بھارت میں آزاد خیال رکھنے والے ڈرتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی دوسری مدت‘ بھارتی سیکولر روایات کے خلاف فیصلہ کن موڑ ہوسکتی ہے۔جیسا کہ امریکی بھی خوفزدہ ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی سے امریکی جمہوریت کے اداروں کو ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچنے کے خدشات موجود ہیں‘تاہم بھارت کے انتخابات کا منظر زیادہ پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے پیش گوئیاں جاری ہیں۔ کچھ بھارتی میڈیا مستقبل میں مودی کی حکومت بننے کے راگ الاپ رہا ہے‘ساتھ میں یہ بھی کہا جارہاہے کہ ضروری نہیں‘مودی کی بننے والی حکومت مضبوط بھی ہو۔ اس طرح کا فیصلہ ہندوستان کے مستقبل کے لیے خطرات کا عندیہ دے رہا ہے‘ لیکن لبرل ابھی تک یقین رکھتے ہیںکہ مودی نے خود کو زیادہ مضبوط اور طاقتورنہیں بنایا‘جتنااسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
مودی اور اس کی ہندو قوم پرست بھارتی جنتاپارٹی (بی جے پی) 2014ء میںاقتدارمیں آنے کی کئی وجوہ موجود ہیں۔مودی نے انتہا پسند ہندو دھرم کے نام پر الیکشن لڑا۔الیکشن جیتنے کے بعدمودی نے کرشمہ پسند‘ ایماندار ‘پرسکون اورترقی پسندانسان ہونے کے دعوے کیے۔اس کے برعکس مودی نے 2019ء کی انتخابی مہم میںترقی ‘روشنی‘اخلاقی اور مذہبی انتہا پسندی جیسی روایات کو موضوع بحث بنائے رکھا۔خاص طور پراس مہم میں مودی اور اس کے حواریوںنے اپنے ہندو دھرم کوپیش پیش رکھا۔ الیکشن مہم میںتقریروں کے دوران مسلم کمیونٹی اور زیادہ ترپاکستان کو نشانہ بنایا گیا۔
مودی کا ریکارڈ بھی انتباہ پیش کرتا ہے۔ اس نے پاپولسٹ رویوں کو دکھایا۔ اپنی کرپشن چھپاتے ہوئے مودی کے حامیوں اور دائیں بازو کے دانشوروں نے میڈیا پر بحث و مباحثہ میں الگ تصویر پیش کی ۔ اہم اداروں خاص طور پر مرکزی بینک اور بھارتی سپریم کورٹ کو ڈرا دیا گیا کہ اگر مودی واپس نہیں آتا‘ بھارت کئی درجے پیچھے چلا جائے گا۔یہ تاثر دیاگیا ‘جب مودی نے طاقت حاصل کی تواقتصادی ماہر انٹیلی جینس یونٹ نے دنیا کی 27 ویں صحت مند جمہوریت کے طور پر ہندوستان کا درجہ حاصل کیا‘ جس میں اکاؤنٹس اور منصفانہ انتخابات جیسے اقدامات کئے گئے تھے۔اس طرح کے ریکارڈ میں بہت ساری چیزیں دیکھنے کو ملیں۔ پرنٹون یونیورسٹی کے مؤرخ‘ گانا پراکش نے حال ہی میں لکھا کہ مودی نے انہیں بھارت کے سب سے زیادہ طاقتور رہنما دکھائی دیتے ہیںاور مودی میں انہیںاندرا گاندھی دکھتے ہیں؛ اگرچہ وہ بائیں بازو اور سیکولر بھارتی نیشنل کانگریس کی قیادت کرتے تھے ۔ بہت سے بھارتی رہنما اور عوام ڈرتے بھی ہیں کہ اگر مودی دوبارہ کامیاب ہو گیا‘ تو بھارت کے آئینی احکامات میں بہت زیادہ تبدیلیوں کی کوشش کرے گا۔
مطلوبہ اعداد و شمار کو یکجا کریں‘تو مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے واپس آتا دکھائی دیتا ہے ‘لیکن اس بار 2014ء کے انتخابات کی نسبت مودی کم ہی سیٹیں پارلیمان میں حاصل کر سکے گا۔مودی الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا‘ مگربی جے پی اور اس کے اتحادیوںکو ملا کراکثریت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اتحادیوں کے ملنے سے اس کی اکثریت کافی زیادہ ہوسکتی ہے‘ مگرفی الوقت کچھ کہا نہیں جا سکتا۔سیاست کے کھیل میں بازی کسی وقت بھی پلٹی جا سکتی ہے۔مودی اور اس کے اتحادیوں کا جمہوریت کیلئے اتحاد‘ ایک محدود اکثریت میں ہوگا۔ اس کے قانونی مقاصد پر حدود ہوگی۔ مودی نے اتحادی جماعتوں کے شراکت داروں سے بچنے کیلئے اپنے پارٹی رہنماوں کو زیادہ اشتعال انگیز بیانات دینے سے بھی منع کیاہے۔ مودی کی حیثیت اوراس کی ہندتوا قوم پرستی سب کے سامنے واضح ہوچکی ہے۔
خاص طور پر ایک سو طاقتور قومی ہندو مذہبی تنظیموں کو بی جے پی میں شامل کیا گیا اور انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔انتہا پسند ہندوئوں کو تیزی سے ہندوستان کے سرکاری انتظامیہ میںاعلیٰ عہدوںپر فائض کیا گیا۔ یہ تحریک مضبوط توہوئی ‘لیکن اس کے مستقبل کے بارے میں سبھی تذبذب کا شکا رہیں۔
دہلی یونیورسٹی کے سروے کے مطابق؛ بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت کے تحت مذہبی اقلیتی برادریوں کو ہندو قوم پرست گروپوں سے زیادہ خطرے کا احساس ہوا‘ جو غیر ہندو افراد اور عبادت گاہوں کے خلاف متشدد کارروائیاں کرنے میں مصروف رہے۔مودی کی دوبارہ حکومت آنے سے ان میں مزید تیزی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مذہبی اقلیتی برادریوں نے یہ بھی کہا کہ قومی حکومت نے کبھی بھی تشدد کے واقعات کے خلاف بات نہیںکی۔مسلم‘ عیسائی اور دیگر قومیں بھارت میں خود کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ بھارت کے ریاستی ڈھانچے میں رہنے والے سکھوں کو بھی ان کے سیاسی‘ ثقافتی‘ مذہبی اور دیگر حقوق میسر نہیں۔ آئے روز ان کی مذہبی کتاب کے توہین آمیز واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔ سِکھ برادری کو مسلسل ذہنی دباؤ اور تشدد میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور اسی ذہنی دباؤ کے باعث وہ خودکشی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔
فوج میں بھرتی ہوئے سکھ جوانوں کی کوئی عزت نہیں۔ یہاں تک کہ ہندو کسی بھی جونیئر سکھ کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا اور اس کا نام‘ پہچان اور شناخت چھپانے میں اس کو خصو صی مدد کی جاتی ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کارندے آئے روز بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کی مذہبی مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مسلسل احتجاج پر اگر کسی کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کر بھی دیا جائے‘ تو وہ انتہائی سست روی کا شکار رہتا ہے۔انتہا پسند ہندو مجرمو ں کی سزا یا تو معطل ہو جاتی ہے یا ان کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھرتیوں کا معاملہ ہو تو سکھوں ‘مسلمانوں اور دلت کو نچلے درجے کی نوکریوں پر رکھا جاتا ہے‘ لیکن تعلیمی اداروں میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوںکی بھرتی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ ان کو اپنے اداروں میں اپنا تعلیمی کورس تک رائج کرنے کی اجازت نہیں۔
الغرض اگر مودی دوبارہ اقتدار میں آگیا ‘ تواس سے انتہا پسند ہندوئوں کے راج کو مزید تقویت ملے گی۔