ایک دفعہ کا ذکر ہے

اب تو یہ سب کچھ ایک خواب لگتا ہے۔ایک ایسا خوش رنگ خواب جو ہم نے کسی اور جنم میں دیکھا تھا اور جس میں باہم تا دیر جئے تھے یا پھرکوئی دل آویز کہانی جسے سنتے سنتے ہمیں نیند آگئی تھی۔یہ ان دنوں کی بات ہے‘ جب ہم گاؤں میں رہتے تھے۔ گاؤں کے تہوار بھی وہاں کی زندگی کی طرح سادہ تھے۔ گاؤں میں رمضان کے وہ دن مجھے آج بھی یاد ہیں‘ جب گرمیوں کے روزے ہوا کرتے تھے۔سحری کے وقت پراٹھا اور رات کا سالن ہوتا تھا۔ لوگ روزہ رکھ کر چلچلاتی دھوپ میں کھیتوں میں کام کرتے تھے‘ گھروں میں اے سی اورپنکھوں کا تصور نہیں تھا‘ کیونکہ اس وقت تک ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں آئی تھی ۔ مغرب سے ذرا پہلے مسجد میں نمازی آنا شروع ہو جاتے اور افطاری کے وقت کا اعلان نوبت بجنے سے ہوتا۔

افطاری بھی اتنی ہی سادہ ہوتی جتنی سحری۔ شکر کا شربت‘ خربوزے کی پھانکیںاور تندور کی روٹی کے ساتھ سالن۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا اور مجھے روزہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ گرمیوں کے پہاڑ جیسے روزوں میں ماں سارے کام کیسے کرتی تھی؟ سب بچوں کو سنبھالنا‘ گھر کی صفائی‘ کپڑوں کی دھلائی‘ ہانڈی پکانا‘ چکی پیسنا اورگھر میں بنے تندور پر روٹی لگانا۔ اس ساری محنت کا حاصل وہ خواب تھا‘ جو ماں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے دیکھا تھا۔ انہیں جنون کی حد تک یہ خواہش تھی کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں۔ محدود مالی وسائل کے ہوتے ہوئے اس خواب کی تعبیر آسان نہ تھی‘ لیکن ماں کی محنت نے وہ خواب سچا کر دکھایا اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں ‘تو انہیں یہ اطمینان تھا کہ ان کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔

والد صاحب پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار تھے ۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ نماز کے سلسلے میں ان سے کوتاہی ہوئی ہو۔ رمضان کے مہینے میں تو ان کا جوش عبادت دیدنی ہوتا تھا۔اس دوران تو ان کے معمولات میں اور نکھار آجاتا ۔ رمضان کے آخری عشرے میں وہ مسجد میں ”الوداع رمضان ‘‘کے سر نامے کے تحت اپنی نظم پڑھتے۔ گاؤں کی مسجد میں مرد اور اس سے متصل گھروں کے صحنوں میں عورتوں کی کثیر تعداد جمع ہوتی ۔مجھے یاد ہے؛ نظم پڑھتے ہوئے ‘ان پر رقت طاری ہوجاتی اور سننے والے بھی رمضان کے رخصت ہونے پر اداس ہو جاتے۔ عید کی تیاریوں میں ہمارے کپڑے‘ جوتے خریدنے جاتے۔ والد صاحب ایک کاغذ پر ہمارے پاؤں کا سائز لیتے ‘اس کے لیے کاغذ پر پاؤں رکھا جاتا اور اس کے گرد پنسل سے نشان لگایا جاتا۔ عید کے موقع پر گاؤں کی تین دکانوں میں مٹھائی ملتی ‘اس کے علاوہ پکوڑے بھی بنائے جاتے ۔گھروں میںجھولے ڈالے جاتے۔ کیا سادہ دن تھے اور خوشیاں کتنی خالص اور ارزاں تھیں۔

پھر جب ہم گاؤں چھوڑ کر شہرآ گئے تو رمضان کے معمولات میں کچھ تبدیلی آگئی۔ اب ہم بچے بڑے ہو رہے تھے اور مجھے روزے رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اب افطاری میں شکر کے شربت کی جگہ دوسرے مشروب نے لے لی تھی۔ عید کے دنوں میں لیاقت باغ میں میلہ ہوتا‘ جس میں ہم بچے مل کر جاتے۔ سرکس یہاں کی سب سے پرکشش چیز ہوتی اور سرکس میںموت کا کنواں ہم بچوں کی دلچسپی کا باعث ہوتاجہاں کمال مہارت سے ایک شخص لکڑی کے تختوں سے بنے ہوئے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتا ہوا اوپر تک آ جاتاتو لکڑی کے تختوں میں ارتعاش سا آجاتا۔ اس دوران موٹر سائیکل والا دونوں ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل چلانا شروع کر دیتا اور ہم ڈر کر کنوئیں کی منڈیر کو مضبوطی سے پکڑ لیتے۔ یہاں سے آگے ایک اور ٹینٹ میں چلے جاتے‘ جہاں لوگوں کا خوب رش ہوتا‘ جو یہا ںاس عورت کو دیکھنے کے لیے آتے ‘جس کا چہرہ تو انسانی ہوتا‘ لیکن باقی دھڑ جل پری کا ۔ وہ میرے بچپن کے دن تھے‘ حیرتوں کی دھند میں لپٹے ہوئے۔اس وقت ہمیں نہیں لگتا تھا۔ ظاہر اور باطن میں فرق بھی ہو سکتا ہے ۔میلے کے بعد بھی پہروں میں موت کے کنویں کی گھوں گھوں اور جل پری نما لڑکی کے بارے سوچتا رہتا۔

مجھے وہ رمضان یاد آرہا ہے‘ جب میں کالج میں پڑھتا تھا ان دنوں میں سحری تک جاگتا رہتا۔ رات کی تاریکی میں مکمل سکوت ہو تا اور پڑھائی میں کوئی دخل انداز نہ ہوتا؛حتیٰ کہ سحری کا وقت ہو جاتا۔اس دوران ہمارے محلے میں ڈھول والا آ جاتا جو ہر گلی میں ڈھول بجا کر لوگوں کو جگاتا تھا اس کے آنے کا وقت مجھے پتا تھا۔ یہ گرمیوں کے دنوں کے روزے تھے۔ میں اپنے گھر کے گلی میں کھلنے والے دروازے کے سامنے دہلیز پر بیٹھ جاتا۔ ڈھول والا ہمارے گھر کے سامنے رکتا۔ میں اس کے لئے پانی لے کر آتا‘وہ بھی میرے ساتھ اسی دہلیز پر بیٹھ جاتا‘ پانی پیتا اور پھر ڈھول بجاتا ہوا آگے چلا جاتا۔

پھر مجھے وہ منظر یاد آجاتا ہے‘ جب افطارکے وقت ہم سب بہن بھائی صحن میں بچھی چٹائی پر بیٹھے شدت سے اذان کا انتظار کرتے۔ ماں کچن میں جلدی جلدی افطاری تیار کرتی۔ افطاری کے ساتھ ہی چائے بھی تیار کر دی جاتی۔ کیسے دن تھے وہ‘ہوا میں اڑتے بادلوں کی طرح!۔ اب تو لگتا ہے‘ جیسے کوئی خواب تھا‘ جس میں ہم اکٹھے تھے ۔اس دفعہ رمضان تو آیا ہے‘ لیکن سب کچھ بدل گیا ہے۔ ماں کے صحن میں چٹائی پر بیٹھ کر مغرب کی اذان کا انتظار کرنے والے سب بکھرگئے ہیں ۔ وہ جواحمد مشتاق نے کہا ہے: ؎
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

اب نہ وہ مکان رہا نہ وہ صحن۔نہ وہ وقت اورنہ ہی وہ لوگ جو افطاری کے وقت صحن میں بچھی چٹائی پر اکھٹے بیٹھتے تھے۔ آج مجھے شدت سے ان راستوں کا خیال آیا‘ جن پر گئے ہوئے ایک عرصہ ہوا تھا۔ ان چہروں کی یاد آئی‘ جن کی چاندنی مجھ سے روٹھ گئی تھی ۔ آج سرِ شام سے ایک قدیم یاد مجھے اپنی طرف بلا رہی تھی ۔میرے قدم بے اختیار اٹھنے لگے۔ قبرستان کی 18 سیڑھیاں چڑھنے کے بعد میں نے دیکھا تا حدِ نظر قبروں کا ہجوم تھا ۔ سب سے پہلے انعام بھائی کی قبر ہے ‘جو چھ سال پہلے رمضان کی ستا ئیسو یں رات کو ہم سے بچھڑ گئے تھے۔چاند رات کے موقع پر میں اور انعام بھائی بینک روڈ پر جاتے جہاں ہم کتنی دیر بے مقصد گھومتے رہتے ۔انعام بھائی کے جانے کے بعد چاند راتوں کی چاندنی اب مدھم پڑھ گئی ہے ۔اس سے آگے والد صاحب کی قبر ہے جن کے ساتھ میرا تعلق دوستی کا تھا۔وہ اردو‘ فارسی‘ عربی اور پنجابی میں شعر کہتے تھے اور ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ رمضان کے مہینے میں ان کی یاد کی لَو اور تیز ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے ماں کی قبرہے ۔قبر کے ارد گرد گھاس اُگ آئی ہے ۔میں لوحِ مزارکو دیکھتا ہوں ‘ تاریخ وفات 2007 ئ‘ یعنی ماں کو گئے بارہ سال گزرگئے۔

کہتے ہیںجانے والے چلے جاتے ہیں ‘مگر دنیا کے ہنگامے اسی طرح رہتے ہیں۔ وہی دن رات ‘ وہی تہوار‘ وہی عیدیں اور وہی رمضان ‘ لیکن شاید وہی رمضان نہیں۔ تب تو ہم سب بہن بھائی والد اور ماں کے ساتھ اکٹھے رہتے تھے۔ رمضان کے مہینے کا کتنا انتظار ہوتا۔ سحری میں سب اکٹھے سحری کرتے۔ مغرب کے وقت صحن میں بچھی چٹائی پر بیٹھے ا ذان کا انتظار کر رہے ہوتے ۔ اب نہ وہ مکان رہا ہے‘ نہ وہ صحن ‘نہ وہ چٹائی اور نہ اس پر مل کربیٹھنے والے وہ لوگ۔ اب تو یہ سب کچھ ایک خواب لگتا ہے ‘ ایک ایساخوش رنگ خواب جو ہم نے کسی اور جنم میں دیکھا تھا اور جس میں باہم تا دیر جئے تھے یا پھرکوئی دل آویز کہانی‘ جسے سنتے سنتے ہمیں نیند آگئی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے