خیال – تعصب

کھا رہی ہے، پہن رہی ہے، کھلا رہی ہے، نکل رہی ہے، آرہی ہے، دیکھ رہی ہے، چل رہی ہے، جا رہی ہے، بتا رہی ہے، سمجھا رہی ہے، پڑھا رہی ہے، پڑھ رہی ہے اور پکا رہی ہے. اردو میں مونث کے لئے استعمال شدہ یہ تمام صیغے تو نہیں، لیکن معاشرے میں عورت کو رپورٹ کرنے کے لئے زیرِ استعمال بیشتر جملوں کے اواخر ضرور ہیں۔

بات انہی سے شروع ہوتی ہےاور پھر خاندان تک کھنگال لیا جاتا ہے. کسی بھی خاتون کے کردار سے، اخلاق، اور ان کے دادا مرحوم، دادی مرحومہ کے بارے میں بھی اندازہ انہی جملوں سے لگا لیا جاتا ہے. لباس سے کیسے کسی کو گالی کا مستحق قرار دیا جاتا ہےاور کیسے ایک ہی نظر بھرنے سے کردار کا فیصلہ ہوجاتا ہے. وہ بھی اُس معاشرے میں جہاں انصاف کے لئے ایک سائل سالہا سال ایڑھیاں رگڑتا ہے تب جاکر اس کے پوتے پڑپوتے "معاف کیجئیے گا” بوسیدہ انصاف حاصل کرکے انصاف کی دھمال ڈالتے ہیں. وہاں چٹ پیشی پٹ فیصلہ کسی نعمت سے تو واقعی کم نہیں مگر یہ آنکھوں کی منصفی بھی کیا ہے؟ انصاف کہہ رہا ہے واہ واہ،
لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ منصفی عورت کے لئے ہے تو ذرا رکئیے!!!

مرد بھی یہی سب بھگتتا آیا ہےلیکن تفریق مذکر مونث کی ہی کیوں؟ مذہب، رنگ، نسل، ذات پات، معاشرتی طبقات، معاشی کلاسز یا کوئی اور بھی تفریق ہو وہ اس انصاف سے پاک نہیں. تعجب کی بات یہ ہے کہ جہاں تعصب ہے وہاں سستا انصاف ضرور ہے جسے عرفِ عام میں Judging کہتے ہیں۔

معاشرہ جتنا پرانا ہو گا اتنے ہی زیادہ جج ہوں گے اور ججوں کے اتنے ہی زیادہ معیار. یہ چیزیں منسوب کرکے رکھ لیں گے. بے دھیانی اور لاپرواہی میں آپ کی کوئی بھی حرکت ان کے لئے ثبوت سے کم نہیں ہوگی اور وہ فیصلہ سُنا کر آپ کو بدکردار یا پاک باز ثابت کردیں گے۔ چاہے آپ میں وہ خوبیاں پائی ہی نہ جاتی ہوں ۔ میں نے کہا نا جہاں تعصب ہوگا وہیں یہ عادت عام ہوگی ۔ مزے کی بات یہ ہےکہ ایک عورت کو سب زیادہ JUDGE ہی دوسری عورت کرتی ہے اور ایک عورت کے لباس کو دیکھ کر مرد کی کمائی، غیرت، عزت سب بھانپ لینے میں ماہرفاضل جج ہمارےمعاشرے میں ہر جگہ ہیں۔ لیکن اس عادت میں وہ اتنا رچ بس چکے ہیں کہ اب انہیں فرق نہیں پڑتا کہ JUDGE کرنا صیح ہے یا غلط. لیکن دکان، بس اڈہ، سکول پارک، شاپنگ سینٹر ہر جگہ یہ منصف موجود ہیں۔ یہ دیکھتے ہیں کس کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہیں اور کس کے ماتھے پر کتنا بڑا محراب ہے؟ برقعے اور جینز سب دیکھ کر کسی پر بھی کوئی بہتان باندھ دینا اِن کا شیوا ہے.

اِس معاشرے میں تو مسئلہ ہی صیح اور غلط کا ہے. معاشرے میں صیح اور غلط لوگ موجود ہیں ایسے تو مغرب کا معاشرہ اس مسئلے سے ہی پاک ہوگیا. سب "کافر” ہیں اور کسی کو اس سے غرض نہیں کہ دوسرا کیا ہے. صیح غلط کی تفریق بس یہیں ہے. مغرب میں کسی کو اپنے گھر کی اتنی فکر نہیں ہوگی جتنی یہاں باہر کی فکر کی جاتی ہے. فکر بھی کیا لاجواب شے ہے ہو تو ہر چیز کی ہوتی ہے اور نا ہو تو دوسرے کی بھوک کی بھی نہیں ہوتی لیکن اگر دوسرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں. مثال کے طور پر اگر کسی عورت کو اس لئے نظر انداز کردیا جائے کہ وہ بھی سڑک پر چل رہی ہے دوسرے کئی لوگوں کی طرح، تو اُسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی. پھر وہ اپنا پیٹ پالنے کے لئے سڑک کنارے فروٹ بیچ لے گی.

کسی بھی مجبورعورت کو اندھیرا ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ایک مرد جس کی کمائی، جیب اور اس کے گھر پر کسی کی نظریں نہیں ہوں گی تو پھر پیٹ پالنے کے لئے وہ چاہے ٹیکسی چلائے یا آڑھت کرے فرق نہیں پڑےگا۔ کیوں کہ تب وہ صرف اپنے رب کو جواب دہ ہوگا۔ اسے صرف حلال حرام میں تمیز کرنی ہوگی. نہ کہ افسری اور نوکری میں، بڑے کام، چھوٹے کام، لکھنے کو اس پیراہے میں بہت کچھ ہے کیوں کہ میں نے بھی اس معاشرے کو سکین کررکھا ہے کیونکہ اس معاشرے کے ہر فرد کی طرح میں بھی ایک منصف ہوں بلکل آپ سب کی طرح

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے