دیکھیں جناب ہم لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو حال احوال تو پوچھتے ہی ہیں نا، جوکہ پوچھنا بھی چاہئے۔ کیا حال ہے، کام کیسا جا رہا ہے، بال بچے کیسے ہیں، ملاقات ہوتی رہنی چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے میں خود بھی روزانہ ایسے ’’حالات‘‘ سے گزرتا ہوں مگر کیا کچھ سوالوں کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے، مثلاً خیر سے اب آپ کی عمر کتنی ہے؟ جی چاہتا ہے کہوں، ڈیڑھ سو سال، کم کر سکتے ہو تو کرکے دکھاؤ۔ کچھ لوگ عمر نہیں پوچھتے، صرف اتنا کہتے ہیں صحت تو ٹھیک رہتی ہے نا؟‘‘ بندہ پچھے تو ڈاکٹر ایں؟ اگر صحت ٹھیک نہیں رہتی تو کیا تم کوئی مسیحائی کرو گے؟ کچھ بھی نہیں بس اسے تو یہ احساس دلانا ہے کہ جناب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ چلیں جی ہوگیا ہوں، میں نے ضرورتِ رشتہ کا کوئی اشتہار تو نہیں دیا ہوا؟ تاہم کچھ لوگ ایسی فضول بات نہیں کرتے، اس سے زیادہ فضول بات بلکہ حرکت کرتے ہیں۔ میں ٹھیک ٹھاک سڑک پار کر رہا ہوں آکر میرا ہاتھ تھام لیں گے کہ میں پار کرا دیتا ہوں، ان میں سے کچھ کو تو الٹا مجھے سڑک پار کرانا پڑتی ہے۔
اب میں کیا عرض کروں، عجیب زمانہ آگیا ہے، کسی محفل میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی پچاس سالہ خاتون مداح تشریف لاتی ہیں اور سلام کرنے کے بجائے میرے سامنے اپنا سر جھکا دیتی ہیں کہ میں ان کے سر پر پیار دوں۔ ان لمحوں میں اس عفیفہ کو یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ کبھی سر پر پیار نہیں لیا کرتی تھیں۔ میرے ایک دوست تھے جو فوت ہو گئے ہیں، وہ جہاں کہیں مجھے مداحوں میں کھڑا دیکھتے تھے تو کہتے تھے ’’قاسمی صاحب آج شام کو وقت ملے تو غریب خانے پر تشریف لائیں، یورپ سے ایک دوست بہت اچھا ’’مشروب‘‘ لے کر آئے ہیں‘‘۔ میں ہر دفعہ انہیں کہتا ’’برادر میں شاعر ضرور ہوں مگر ’’شوق‘‘ نہیں فرماتا۔ آپ مجھے بدذوق سمجھ کر معاف کر دیں‘‘۔ وہ اپنے سر پر دوہتڑ مار کر معافی کے طلبگار ہوتے اور اپنی کمزور یادداشت کو برا بھلا کہتے۔ ایک بار ایک نعتیہ مشاعرے کے اختتام پر میرے نعت گو دوستوں کا حصار توڑ کر میرے پاس آئے اور کہا ’’آج شام کو گھر تشریف لائیں، بہت عمدہ تحفہ ہے آپ یاد رکھیں گے‘‘۔ اس روز مجھے غصہ آگیا مگر میں نے چہرے یا لفظوں سے اس کا اظہار کیے بغیر اپنی ایک آنکھ میچ کر کہا ’’مجھے یقین ہے کہ واقعی بہت اچھا تحفہ ہوگا، کیونکہ مجھے آپ کی کاروباری دیانت پر کبھی شبہ نہیں ہوا۔‘‘ اس کے بعد پھر انہوں نے مجھے زندگی بھر کبھی کوئی اِس طرح کی یا اُس طرح کی آفر نہیں کی۔
شاعر نے کہا تھا کہ ’’قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم‘‘ سو میرا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان دنوں لوگ رمضان کے مقدس مہینے کی برکات سمیٹنے میں مشغول ہیں۔ یار لوگ ملتے ہیں ’’اُف آج روزہ بہت لگ رہا ہے۔‘‘ کوئی اپنی پیاس سے سوکھی زبان بھی دکھاتا ہے، کوئی اپنا منہ میرے منہ کے قریب لاکر روزے کی برکات بیان کرتا ہے، میں ان سے جتنا پرے ہوتا ہوں وہ اپنا منہ میرے اور قریب لے آتے ہیں۔ ایک دن میں نے انہیں کہا ’’برادر اللہ تعالیٰ کو روزے دار کے منہ کی بُو سے بہت پیار ہے ،مگر میں نے تو کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا‘‘۔ یہ سن کر اس سخن ناشناس نے کہا ’’اچھا تو میرے منہ سے بھی بو آتی ہے‘‘ اور یہ کہتے ہوئے وہ بہت خوش دکھائی دیئے اور بولے ’’آپ اس نعمت سے محروم ہیں، اگر آپ کی عمر کے لوگوں کو روزے معاف نہ ہوتے تو آپ اپنی خوش نصیبی پر خود رشک کرتے‘‘ میں ان کی عمر والی بات تو ’’پی‘‘ گیا مگر عرض کی کہ ’’حضرت آپ سے کس نے کہا کہ میں روزے کی نعمت سے محروم ہوں‘‘ بولے ’’کیونکہ آپ کے منہ سے کبھی بو نہیں آتی‘‘ میں نے کہا ’’آپ کے منہ سے بھی نہیں آئے گی، دن میں دو ایک مرتبہ برش کر لیا کریں‘‘۔
میرا خیال ہے میں نے عمر کا دکھڑا بہت رو لیا ہے اور یہ دکھڑا میرا نہیں ان کا ہے جو 77سال کے نوجوان کو بھی بوڑھوں میں شمار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر رمضان کا مقدس مہینہ نہ ہوتا تو میں یہاں ’’بزرگی‘‘ کی ’’برکات‘‘ بیان کرتا مگر میں ایک اشارہ کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ایک شخص کو ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ آپ چوبیس گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے، ظاہر ہے بیچارے کی نیند اُڑ گئی اور وہ اپنی بیوی سے اپنی آخری گفتگو کرنا لگا۔ جب اس گفتگو نے زیادہ ہی طول پکڑ لیا تو بیوی نے کہا ’’اب بس کریں، آپ نے تو صبح مر جانا ہے، اور مجھے کام پر بھی جانا ہے‘‘۔