سراج اورنگ آبادی نے تحیر عشق کی خبر دی تھی۔ ہمارے ملک میں ان دنوں بے خبری کا موسم ہے۔ درد مند تو کبھی بے خبر نہیں تھے۔ بے خبری نے انہیں آ لیا، جنہیں خبر کا دعویٰ تھا۔ بے خبری کے نگر سے آنے والی کچھ خبریں دیکھیے۔ ڈالر جست لگا کر 150روپے پر پہنچ گیا۔ اسٹاک ایکسچینج 54000پوائنٹس سے 33000پوائنٹس پر اتر آیا۔ فی کس آمدن ایک سال میں 1652ڈالر سے 1516ڈالر پر اتر آئی۔ معیشت کی شرح نمو 3.29فیصد رہ گئی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا۔ بیرونی قرضوں میں 1000ارب روپے بڑھ گئے۔ رواں مالی برس میں ملکی معیشت کسی اہم اشاریے میں اپنا ہدف پورا نہیں کر سکی۔ زراعت، مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کے شعبوں میں منفی شرح نمو کی نوبت آ گئی۔
دوسری طرف سیاست کی خبر لیجئے۔ برسوں کی محنت سے جو نقشہ مرتب کیا تھا، اُس کا شیرازہ بکھر چکا۔ معیشت کے نام پر بننے والی حکومت میں اسد عمر اقتصادی وژن کا نشان تھے۔ اب ان سے معیشت پر سوال کیا جائے تو فرماتے ہیں کہ مجھے اس سے کیا لینا دینا؟ مجھ سے پکوڑوں کا بھائو پوچھو۔ فواد چوہدری نے چند ماہ میں ذرائع ابلاغ کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ اب کہتے ہیں کہ اُنہیں معلوم ہے کہ اُنہیں کیوں نکالا گیا۔ متعین بات کہنے کا یارا نہیں رکھتے۔ ارادہ یہ تھا کہ میڈیا کی آواز دبائیں گے، انجام یہ کہ خود اپنا دکھ بھی بیان نہیں کر سکتے۔ اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے۔ صحت کے وزیر بڑبڑاتے ہوئے پردہ فرما گئے، یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ فروری سے ادویات کے بنیادی اجزا کی بھارت سے درآمد معطل ہے۔ کہیں اور سے درآمد کرنے پر لاگت بڑھ جاتی ہے۔ شیخ رشید گل فشانی کے جوہر دکھاتے رہے اور ریلوے میں آٹھ ماہ کا خسارہ 29ارب روپے کو جا پہنچا۔ غلام سرور خان سے پیٹرولیم کا قلمدان لے کر انہیں ہوا بازی کا سررشتہ سونپا گیا اور پھر ہاتھ کے ہاتھ سرکاری ائر لائنز کو ایئرفورس کے سپرد کر دیا گیا۔ دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا… ادھر پیٹرولیم کے معاملات ایک مستعار لئے گئے معاون کے سپرد کئے گئے۔ ندیم بابر ایسے مستغنی نکلے کہ وزیراعظم کو مطلع کرنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ کیکڑے کے تلوں میں تیل نہیں۔
بیرون حرم گیٹ ملتان کے فٹ پاتھ پر کیکڑے سے ملتی جلتی ایک مخلوق کا تیل سرعام فروخت ہوتا ہے۔ کسی کتاب میں تو نہیں لکھا کہ تیل کیکڑے ہی سے نکالنا لازم ہے۔ ادھر حزب اختلاف کے اختلافی زاویے ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔ بلاول بھٹو حمزہ شہباز سے بغل گیر ہو گئے۔ اس معانقے کی معنویت آئندہ ستمبر اکتوبر میں سامنے آسکے گی۔ بھٹو شہید بھارت کے بارے میں توسیع پسندی کی اصطلاح فراخدلی سے استعمال کیا کرتے تھے۔ ہم نے توسیع پسندی کا مفہوم ہی بدل ڈالا ہے۔ ہر تین برس بعد توسیع کا سوال اٹھاتے ہیں، گل تراشتے ہیں، تتلیاں بناتے ہیں۔
اس افراتفری میں احتساب بیورو کے سربراہ کی بعض معروف قلم کاروں سے ملاقات نظروں سے اوجھل رہی۔ سبحان اللہ! کیسے بارسوخ صحافی ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے کسی سربراہ کو رات گئے رونمائی دینا منظور ہو تو انہی صحافیوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ ایک اور قاضی القضاۃ کو ڈیم منصوبے کی حکایت بیان کرنا ہو تو انہی پر نظر ٹھہرتی ہے اور احتساب کا کیف و کم بیان کرنے کیلئے بھی یہی صحافی نگہ انتخاب میں بار پاتے ہیں۔ ایک عمومی تردید ضرور سامنے آئی لیکن ایک دقیقہ بدستور دامن دل کھینچ رہا ہے۔ دروغ بر گردن راوی، صاحب احتساب نے فرمایا کہ وہ بھیس بدل کر دسترخوان پر پہنچے۔ پھر کچھ لذت کام و دہن کا نقشہ بیان کیا۔ بندگان پایاں مقام یہ گتھی نہیں سلجھا سکے کہ امانت و صداقت کے علمبردار کو بہروپ دھار کے کوچہ گردی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ منصب کے کس قانونی یا آئینی تقاضے کی تکمیل تھی کہ صاحب اقبال سوانگ رچا کر وہاں پہنچے جہاں افتادگان خاک میں نان جویں بٹ رہے تھے؟ ہمیں تو ریاست مدینہ کی بشارت دی گئی تھی، یہ تو کچھ الف لیلہ کے بغداد کا منظر دکھائی دیتا ہے۔
انتظار حسین کی ابتدائی تحریروں میں ایک افسانہ بہت معروف ہے۔ عنوان تھا، ’روپ نگر کی سواریاں‘۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں اکے کی چند سواریاں ہیں، ایک مریل گھوڑا ہے اور دون کی لانے والا کوچوان ہے۔ نفس مضمون یہ ہے کہ ہارے ہوئے لوگ طاقتور کی غیبت سے اپنی ذات پر اعتماد بحال کرتے ہیں، حیلے بہانے سے اپنی کمزوریوں کی عذر خواہی کرتے ہیں اور جہاں مقتدرہ سے آنکھ ملے، بغیر تامل کئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔ انتظار حسین کا پیرائیہ بیان مستعار لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم روپ نگر سے چل کر بہروپ نگر آ پہنچے ہیں۔ ہمارا ڈبہ گاڑی سے کٹ گیا ہے۔ ہم نے آزادی کی پہلی چار دہائیوں میں سالانہ 6فیصد کی شرح نمو برقرار رکھی، فی کس آمدنی دوگنا ہو گئی اور غربت کی شرح 48فیصد سے 18فیصد تک لے آئے۔ اس دوران ہم نے جنگیں بھی لڑیں، آمریت بھی بھگتی، آئین شکنی سے بھی شغف رکھا، ملک بھی دو لخت کیا لیکن اچھے دنوں کی شاخ پر امید کا پتا سرسبز رہا۔ چلتی گاڑی سے ہمارا ڈبہ تب کٹا جب ہم نے شراکت اقتدار کے نام پر جمہور کی رائے سے کٹھ پتلی تماشا شروع کیا۔
1988سے 1999تک کے دس برس ہمارا عشرہ زیاں کہلائے۔ خبر یہ ہے کہ تاریک گوشوں میں گھات لگائے کچھ بزرجمہر 2008سے 2018کے دس برس کو آج کی جملہ خرابیوں کا منبع قرار دیتے ہیں۔ کیا عجب اگر ہمارے بعد آنے والا مورخ 2018سے شروع ہونے والی تمثیل کو ایک اور عشرہ زیاں کا نقطہ آغاز قرار دے۔ جسے معیشت کا بحران سمجھا جا رہا ہے، وہ اصل میں سیاست کی منجدھار ہے۔ آثار اچھے نہیں ہیں۔ ہے روشنی قفس میں مگر سوجھتا نہیں، ابر سیاہ جانب کہسار دیکھ کر… ماضی کا سبق بہرصورت یہی ہے کہ بہروپ نگر کی سواریاں اپنے آپ کو دھوکہ دیتی ہیں نیز یہ کہ ڈبہ گاڑی سے کٹ کر پٹری سے اتر جائے تو اسے تبدیلی نہیں، حادثہ کہتے ہیں۔ ایسے بدقسمت ڈبے منزل پر نہیں پہنچتے۔ باقی رہے ہم اور آپ، تو ہماری حکایت تو احمد مشتاق نے بہت پہلے لکھ رکھی ہے:
کسی طرح نہیں جاتی فسردگی دل کی
تو زرد رنگ کا اک آسماں بناتے ہیں