عمل سے زندگی بنتی ہے

ایک بچہ جو دوسال کی عمر میں یتیم ہو گيا اور زندہ رہنے کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھاتارہا۔ کبھی مال مویشوں کا رکھوالا بن کر، کبھی کسی کے گھر کا رچوکیدار بن کر،کبھی کارخانوں میں مزدوری کرکےاور کبھی ریڑھی والا بن کر۔۔۔بس اس کی زندگی کو یوں سمجھ لیں کہ ہر دن انگاروں پر چلنے کے مترادف تھا۔
اس نے زمانے کی ان تلخیوں اور مشقتوں کو گلےلگانا سیکھ لیا اور بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی میں قدم رکھا۔ ان مشکلات نے اسے طرح طرح کے تلخ اسباق سکھا ئےتاہم اس جہد مسلسل نے اسے محنت و مشقت کرنا سکھا دیا اور زندگی میں آگے بڑھنے کے اس جذبے کو لے کر اس نے آخری سانس تک لڑنا سیکھ لیا۔
حالات کی یہ ستم ظریفی ہی تھی کہ وہ اپنی عمر سے زیادہ پختہ سوچ اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنے لگا ۔ روز کچھ نیا کرنے کی کی جستجو کرنے لگا کاروبار کے نت نئے مواقع اور اسلوب جانے کی کوشش کرنے لگا ۔ کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی نے ہاتھ تھاما۔ لیکن کبھی بھی ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھتا رہا۔ وقت گواہ ہے کہ زندگی بھر کی تگ و دو اور محنت رنگ لانے لگی اور دن بدلنے لگے اور وہ تحصیل ملک وال ، ضلع منڈی بہاؤالدین کے ایک نامور بزنس مین کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ۔ یہ بزنس مین روایتی بزنس مین کی طرح نہیں بلکہ اصول پرست تھے ۔ کاروباری معاملات اور لین دین میں کبھی کسی کے ساتھ دھوکہ نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ کوشش کرتے کہ کسی بھی شخص کو ناراض واپس نہ بھیجیں۔ دوسری اہم بات وہ ہروقت اپنے اندرایک سماجی خدمت و خلق کا جذبہ رکھتے تھے ۔ اس جذبے سے سرشار ہو کر معاشرے میں غریب و مسکین افراد کی امداد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ غریبوں کی ہر بنیادی انسانی ضرورت تک کا بندوبست کرتے۔ خاص طور پر اپنے علاقے میں ضرورت مندوں بچیوں کی شادی کے تمام اخراجات بشمول جہیز کے سامان وغیرہ کا اہتمام کرتے تھے۔ ان کےاسی جذبے اور خدمت نے معاشرے میں انہیں ایک الگ اور منفرد پہچان”سماجی خدمت گار”کے طور پر دے دی ۔ اور قدرت نے بھی انہیں موقع عطا کیا کہ ضرورت مندوں کی حاجتوں کو پورا کریں۔

ان محترم شخصیت کانام”حاجی عبد المجید بھٹی ‘ تھا۔ میرا جب بھی ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل ملک وال کے پرانے محلے چل پور سے گزر ہواتو لوگوں نے سب سے پہلے اس کرشماتی شخصیت "حاجی عبد المجید بھٹی ‘ کے بارے میں ضرور پوچھا، جو میرے نانا ابو ہیں۔ وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں اسی طرح زندہ ہیں جیسے کئی برس پہلے تھے۔ حاجی صاحب نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ اسی شہرملک وال میں گزارا ۔ پھر بعد میں کچھ ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے اسلام آباد شفٹ ہو گئے اور پھر گزشتہ ماہ 29اپریل، 2019 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

مجھے جب بھی ان کےساتھ وقت گزارنے اور گپ شپ کا موقع ملاتو محسو س ہو ا کہ وہ واقعتا ایک Motivational Speaker تھے جوچند لمحوں میں ہی آگے بڑھنےاور محنت کرنے کی سوچ پیدا کر دیتے تھے ۔ حاجی صاحب کی تمام زندگی ایک تجربہ گاہ تھی جس میں اپنی زندگی کے تلخ تجربات و مشاہدات نے انہیں بہت کچھ سکھایا جس سے انہوں نے کامیاب زندگی گزارنے کے کچھ نمایاں اصول اخذکیے۔

ان کے اس طرز فکر اور سوچ کا بہت گہرا ثر ان کی اولاد پر بھی ہوا۔ اپنی والد صاحب کی تربیت اور نمایاں اصولوں کو اپنا کر انہوں نےزندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا جن میں خاص طو ر پر اعلی ٰتعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کےفروغ کے لئے ادارے قائم کیے جن میں ہزاروں کی تعداد میں طلباءپڑھ رہے ہیں اور سینکڑوں ملازمین وابستہ ہیں ۔ انہی اداروں میں سے ایک اسلام آباد کے ایف-ایٹ مرکز میں موجود Comwave Institute for Information & Technology اورNine Sole کے نام سے سافٹ وئیر ہاوس ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حاجی صاحب کی ایک دیرینہ خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمت اور توفیق دے تو وہ دین کے فروغ کے لئے بھی کچھ اقدام کریں گے۔ جس کو جلد ہی ان کے بیٹے دانش احسان نے ان کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا اور 2004ء میں پاکستان میں پہلی بار ای لرننگ کے تصور کے تحت ایک آن لائن قرآن اکیڈمی کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں موجود مسلم کمیونٹی کےلئے آن لائن قرآن ٹیچنگ کی سہولت میسر کی، جس میں طالب علم کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جدید سافٹ وئیر کے ذریعے قرآن مجید سیکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستانی مدارس کے نوجوان اساتذہ اور طلباء جن کے لئے مدارس / مساجد کی خدمت کے علاوہ کو ئی خاطر خواہ ذریعہ معاش نہیں تھا ان کے لئے بہت اچھار اور باوقار ذریعہ روزگار پیدا ہو گیا جو کہ ان کی مالی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔

حاجی صاحب کی زندگی کے چند اصولو ں کا جائزہ لیتے ہیں جن کو اپناکر انہوں نے ایک کامیاب انسا ن کی زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا جو ہمار ے لئے مشعل راہ ہے۔ سب سے پہلا اصول:خود اپنی ذات کے ساتھ کھڑے ہونا۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے کبھی خود کو تنہا نہیں چھوڑا۔زندگی نے بہت جھنجوڑا لیکن استقامت کےساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ کبھی بھی خو د کو اندر سے کمزور مت جانو اوردوسروں سے خود کو کبھی کمتر مت سمجھو ۔ اللہ تعالی نے آپ کو بے شمار خوبیوں کے ساتھ نوازاہے۔ دوسرا اصول: حاجی صاحب کی رسمی تعلیم صرف 4 جماعت تک تھی لیکن انہوں نے اپنی زندگی کی ضروریات اور ترجیحات کا واضح تعین کیا ہواتھا۔ واضح اہداف طے کیے ہوئے تھے جن کو حاصل کرنے میں اپنا وقت لگاتے۔ تیسر اصول: وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ قدرت سب کو آگے بڑھنے اورکامیاب ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ کبھی بھی ایسے موقع کو ضائع نہ کریں اس کا ادرا ک کریں اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں ۔چوتھا اصول، وہ کہتے تھے زندگی میں اگر کسی بنیادی انسانی ضرورت (مکان/ نکاح یا کوئی اور۔۔) کو پورا کرنے لئے اگر مالی رکاوٹ ہو اور آپ کے پاس قرض لینے کے سوا کوئی آپشن نہ ہوتو پیچھے مت ہٹو، قرض لے لو ۔جس کا ہمارا مذہب بھی اجازت دیتاہے۔ وہ کہتے تھے کہ "قرض تو وقت آنے پر اتر جائے گا لیکن وہ وقت پھر ہاتھ نہیں آئے گا” ۔پانچواں اصول: اپنی زندگی کا محور ومرکز صرف خود کو نہ بناؤ بلکہ اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کا بھی خیال رکھو اور یہ ہمیشہ یاد رکھو کہ کبھی بھی ان کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے ۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنی عملی زندگی سے کیا ہے۔
میرے خیال میں ہمارامعاشرہ جس میں بغض، عداوت، کینہ اور حسد جیسی موذی بیماریوں موجود ہیں ایسے میں حاجی صاحب جیسی کرشماتی کرداروں کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے جو ہروقت اور ہر جگہ مشکلوں کی دھوپ میں بادلوں کی طرح چھاؤں مہیا کرتے ہیں اور اپنی عملی زندگی کے تجربات سے دوسروں کو کامیاب زندگی گزارنے کے گر سکھاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے