پہلی کہانی محمد عمران حیات کی ہے‘ نوجوان نے تحصیل دیناپور کے گاؤں چک نمبر243کے سفید پوش گھرانے میں آنکھ کھولی‘ گھر میں غربت کا راج تھا اور گاؤں میں سہولیات کافقدان‘ عمران حیات کے بڑے بھائی محمد اقبال کو مدرسے اور اسے سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا گیا‘عمران نے مڈل کے بعددوسرے گاؤں کے ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا‘ والد گاؤں میں مزارع کے طور پر کام کرتے تھے‘وہ ایک دن اچانک انتقال کر گئے‘والد کے سوا روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں تھا‘ محمد اقبال دینی تعلیم درمیان میں چھوڑکر مزارع بن گیا‘وہ گاؤں کی مسجد میں بطور مؤذن بھی خدمت کرنے لگا تاہم اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو تعلیم جاری رکھنے کے تلقین کی‘محمد عمران حیات کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے گورنمنٹ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر بشیر احمد ہاشمی اور سائنس ٹیچر محمد صدیق نے اسے بلا معاوضہ ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی‘محمد عمران حیات نے میٹرک کا امتحان90 فیصدنمبروںسے پاس کیا‘ اساتذہ نے اسے مظفر گڑھ کے نجی تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا‘اساتذہ تمام فیس اور دیگر اخراجات برداشت کرتے رہے۔
عمران نے اساتذہ کے مالی تعاون سے ایف ایس سی میں بھی87 فیصد نمبرلے لیے‘ اساتذہ نے اس کے بعد اسے ملتان کی ایک اکیڈمی میں داخل کرا دیا‘ اس نے میڈیکل کالج کے لیے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی اور وہ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا ‘ایک بار پھر دونوں اساتذہ نے میڈیکل کالج کی فیس ادا کی اور محمد عمران حیات ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنے لگا جب کہ اس کا بھائی محمد اقبال محنت مزدوری کرکے گھریلو اخراجات پورے کرتا رہا‘ اس نے پانچ بہنوں کی شادیاں بھی کیں‘میڈیکل کالج میں روزانہ کے اخراجات اور ہاسٹل کے واجبات کے لیے محمد عمران حیات کو مشکلات پیش آنے لگیں‘وہ کالج کی انتظامیہ کے پاس مدد کے لیے گیا تو اسے کاروان علم فاؤنڈیشن کے بارے میں بتایا گیا ‘محمد عمران حیات نے اسکالرشپ کے لیے درخواست دی۔
اسے تمام تعلیمی اخراجات کے لیے مالی مدد فراہم کی جانے لگی‘محمد عمران حیات اطمینان سے تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے تھا لیکن پھر ایک دن اسے ٹانگ میں درد محسوس ہوا‘وہ چند دن درد کی دوا کھاتا رہا لیکن آرام نہ آیا‘مزید ٹیسٹ کروانے پر معلوم ہوااسے ہڈیوں کا کینسر (Ewing sarcoma) ہے جسے ہڈیوں کا ٹیومر بھی کہتے ہیں‘یہ خبر اس نوجوان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی‘دوستوں اور اساتذہ نے اس کی ہمت بڑھائی‘50لاکھ روپے کی رقم اکٹھی کی گئی‘ آغا خان اسپتال کراچی سے آپریشن اورکیمو تھراپی ہوئی‘وہ ایک سال تک ہر پندرہ دن بعد ملتان سے کراچی جاتا رہامگراس سارے عرصے میں اس نے اپنی تعلیم کا حرج نہیں ہونے دیا‘کاروان علم فاؤنڈیشن نے بھی اس کا ساتھ دیا‘ محمد عمران حیات غربت اور کینسر سے لڑنے کے بعد آج ایم ابی بی ایس کے آخری سال میںہے‘یہ کاروان علم فاؤنڈیشن سے آج بھی اسکالرشپ حاصل کررہا ہے۔
دوسری کہانی لاہور کی سدرہ نور کی ہے‘ اس کی والدہ کلثوم کی ارینج میرج ہوئی تھی‘ بظاہر اس کے والدمحمد سلیم تندرست اور ذمے دار دکھائی دیتے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا محمد سلیم نشہ کرتا ہے لہٰذا سدرہ کی پیدائش سے ایک ماہ قبل اس کا انتقال ہوگیا ‘محمد سلیم کی وفات کے بعد گھریلو ناچاقیاں شروع ہوگئیں‘محمد سلیم کے بڑے بھائی محمد صدیقی نے بیوہ بھابھی اور کم سن بھتیجی کو کرائے کا ایک مکان لے دیا اور وہ ہرماہ راشن کے لیے مالی مدد کرنے لگا لیکن یہ سلسلہ بھی چند سال بعد بند ہو گیا‘کلثوم نے اپنے اکلوتے بھائی سے مدد کی درخواست کی لیکن وہ خود ان دنوں دبئی میں معمولی معاوضے پر الیکٹریشن کی ملازمت کر رہا تھا‘
کلثوم کے پاس اب لوگوں کے گھروںمیں کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیںتھا‘لوگوں کے جوٹھے برتن مانجتے ہوئے اس نے دل میں یہ ارادہ کرلیا تھا وہ اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم دلوائے گی‘سدرہ نور نے میٹرک کا امتحان75فیصد نمبروں سے پاس کیا‘کلثوم کے لیے کالج کے اخراجات اب ممکن نہیں تھے‘ کسی نے اسے کاروان علم فاؤنڈیشن کا بتایا‘وہ درخواست لے کر کاروان علم فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچ گئی‘کاروان علم فاؤنڈیشن نے اس کے حالات کا جائزہ لیا اورسدرہ نور کو لاہور کے بہترین تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا‘اسے تعلیمی اخراجات کے علاوہ کرائے کے لیے بھی اسکالرشپ جاری کردیا گیا‘ماں بیٹی کو کسی نیک دل خاندان نے ایک کمرہ دے رکھاتھا ‘ان کے بچے بڑے ہوچکے تھے لہٰذا وہ ان کی مزید مدد نہیں کر سکتے تھے۔
یہ بات کاروان علم فاؤنڈیشن کے علم میں آئی تو انھیں کرائے کا مکان بھی لے کر دے دیا گیا‘کاروان علم فاؤنڈیشن سدرہ نور کو نہ صرف تعلیمی اخراجات فراہم کررہی ہے بلکہ انھیں کرایہ مکان اور دیگر ضروریات کے لیے ہر ماہ معقول رقم بھی فراہم کی جارہی ہے۔تیسری کہانی محمد نوید کی ہے‘محمد نویدنے ضلع قصور کے گاؤں خورد رائے کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی‘اس کا والد محنت مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالتا تھا‘وہ نویںکلاس میں تھا‘ ایک دن اس کے والد ٹانگوں میںدرد کے مرض میں مبتلا ہوگئے‘تشخیص اور علاج میں مہینوں لگ گئے‘گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی‘ والدہ نے محنت مزدوری شروع کردی‘محمد نوید نے میٹرک کا امتحان 85فیصد نمبروں سے پاس کیا ‘وہ اس کامیابی پر بے حد خوش تھا‘ وہ کمپیوٹر سائنسز میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا‘اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں اس کا داخلہ ہوگیا لیکن کالج اور ہاسٹل کی فیس کے لیے رقم نہیں تھی ‘اس غریب خاندان کو کسی نے ادھار تک دینے سے انکار کر دیا‘ماں نے یہ صدمہ دل پر لے لیا اور وہ دل کی مریضہ ہوگئی۔
باپ پہلے ہی مریض تھا‘ والدہ کاعلاج بھی شروع ہوگیا‘ محمد نوید نے تعلیم چھوڑ کر مزدوری شروع کردی‘سال گزرگیا‘وہ ایک دن لاہور میں سڑک کے کنارے کھدائی کررہا تھا کہ اس کی نظر ایک نجی تعلیمی ادارے کے بورڈ پر پڑی‘بورڈ پر اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو مفت تعلیم دینے کا پیغام درج تھا‘اس نے کالج کو اپنے نتائج اور حالات سے آگاہ کیا‘ کالج نے اسے انٹر میڈیٹ آف کمپیوٹر سائنس(ICS) کی تعلیم مفت دینے کی پیشکش کردی‘مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقعے مل چکا تھا لیکن اسے گھر کے اخراجات اور والدہ کے علاج کے لیے رقم کی ضرورت تھی‘ وہ جس ٹھیکیدار کے ساتھ مزدور کے طور پر کام کرتا تھا اس نے اسے اپنے حالات بتائے تو ٹھیکیدار نے کہا ‘تم کالج کے بعد آکر اپنا کام شروع کرلیا کرو یوں محمد نوید کا تعلیمی سلسلہ بحال ہوا۔
وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کے پائپ بچھانے والے ٹھیکیدار کے ساتھ مزدور کے طور پر کام کرتا تھا اور آئی سی ایس میں اس نے پورے کالج میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے‘اب اگلا مرحلہ یونیورسٹی میں داخلے کا تھا‘وہ یونیورسٹی آف پنجاب اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں وسائل کی کمی کی بنا پر داخلہ نہ لے سکا‘ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں داخلے کا آخری دن تھا مگر اس کے پاس داخلہ فیس کے لیے رقم نہیں تھی‘ اسے کسی نے کاروان علم فاؤنڈیشن کا بتایا‘ وہ اپنے رزلٹ کارڈ اور داخلہ فیس کا چالان فارم لے کر کاروان علم فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچا‘اسے فوری مطلوبہ فیس فراہم کردی گئی‘محمد نوید کا داخلہ بیچلر ان کمپیوٹر سائنسزمیں کروا دیا گیا اس کے علاوہ اس کی تمام تعلیمی ضروریات کے لیے اسکالرشپ جاری کردیاگیا‘ وہ اب اسکالرشپ کی رقم سے روزانہ اپنے گھر سے یونیورسٹی آتا ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن نے اس کے ہاتھ سے بیلچہ لے کر لیپ ٹاپ تھما دیا ہے‘اب یہ باصلاحیت طالب علم سافٹ وئیر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔
کاروان علم فاؤنڈیشن گزشتہ سولہ سالوں سے محمد عمران حیات‘سدرہ نور اور محمد نویدجیسے طلبہ کے خوابوں کو تعبیر دے رہی ہے‘فاؤنڈیشن کے دروازے ضرورت مند طلبہ کے لیے سارا سال کھلے رہتے ہیں‘طلبہ کو تعلیم کے دوران جس مرحلے پر بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے یہ کاروان علم فاؤنڈیشن سے رابطہ کرتے ہیں‘ کاروان علم فاؤنڈیشن وظائف کے دوران بھی طالب علموں کی عزت نفس کا خیال رکھتی ہے‘ ہر طالب علم کی درخواست کا انفرادی جائزہ لیا جاتا ہے اور ہر طالب علم کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وظائف جاری کیے جاتے ہیں‘کاروان علم فاؤنڈیشن درخواست گزار طلبہ کو سالانہ فیس‘سمسٹر فیس‘کرایہ ہاسٹل‘ماہوار خرچ طعام‘ کتب‘ کرایہ آمدورفت وغیرہ کی مد میں وظائف جاری کرتی ہے۔
فاؤنڈیشن زیر کفالت طلبہ کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کو گھریلو اخراجات کے لیے بھی رقم دیتی ہے‘جب ایک غریب گھرانے کا باصلاحیت نوجوان میڈیکل‘انجینئرنگ ‘سائنس و ٹیکنالوجی‘کامرس اور سوشل سائنسز میں تعلیم مکمل کرتا ہے تو معاشرے اورملک پر اس کے بے شمار مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‘قوم کا ایک باصلاحیت نوجوان معاشرے کا فعال شہری بنتا ہے تو وہ اپنے خاندان کا سہارا بنتا ہے اور جب ایک خاندان غربت کی چکی سے نکلتا ہے تو پورے معاشرے میں خوشحالی پھیلتی ہے۔
فاؤنڈیشن اب تک 6433طلبہ کو20 کروڑ روپے کے اسکالرشپ جاری کرچکی ہے‘ان میں 1125یتیم طلبہ اور 405خصوصی طلبہ(نابینا‘ پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں‘ مالی اعانت حاصل کرنے والوں میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹرز) کے 1484‘ بی ڈی ایس(ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری) کے63‘ فزیوتھراپی (ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے59‘ ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز)کے131‘ ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی)کے115‘ایم ایس سی کے170‘ایم اے کے 146‘ایم کام کے41‘ ایم بی اے کے61‘ایم پی اے کے 05‘ایم فل کے22‘ بی ایس سی انجینئرنگ کے 1553 ‘ بی کام آنرز کے163‘ بی ایس آنرز کے1017‘ بی بی اے کے 69‘اے سی سی اے کے 22‘سی اے کے 04‘بی ایس ایڈ‘بی ایڈ کے 55‘ ایل ایل بی کے19‘بی اے آنرز کے59‘بی اے کے85‘بی ٹیک کے 24‘ ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے167‘ ایف ایس سی کے572‘ایف اے کے112‘آئی کام کے57‘ڈی کام کے05‘آئی سی ایس کے22میٹرک کے 131 طلباو طالبات شامل ہیں۔
میں ہر سال پاکستانیوں سے اس ادارے کو زکوۃ و عطیات دینے کی درخواست کرتاہوں کیونکہ یہ ادارہ روشن‘ باوقار اور پرامن پاکستان کی تعمیر میں مصروف ہے‘کاروان علم فاؤنڈیشن کو405زیر کفالت اور 230زیر غور طلبہ کواسکالرشپ جاری کرنے کے لیے 6کروڑ روپے درکار ہیں‘ ملک اور ملک سے باہر پاکستانیوں کو اللہ تعالیٰ نے اتنا نواز رکھا ہے کہ یہ 6کروڑ روپے ایک فرد بھی دے سکتاہے اورچھ لوگ ایک ایک کروڑ کا عطیہ کرکے بھی!مجھے امید ہے مخیر پاکستانی اس کار خیر میں حسب استطاعت ضرور حصہ لیں گے۔کاروان علم فاؤنڈیشن کو زکوٰۃ و عطیات ملک کے کسی بھی حصے سے میزان بینک کے اکاؤنٹ نمبر0240-0100882859 میںجمع کروائے جاسکتے ہیںجب کہ چیک67کشمیر بلاک‘ علامہ اقبال ٹاؤن لاہورکے پتے پر ارسال کیے جاسکتے ہیں۔رہنمائی کے لیے موبائل نمبر 0345-8461122پر رابطہ ہوسکتاہے ۔مزید معلومات کے لیے ویب سائٹ www.kif.com ملاحظہ کیجیے۔