیاہے کیونکہ پٹرول کی قیمت میں 12فیصد اور ڈیزل ، لائٹ ڈیزل اور فرنس آئل کی قیمت بھی 17فیصد اضافے کااعلان کردیا گیاہے۔
ایسا لگتاہے کہ حکومت پہلے غلط امیدوں کےساتھ لوگوں کو پُرسکون کرکےاورپھرراتوں رات پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکےان کے جذبات کیساتھ کھیل رہی ہے۔ پٹرول اب 108روپے فی لیٹر اور ڈیزل 122.32فی لیٹر میں ملتاہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ کہانی ابھی یہاں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ پاکستان کو ابھی معاشی بجٹ 2019سے بھی نمٹنا ہے اور مزید ٹیکسز اور مہنگائی سے معیشت پر مزید بوجھ پڑےگاکیونکہ غیربراہِ راست اوربراہِ راست ٹیکس متوقع ہیں۔ عام آدمی کیلئے بجٹ کے بعد کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔ بجٹ خسارہ ایک اور خطرناک پہلو ہے اور عوام کس طرح سے 38کھرب روپے کے خسارے کو کم کرےگی۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ، کم ہوتی ہوئی برآمدات، درآمدات میں اضافہ، یوٹیلیٹیز کی بڑھی ہوئی قیمتیں، ٹیکسوں اور ڈیوٹیزمیں اضافہ وغیرہ حکومت کیلئے سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔
بظاہر حکومت نے ایسے پلانز کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیانہ ہی عوام کے سامنے پیش کیا۔ واحد چیز جو سچ ہوئی وہ یہ ہے کہ ہمارے کشکول کو عام آدمی پربوجھ ڈال کر جزوی طورپر بھر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف ظالم ہے اور ایک ایجنڈے کے ساتھ کام کرتی ہےاورحکومت کو وہ ایجنڈامعلوم ہوناچاہیئے۔ مزید برآں، سب سے زیادہ خطرناک چیز یہ ہے کہ یہ نیا بجٹ 2019-20 آئی ایم ایف کے پروگرام کی روشنی میں بنایاجائےگا۔ ہم ایسی صورتحال میں داخل ہورہے ہیں جہاں پاکستان کاشمار غریب اور خوراک کی کمی والے ممالک میں ہوگا جو اپنی غربت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اورغالباًاُن کی معیشت پاکستان سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ کم ازکم انھوں نے اپنی گورننس کو بہترکرلیاہے۔
ہماری معیشت اب مالدیپ سے بھی خراب ہوچکی ہے۔ ہم دنیا میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم منی لانڈررز نہیں ہیں لیکن اسی دوران ہم نے کالے دھن کو ریاستی پیسہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ریاستی پالیسی عالمی معاشی فورمز پر اپنائی گئی پالیسی کے خلاف ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتا ہوں کہ ہمارے معیشت دانوں کی رہنما فرماتاکہ وہ درست راستے پر چلتے ہوئے ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکال لیں۔ جب تک ہم دانشمندی سےکام نہیں کریں گےتو آئی ایم ایف پر ہماراانحصار ہمیں دیوالیہ پن کی طرف لےجائےگا۔