الیکٹرونک میڈیا ملازمین بحران کا شکار!

سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں میڈیا کو وسعت بخشی، سرکاری میڈیا سے نکال کر نجی شعبے میں ابلاغ عامہ کو جدت بخشتے ہوئے نئے انداز سے الیکٹرونک میڈیا کیلئے راہیں کھول دی، اس بابت جنرل مشرف نے الیکٹرونک میڈیا کو مکمل ضابطہ اوراخلاقی اقدار میں پابند کرنے کیلئے ایک ادارہ وجود میں لایا گیا جس کے ذریعے نہ صرف لائسنس کے اجرا تھا بلکہ اس کی ذمہ داریوں میں تمام الیکڑونک میڈیا بشمول ریڈیو اور ویب ٹی وی کو پابند رکھا گیا ،اس ادارے کا نام پیمرا یعنی پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولریٹی اتھارٹی رکھا گیا، اس ادارے کے قانون میں واضع طور پر الیکٹرونک میڈیا ملازمین کے حقوق بھی متعین ہیں اور ان پر تمام چینلز قانونی طور پر پابند ہیں جس میں ملازمین کی تقرریاں، تنخواہیں و دیگر مراعات شامل ہیں، لائسنس کی قیود و شرائط میں لکھا ہے کہ :

(الف)اسلامی جمہوری پاکستان کی عزت، حفاظت اور سالمیت کو یقنی بنایا جائے

(ب)اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں موجود پبلک پالیسی کے اُصولوں اور قومی ، ثقافتی، سماجی اور مذہبی اقدار اور ان کا تحفظ یقینی بنائے

(ج) اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ پروگرامزاور اشتہارات، تشدد، دہشتگردی، نسلی تعصب، نسلی یا مذہبی منافرت، فرقہ واریت، انتہا پسندی، جنگ پسندی، یا نفرت یا فحش نگاری، فحاشی عامیانہ پن یا دیگر ایسے مواد پر مشتمل ہو جو عام طور پر شائستگی کے قابل قبول معیارات کے برعکس ہو ،کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے ۔

معزز قارئین!! آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا وہ تمام تر دکھاتا چلا آرہا ہے جس کی سخت ممانعت ہے گویا یوں سمجھ لیجیے کہ تمام قوانین ہوا میں اڑادیے جاتے ہیں،خاص کر میڈیا ملازمین کے حقوق کے متعلق انتہائی سفاکانہ رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے، حیرت و تعجب کی بات تو یہ ہے کہ سابقہ اور موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے میڈیا مالکان کو سختی سے پابند کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کو ایک تا پانچ تک کی تاریخوں میں یقینی بنائیں ، چند ایک ماہ تو معاملات درست رہے لیکن پھر اسی ڈگر ہے چل پڑے، جیو، وقت،نیوز ون، ایکسپریس ، ڈان، جی این این، جی ٹی وی، سیون، دنیا، بول اور دیگر الغرض سوائے اے آر وائی نیٹ ورک کے تمام نجی ٹی وی چینلزنےاپنے ملازمین کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیاہے۔

گزشتہ روز میں نے اپنے دوست عمران جونیئر کے پپو کو بڑی عجلت اور تیزی سے جاتے ہوئے دیکھا تو لپک کر اس کے راستے میں کھڑا ہوگیا اور بضد ہوا کہ ایک چائے میرے ساتھ پئیں ،میری ضد کے آگے بالآخر وہ مجبور ہوگیا ، ہمارے درمیان گفتگو کا سلسلہ آج کل الیکٹرونک میڈیا کے ملازمین کی تنخواہوں ، مراعات اور سبکدوشی کے حوالے سے رہا ، پپو نے مجھے بتایا کہ جیونیوز میں چند روز کے اندر لاکڈ ڈاؤن، کارکنان کا بڑا فیصلہ کرلیا گیا ہے،جیو نیوز کے ملازمین جنہیں جنوری کی آدھی تنخواہ دس اپریل کو ادا کی گئی تھی انہوں نے بڑا فیصلہ کرلیا،جیو نیوز کے ملازمین نے پیر کی صبح سے جیو نیوز کے تمام دفاتر کے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ بیوروز متفق ہیں، جیو نیوز کے ایگزیکٹو پروڈیوسز اور سینئر اینکرز نے بھی لاک ڈاؤن کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے، ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ ساڑھے تین ماہ کی تنخواہ یک مشت ملے بغیر نہ کام کریں گے نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے، جیو نیوز کے تمام دفاتر کی تالہ بندی کی جائے گی، کسی اینکر کو اسکرین پر نہیں آنے دیا جائے گا، کوئی بلیٹن نہیں ہوگا، کسی قسم کا کام نہیں ہوگا، پپو کے مطابق کسی بھی قسم کے مذاکرات صرف اُسی صورت میں ہوں گے جب تنخواہوں کا تمام بیک لاگ ختم ہوگا. تنخواہوں سے محروم ملازمین میں ایم ڈی اظہر عباس سے لے کر ادارے کے ڈرائیورز، سوئپرز اور ٹی بوائے تک شامل ہیں جن غریبوں کی تنخواہ ہی بمشکل چودہ سے اٹھارہ ہزار روپے ہے،مینجمنٹ کے کچھ لوگ ملازمین کی ہڑتال اور لاک ڈاؤن کی حمایت تو کررہے ہیں لیکن ڈھکے چھپے لفظوں میں انہیں ڈرا دھمکا بھی رہے ہیں کہ نوکری جا سکتی ہے.

میر شکیل الرحمٰن نے بیک اپ تیار کیا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن لاک ڈاؤن کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن اپنی دھمکیاں اپنے پاس رکھے، وہ ملازمین کا مقروض ہے اس لیے اسے ان لوگوں کی عزت اور قدر کرنی چاہیے جو ادارے کے مشکل دنوں میں ساتھ کھڑے رہے اور اب بھی جس رقم کا مطالبہ کررہے ہیں اس کے بدلے کام کرچکے ہیں۔پپو کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن پہلا اقدام ہے، جیو نیوز کے ملازمین نے ایک جامع حکمت عملی بنالی ہے جس میں کئی پلان طے کرلیے گئے ہیں ، پپو کے مطابق جیو نیوز کے ملازمین نے صرف لاک ڈاؤن پر ہی بس نہیں کرنا بلکہ قانون و انصاف کا در بھی کھٹکھٹانا ہے، اس سلسلے میں قانونی ماہرین سے مشاورت بھی چل رہی ہے، اور اگر قانونی کارروائی کی نوبت آتی ہے تو ملازمین جیو نیوز کے تمام ڈپارٹمنٹس اور ملنے والے اشتہارات کا فورنزک آڈٹ کرانے کا مطالبہ کرسکتے ہیں.

جیونیوزکے ہیڈآفس میں بھی ایسی ہی ایک میٹنگ ہوئی جسے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد ٹیلی فون پر جوائن کیا، بورڈ روم میں اظہرعباس، زاہد حسین، شاہد شہزاد، فہیم صدیقی، یاسرجمال، ریحان احمد، انوار علی، اظہرحسین، نسیم حیدر، کامران عبدالمنان، منصور قریشی اور عاطف مجید اعوان بھی موجود تھے،کراچی میں ہونے والی میٹنگ میں فیصلہ کیاگیا کہ پیر تیرہ مئی کی صبح دس بجے سے لاک ڈاؤن کے اسلام آباد بیورو کے فیصلے کی بھرپور سپورٹ کی جائے گی، آؤٹ پٹ اور کراچی بیورو بھی کمیٹی کو جوائن کرنا چاہیے، کمیٹی کے ارکان سب کو اعتماد میں لیں گے،کمیٹی کے ارکان کو ہر طرح کے فیصلے کا مکمل اختیار ہوگا، کمیٹی کے کئے گئے فیصلوں کو سب تسلیم کریں گے،فہیم صدیقی اور اظہر حسین اسلام آباد جائیں گےاور اس کمیٹی کا حصہ بنیں گے جو جیوانتظامیہ سے مذاکرات کرے گی،اظہرعباس نے میٹنگ کے تمام فیصلوں کی حمایت کی، لاہور کے بیورو چیف رئیس انصاری نے بھی کمیٹی کے فیصلوں سے اتفاق کیا اور اسلام آباد جانے کیلئے تیار ہوگئے۔

معزز قارئین!! میں پپو کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا لیکن مجھے پپو کی ان باتوں پر تعجب اس بات پر زیادہ ہوا کہ جن کے نام پپو نے لیے تھے وہ تو خود میر شکیل الرحمٰن اور میر ابراہیم کے دست راست ہیں، اظہرعباس، زاہد حسین، شاہد شہزاد، فہیم صدیقی، یاسرجمال، ریحان احمد، انوار علی،اظہرحسین، نسیم حیدر، کامران عبدالمنان، منصور قریشی اور عاطف مجید اعوان یہ وہ نام ہیں جن کو جیو کے مالکان کی جانب سے خاص آشیر واد ہے ، کہنے والوں نے یہاں تک مجھے کہا ہے کہ ان جیسے تقریباً ہر چینل میں لوگ گھسے بیٹھے ہیں جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ،ایسے لوگوں کا مکمل طریقہ ورادات یہ ہوتا ہے کہ بظاہروہ اپنے چھوٹے ملازمین کی دلجوئی کرتے ہیں لیکن تمام ترمالکان کے تحفظات کیلئے عمل پیرا ہونا اس کی سرشت میں شامل ہوتاہے ، ایسے لوگ صرف اپنی ذات کی خواہشات کو ہی مد نظر رکھتے ہیں ، اسی لیئے ان کا کہنا بھی مالکان سے یہی ہوتا ہے کہ آپ ہمارے جیسے چند ایک افسران کو نوازتے جائیں ہم باقی ماندہ ہزاروں ، لاکھوں ملازمین کو خواب خرگوش کی نیند سلاتے جائیں گے اور انہیں آسرا دیتے جائیں گے.

تمام تر تحقیق اور مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اے آر وائی نیٹ ورک اس وقت تمام چینلز میں واحد نجی چینلز ہے جس نے اپنے ملازمین کے تحفظ کیلئے خود ذمہ داری لے رکھی ہے ، ان حالات میں جب پورے پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے ملازمین کو کہیں نکالا جارہا ہے تو کہیں تنخواہوں سے محروم کیا جارہا ہے لیکن واحد اے آر وائی ہے جس نےاپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے وقت مقررہ پر تنخواہ کی یقینی اور ملازمین کی جاب کو قائم رکھنا اپنا حسن اور بہترین روایات کو جاری رکھا ہواہے، اے آر وائی نیٹ ورک کے روح رواں جناب حاجی عبد الرزاق مرحوم کی ہمیشہ سے خواہش رہی تھی کہ ان کے ملازمین ان کی فیملی کا حصہ بنیں رہیں ، اسی بابت سلمان اقبال سی ای او اور صدر نے اپنے بڑے ابو کی خواہش کو نہ صرف مقدم رکھا بلکہ اپنے خاندانی روایات کو بھی جاری رکھا ہواہے ، آپ کے خاندان میں انسان دوستی، درد دل اور فراخ دلی، اعلیٰ ظرفی کا ہمیشہ مظاہرہ رہا ہے، اس خاندان نے اپنے ملازمین کو روزگار سے بے دخل کبھی نہیں کیا یہاں تک کہ وہ دار فانی سے کوچ کرگئے ہوں،اسی لیئے اے آر وائی کا بھی یہی سلوگن رہاہے اےآر وائی فیملی چینل۔

معزز قارئین!!کراچی یونین آف جرنلسٹ اورکراچی پریس کلب کے صدور سیکریٹریز نے بھی اپنے اعلامیہ میں میڈیا مالکان سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے روزگار کو یقینی بنائیں اور انہیں وقت مقررہ پر تنخواہ دینے کیلئے احکامات جاری کریں ، ان کے مطابق میڈیا کارکنان اپنی محنت سے ان کے چینل چلارہے ہیں ، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کے گھر انوںکا چولہ چینلز سے وابستہ ہے، پی ایف یو جے اور آر یو جے کے عہدیداران بھی اس بابت ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، ایک موقع پرکراچی یونین آف جرنلسٹ کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ جیو کے مالک میر شکیل الرحمٰن ہوں یا بول کے شعیب شیخ یا پھرنیوز ون کے مالک طاہر اے خان ،ایکسپریس کے سلطان لاکھانی، آج چینل کے مالک آصف زبیری،ڈان کے مالک عبداللہ حسین ہارون ، دنیا کے مالک میاں عامر محمود، جی این این کے مالک گورمے ، سما کے مالک ظفر صدیقی، ابتک کے مالک سجاد شاہ یہ وہ مالکان ہیں جن کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ کم از کم بیس سال تک اپنے ملازمین کو بغیراشتہار کی کمائی کے تنخواہ دے سکتے ہیں لیکن خود کو انکم ٹیکس سے بچانے کیلئے خود کو عام ملازمین سے بھی کم ظاہر کرکے کم ظرفی کا مظاہرہ پیش کررہے ہیں.

تحقیق، مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں ان چینلز کے مالکان نے سپریم کورٹ میں اپنے کاروبار کو خسارہ دکھایا ہے دوسری جانب جب چینل کے ملازمین سے بات کی جاتی ہے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ اگر اس قدر فنانشل کمزور ہیں تو پھر کیوں اینکروں کی لاکھوں تنخواہوں پر مامور کیا ہے ، جناب کامران خان، حامد میر، نجم سیٹھی اور بے شمار اینکرز ایسے ہیں جن کی تنخواہیں تیس لاکھ سر شروع ہوتی ہیں اور پچاس لاکھ سے بھی تجاوز کرجاتی ہیں ، یہ تضاد کیوں ؟؟؟ پیمرا کو نجی اداروں کی طرح اسکیل کا نظام رائج کروانا چاہیئے تاکہ اعتدال کیساتھ تمام ملازمین اس قدر مشاہرہ لے سکیں کہ چھوٹے ملازمین پریشان نہ ہوں، یوں سمجھ لیجئے کے الیکٹرک، پی آئی اے ، سوئی گیس کمپنی جیسے پرائیوٹ یا کو آپریٹیو ادارے جن میں پے اسکیل یا گروپ ہوتا ہے نجی چینل کو بھی اسی طرح پیمرا شیڈول میں لے آئے اس سے سب سے زیادہ انہیں مالکان کو ہوگا جو آئے روز اپنے چینل سے کبھی ملازمین کو بے دخل کرتے ہیں تو کبھی تنخواہوں کی تاخیر بناڈالتے ہیں.

کراچی یونین آف جرنلسٹ ، فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ، اربن یونین آف جرنلسٹ اور کراچی پریس کلب سمیت تمام صحافی برادی نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ میڈیا ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کو لیبر قوانین کے تحت انہیں بینیونٹ فنڈ، جی پی فنڈ، گروپ انشورنس بیسک تنخواہ کے ساتھ لازم شامل کردیا جائے تاکہ ان کے گھرانوں کا تحفظ یقینی بن سکے، اس پہلو پر پاکستان بھر کی تمام صحافی یونین ، پریس کلب کے ممبران نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کو ایک تسلسل کےساتھ اس نظام میں مرج کیا جائے جس کا ذکر کیا گیا ہے اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ کوئی بھی ملازم اپنی قابلیت، تجربہ کی بنیاد پر اسکیل دیا جائے اس سے میڈیا میں پھیلنے والی بے چینی اور تشویش بھی ختم ہوجائیگی اور ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکے گا، یقیناً اس عمل سے چند ایک مالکان کو تکلیف پہنچے کیونکہ کچھ مالکان بھی یہی چاہتے تھے کہ اینکر پرسن و دیگر چند ایک خاص ان کی اسٹبلشمنٹ کا حصہ بنے رہیں اور انہیں ہر طرح کی حکومتی و سیاسی مراعات کیلئے استعمال کیا جاسکے لیکن بیشتر مالکان اس فارمولے کو پسند کررہے ہیں ان کے نذدیک چینل کو چلانا اور بہتر پرودکٹ پیش کرنے کیلئے یقینا اپنے ملازمین کا ذہنی مطمئن ہونا ضروری ہے ، اسی لیے بیشتر مالکان اس بابت خوش ہیں کہ نظام مروج ہونا چاہیئے تاکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے توازن کا بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ، مجھے خوشی ہے کہ اے آر وائی نیٹ ورک نے میڈیا کے ہر عروج و زوال میں اپنے آپ کوسنبھالے رکھا اور تمام تر بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہوئے اپنے ملازمین کو احساس ہی ہونے نہیں دیا کہ وہ کس قدر دیگر چینل کے غیر متوازن عمل کی وجہ سے دباؤ کا شکار رہا ہے ، ہم سب کی دعا ہے کہ دیگر تمام چینلز بھی اےآر وائی نیٹ ورک کی طرح ثابت قدمی کا مظاہرہ پیش کریں اور طے شدہ تجویز پر عمل درآمد کیلئے پیمرا کو پابند کیا جائے کہ وہ جلد از جلد میڈیا ملازمین کیلئے پے اسکیل تشکیل دے اور عمل درآمد کرائے ، اللہ پاکستان کے تمام نجی چینلز کو ترقی و کامرانی سے نوازے اور ان کے تمام ملازمین کو روزگار پر قائم رکھے آمین .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے