وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اپنی دھن کے پکے نکلے۔بلوچ سردار جو حال ہی میں اپنے والد سردار فتح محمد بزدار کی وفات کے بعد اپنے قبیلے کے سربراہ مقرر ہو گئے ہیں۔ان کی باقاعدہ تاج پوشی ان کے آبائی علاقے بارتھی میں منعقد ہوئی ۔جہاں پر عمائدین اور بزرگ شخصیات نے ان کے سر پر پگڑی رکھی۔سردار فتح محمد بزدار ایک پڑھے لکھے اور وضع دار بزرگ تھے۔کوہ سلیمان کے دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اعلی’ تعلیم حاصل کی۔تین دفعہ ایم پی اے بنے۔اور اس دوران علاقے کے مسائل حل کرنے کی طرف بھرپور توجہ کی۔
سردار عثمان بزدار بھی اپنے والد مرحوم کی طرح نرم خو اور دھیمے لیکن پختہ مزاج کے مالک ہیں۔تونسہ شریف میں ان کی رہائش گاہ پر اجتماعی دعا کے بعد جب ان کےساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھےتھے تو وہ یادوں کے پرت کھول رہے تھے۔ملتان سے ایم این اے رانا قاسم نون، مشیر وزیر اعلی پنجاب حنیف پتافی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب سردار اعجاز جعفر اور چند دیگر احباب موجود تھے۔
سردار صاحب بتا رہے تھے کہ الیکش سے پہلے اسی کمرے میں رانا قاسم نون اور دیگر احباب آئے تھے اور میں صوبہ محاذ میں شامل ہوا تھا۔اس دن سوچا بھی نہیں تھا کہ کہ آگے کیا ہو گا۔لیکن اب یہ ذمہ داری آ پڑی ہے تو اللہ کی مدد سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سردار عثمان بزدار کا عزم یہ تھا کہ وہ شور شرابے اور دکھاوے کی بجائے کام کریں ۔گے۔دوست احباب کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ آپ کو سخت گیر ہونا چاہئے ۔کہ پنجاب والے نرمی نہیں مانتے۔لیکن بلوچ سردار اپنی دھن کے پکے نکلے۔اور ان کے عزم اور حوصلے نے ہار نہیں مانی۔اور تمام تر افواہوں اور سازشوں کے باوجود انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔اور اب غیر جانبدار سروے نے بھی تائید کر دی ہے کی وزیر اعلی پنجاب عوامی مقبولیت میں سب سے اول نمبر پر ہیں ۔
حال ہی میں ایک مقبول اور معروف ادارے گیلپ نے پورے پاکستان میں ایک سروے منعقد کروایا۔جس میں وزرائے اعلی کی کارکردگی کے بارے میں عوام سے رائے لی گئی۔سروے رپورٹ کے مطابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو 37 فیصد عوام نے اچھا قرار دیا۔جبکہ وزیر اعلی کے پی کے کو 34، وزیر اعلی سندھ کو 27 فیصد اور وزیراعلی بلوچستان کو 30 فیصد عوام نے اچھا قرار دیا۔
60 فیصد لوگوں نے وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا۔چوں کہ یہ مجموعی رپورٹ ہے۔اس میں وہ جواب بھی شامل ہیں ۔جن میں لوگوں نے اعلی اور بہت اعلی بھی قرار دیا۔وزیر اعلی پنجاب حیرت انگیز طور پر خواتین میں زیادہ مقبول نکلے اور 67 خواتین نے بطور وزیر اعلی ان کی کارکردگی کو اچھا قرار دیا۔
اصل میں وزیر اعلی پنجاب پہلے دن سے ہی پھولوں کی سیج پر نہیں بلکہ کانٹوں بھری سیٹ پر بیٹھے تھے۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی بننا ایک اعزاز بھی تھا لیکن اس سے بڑھ کر یہ ایک امتحان تھا۔ایک ایسا صوبہ جہاں پر دس سال مسلسل اور گذستہ تین دہائیوں سے ایک خاندان حکمران تھا۔اور جن کی گورننس کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ان کا جانشین بننا گرم توے پر بیٹھنے کے برابر تھا۔اور پھر ایسے ماحول میں جہاں پر خزانہ خالی اور پھر اندر باہر سے ٹانگیں کھینچنے والوں کی بھرمار تھی۔مخالفین تو ایک طرف ، ان کی پارٹی کے اندر بہت سارے ایسے عناصر موجود ہیں جو کسی طور پر بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ تاج و تخت ایک مخصوص طبقے سے نکل کر عوامی نمائندوں تک بھی پہنچے ۔
ایسے میں سردار عثمان بزدارنے یہ چیلنج قبول کیا۔اور مخصوص ٹولے کی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے اپنے لیے ایک راستہ متعین کیا اور اس پر چل پڑے۔میڈیا نے ایک طوفان برپا کیے رکھا۔جس کا مفاد حل نہ ہوا اس نے چھوٹتے ہی یہ نعرہ لگا دیا کہ عثمان بزدار جا رہے ہیں ۔جس کے منہ میں ہڈی نہ ڈلی اس نے واویلا مچا دیا اور اپنے تئیں خود ہے عمران خان کا ترجمان بھی بن گیا اور شور مچانا شروع کر دیا کہ وزیر اعلی نے نہیں رہنا۔
لیکن ان تمام تر باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے کام کام اور کام پر توجہ دی۔رمضان کے موقع پر ہمارے مسلمان تاجر جس رویے کا اظہار کرتے ہیں اس پر کیا کہا جائے۔وزیر اعلی کے حکم پر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ایکشن کیا گیا اور ٹنوں کے حساب سے چینی اور دیگر اشیاء برآمد ہو ئیں ۔اور جن سے بر آمد ہوئیں ان کی اکثریت معززین پر مشتمل تھی۔ اسی طرح وزیر اعلی نے پورے صوبے کے اضلاع کے دورے ترتیب دیے۔اور ان دوروں کے دوران ضلعی اداروں کی کارکردگی کو نہ صرف براہ راست دیکھا بلکہ پولیس، نادرا، ہسپتالوں کی کارکردگی کے بارےمیں عوام سے بھی ردعمل مانگا۔اور خود پوچھا ۔گذشتہ دنوں لودھراں اوت بہاولپور کے سنگم پر ایک ہوٹل پہنچ گئے ۔جہاں لوگ وزیر اعلی کو اپنے درمیان دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئے۔وزیر اعلی لوگوں میں گھل مل گئے۔ان کے ساتھ فرشی نشست پر بیٹھ گئے۔لوگوں نے سلفیاں بنائیں ۔
ا ور کہا کہ یہ صحیح معنوں مین عوامی وزیر اعلی ہیں ۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر وقت عوامی خدمت کے نعرے لگانے والے اور صبح شام عوام عوام کا راگ الاپنے والے جوں ہی اقتدار میں پہنچتے ہیں تو ان کی جانیں اچانک ہی قیمتی ہو جاتی ہیں۔وہ عام انسان نہیں رہتے ۔
وی آئی پی بم جاتے ہیں ۔ہمارے ایک سابق وزیراعظم کے داماد اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے وزیراعظم کے ساتھ ہی ہیلی کاپٹر میں پہنچے اور جنازہ پڑھتے ہی واپس روانہ ہو گئے۔کہ مزید ٹھہرنے اور والد کی قبر کے پاس رکنے سے ان کی جان کو خطرہ تھا۔آج پتہ نہیں وہ خطرہ کہاں گیا ہے۔ویسے یہ جان کا خطرہ بھی بہت ہوشیار ہوتا ہے۔یہ صرف اسی وقت ہوتا ہے جب بندہ اقتدار میں ہوتا ہے۔غریب آدمی کے پاس اس خطرے سے نمٹنے کے لیے چوں کہ وسائل ہی نہیں ہوتے اور ویسے بھی غریب آدمی کی جان کی قیمت ہی کیا ہے۔لہذا یہ اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتا۔
اقتدار کی سیڑھی اگر عام آدمی ہے تو اقتدار میں جانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے ۔لیکن سردار عثمان بزدار نے اس خطرے کو اپنے آپ سے دور ہی رکھا ہے۔اور وہ جہاں بھی جاتے ہیں ۔عوام میں گھل مل جاتے ہیں۔جس سے بات کرتے ہیں۔پوری توجہ کے ساتھ اور پورے انہماک کے ساتھ بات سنتے بھی ہیں۔ درمیان میں ٹوکنا والی ایلیٹ کلاس کی بیماری بھی نہیں ہے۔وزیر اعلی پنجاب کی ایڈوائزری کونسل کے ممبر ابراہیم حسن مراد نے تجویز پیش کی تھی کہ ہر ضلع کا نہایت باریک بینی سے دورہ کیا جائے۔وہاں پر ہر شعبے کے سربراہ کو ذمہ داری دی جائے کہ وہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ سے وزیر اعلی آفس کو آگاہ رکھے۔چئیرمین پلاننگ حبیب الرحمن گیلانی کا کہنا تھا کہ نیچے سے رپورٹس کا سسٹم بھی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
اسی طرح ابراہیم حسن کا کہنا تھا کہ ہر شعبے پر اضلاع کی سطح پر اسپائی مانیٹر نگ سیٹ اپ بنایا جائے۔جو پولیس ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے انچارجز کی رپورٹ کو کاونٹر چیک کرے۔تب پتہ چل سکتا ہے کہ کتنا کام ہو رہا ہے۔اور کہاں پر بہتری کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ بہت سارے مسائل اور کام کرنے کےلیے بڑی وسعت ہے۔لیکن اگر گورننس کوٹھیک کر کیاجائے ۔کوئی نیا پروجیکٹ یا اخراجات نہ کیے جائیں۔پولیس، صحت، تعلیم اور محمکہ مال کو درست کر لیا جائے۔اور ان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کر دی جائے کہ وہ عوام کے خدمت گار ہیں۔عوام کے اوپر داروغے نہیں۔ اور اسی طرح عوام کے مسائل ون ونڈو طرز پر حل کیے جائیں ۔سائلین کو مہینے مہینے گھمانے کی بجائے ان کو فوری طور پر ان کے مسائل کا حل مہیا کیا جائے تو انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب نے ایک اچھا کام یہ بھی شروع کیا ہے کہ ہر آفیسر روزانہ ایک گھنٹہ عوام کے لیے مختص کرے گا۔یہ شجر ممنوعہ مخلوق اگر عوام سے ملنا شروع کر دے تو تب بھی مہینوں کی باتیں گھنٹوں میں حل ہو سکتی ہیں۔
وزیر اعلی پنجاب دھن کے پکے ہیں اور اگر وہ اسی طرح خوشامدیوں سے دور اور کام پر لگے رہے تو بہت اچھے نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں ۔
اور آخر میں ان کو مشورہ ہے کہ وہ ہر دن کو اس طرح سمجھیں کہ یہ ان کے اقتدار کا آخری دن ہے۔اور یہ کہ اس اقتدار کے لیے وہ ایک دن جواب دہ ہوں گے۔جس طرح خلیفہ راشد نے کہا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کا حساب ان سے لیا جائے گا۔ تو دونوں جہان سنور جائیں گے-