پیرس ایئرپورٹ پر اُترتے ہی سب سے پہلے جو واقعہ مجھے یاد آیا وہ بہت ہی دلچسپ اور مزیدار تھا ، ہُوا یوںکہ چند برس قبل ہم کسی مشاعراتی سلسلے میں وہاں جہاز تبدیل کرنے کے لیے رُکے تو اتفاق سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھی اسی طرح کے کسی چکر میں وہاں موجود تھی، ہم کھلاڑیوں اور کھلاڑی شاعروں سے مل رہے تھے کہ برادرم خالد احمد نے بے مثال لیگ اسپنر اور ہمارے پرانے کرکٹ کے ساتھی عبدالقادر سے بڑا سنجیدہ سا منہ بنا کر پوچھا کہ آ پ یہاں اکثر آتے جاتے رہتے ہوں گے ! عبدالقادر نے اخلاقاً مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تو خالد احمد نے مزید سنجیدگی سے کہا پھر تو آپ کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ یہاں واش روم کس طرف ہے ؟ ذرا بتایئے گا۔
اب ہوا یوں کہ میں اور عامر جعفری سامان وغیرہ لے کر نکل تو آئے مگر وہاں کوئی عبدالقادر ایسانہیں تھا جس سے ہم یہ پوچھ سکتے کہ ہمارے میزبان سعید سرور چوہدری نے جس جگہ سے باہر نکلنے کے لیے کہا تھا اس کا راستہ کہاں ہے ؟ یہ تو خیر ہوئی کہ تیسری دفعہ ایک ہی لفٹ سے اُترنے چڑھنے کے بعد اچانک ہمیں خود ہی ایک طرف سے آتے ہوئے نظر آگئے۔ پیرس کا ہوائی اڈہ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے اور اس کا رقبہ اتنا ہے کہ اس کے لیے علیحدہ سے ایک گائیڈ بُک کی ضرورت پڑتی ہے ۔ 35 برس پہلے میں نے پیرس کی پہلی یاترا کے موقع پر اس کی سرکلر روڈ کے حوالے سے علامہ صاحب کا یہ شعر درج کیا تھا کہ
رفتم کہ خاراز پاکشم محمل نہاں شداز نظر
یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ راہم دُورشد
تو یوں سمجھیے کہ یہاںبھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا سعید سرور چوہدری اور ہمارے اور اُن کے پرانے مہربان گولڈن ٹریولز واے اشفاق بھائی ایک اور دوست کے ہمراہ ہمیں پیرس کی پرانی اور تنگ گلیوں کے اُس حصے میں لے گئے جہاں بے شمار اور طرح طرح کے ریستوران ساتھ ساتھ آباد تھے اور ہر نسل اور قومیت کے لیے اپنے اپنے خاص کھانوں کا حصول ممکن اور وافر تھا سو ہم نے بھی ایک پاکستانی ریستوران کا انتخاب کیا جس کا مالک اپنے کھانوں سے بھی زیادہ دلچسپ اور مزیدارتھا۔
گزشتہ برس نوجوان شاعروں عزیزی ایاز محمود ایاز اور عاکف غنی نے ہمیں سارا دن پیرس کی سیر کروائی تھی اس بار بھی یہ ذمے داری اُن کی خواہش کے مطابق اُن کے ہی سر رہی۔ ہم نے سب سے پہلے موماخت جانے کا ارادہ کیا جس کے نواح میں ہم نے 1984ء میں جمیل الدین عالی اور پروین شاکر کے ساتھ پیرس کی پہلی کافی پی تھی جس کا تفصیلی ذکر میرے سفر نامے ’’شہر در شہر‘‘ میں موجود ہے اس بار وہاں جانے کی بنیادی وجہ عامر جعفری کا اپنا اسکیچ بنوانے کا شوق تھا جو وہاں پر موجود مصور چند منٹوں میں بلکہ ہر اعتبار سے کھڑے کھڑے بنا دیتے ہیں اور عام طور پر اپنے فن میں بہت ماہر ہوتے ہیں لیکن اس بار یہ تجربہ خاصا حوصلہ شکن رہا کہ متعلقہ اسکیچ جس قدر عامر جعفری کے چہرے سے مشابہ تھا کم و بیش اتنا ہی وہ قریب سے گزرنے والے ہر چوتھے پانچویں آدمی سے مل رہا تھا۔
مطلوبہ کافی ہاؤس میں کافی پینے کے دوران ہی ایاز محمود ایاز نے بتایا کہ وہاں کے پاکستانی سفارت خانے والوں کا پیغام آیا ہے سفیر صاحب سے چار بجے ملاقات طے ہوئی ہے معلوم ہوا کہ اب بھی معین الحق صاحب ہی وہاں سفیر پاکستان ہیں جن سے گزشتہ برس بہت پرتکلف گفتگو رہی تھی اور یہ کہ اگر ہم کچھ دن بعد آتے تو یہ ملاقات ممکن نہ ہوتی کیونکہ اُن کی ٹرانسفر ہوچکی ہے اور اب وہ چارج چھوڑنے ہی والے ہیں۔ اُن سے بات چیت کے دوران برادرم اعزاز چوہدری اور سید ابن عباس کا ذکر خیر بھی رہا کہ یہ دونوں حضرات بہترین سفیر ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کا بھی بہت اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں ۔
سفیر صاحب سے مل کر نکلے تو بیرونی دروازے کے پاس ہی یونس خان مل گئے یونس وہاں ’’آج ‘‘ نیوز چینل کے ساتھ ساتھ کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے لیے بھی کام کرتے ہیں اور چند برس قبل پاکستان کی فٹ بال ٹیم کے رکن بھی رہ چکے ہیں اُن کی سادہ اور محبت بھری طبیعت ہر ملنے والے کو فوراً متوجہ کر لیتی ہے کہ فی زمانہ ایسے پُرخلوص انسان ڈھونڈنے سے بھی کم کم ہی ملتے ہیں جو دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی پر مقدم جانیں اور مہمانوں کی خدمت عبادت سمجھ کر کریں ۔
عامر جعفری یونس خان کی فوٹو گرافرانہ صلاحیتوں کے بہت معترف اور قائل تھے چنانچہ کچھ اُن کی فرمائش اور کچھ یونس خان کے ذاتی شوق کی وجہ سے آیندہ چند گھنٹوں میں ہم نے جس قدر تصویریںبنوائیں ان کا ٹوٹل گزشتہ ایک برس میں بنوائی گئی تمام تصویروں سے کسی صورت کم نہیں تھا۔ہمارا سفارت خانہ محراب آزادی اور مشہور زمانہ سڑک شانزے لیزے سے دو گلیوں کے فاصلے پر ہے چنانچہ کہیں دور جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ سفارت خانے والی محفل میں ایاز محمود ایاز ہمارے ساتھ نہیں تھا کہ اُس نے اُس ادبی تقریب کے انتظامات دیکھنے تھے جو تھی تو ایک کتاب کے تعارف کے حوالے سے مگر اب اُس میں مشاعرہ بھی شامل ہوگیا تھا۔
میری بھتیجی مہرین زاہد اپنے شوہر عزیزی ذاکراور اس کی فیملی کے ساتھ عمرہ کرکے چند ہی گھنٹے پہلے واپس پیرس پہنچی تھی مجھے وہ بچپن ہی سے ’’بڑے پاپا‘‘ کہہ کر بلاتی ہے سو اس کا اصرار تھا کہ سفر کی تھکن اپنی جگہ مگر وہ ملاقات کا یہ موقعے کسی صورت مِس نہیں کرے گی ابھی ہم شانزے لیزے کی رونقوں سے ہی لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ایاز نے فون پر بتایا کہ بہت سے مہمانوں کے ساتھ ساتھ مہرین اور ذاکر بھی جلسہ گاہ میں پہنچ چکے ہیں۔ بہت کوشش کی کہ اُن سے گفتگو کے لیے زیادہ وقت مل سکے مگر تقریب کی رسومات اور موبائل کیمروں کی بھرمار کی وجہ سے بس گزارہ ہی ہوسکا۔ مقامی شاعرہ شاذملک،عاکف غنی صاحبِ کتاب عظمت نقیب اور ایاز محمود ایاز نے بہت اچھے شعر سنائے لیکن زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ اب پوری دنیا میں اُردو مشاعرے ایک زندہ روایت کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں ۔
ایفل ٹاور ایک اعتبار سے پیرس کا دوسرا نام ہے کہ پیرس کا ذکر آتے ہی ذہن میں سب سے پہلے اسی کی شکل اُبھرتی ہے یہ اپنی جگہ پر انجینئرنگ کا ایک شاہکار تو ہے ہی مگر رات کے وقت روشنیوں میں اس کا روپ کچھ اور بھی بڑھ جاتاہے یہاں یونس خان نے ایک خاص جگہ پر کھڑا کرکے میرا دایاں ہاتھ اس طرح سے اُوپر اُٹھانے کو کہا جیسے بزرگ کسی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں اور دھڑا دھڑ کچھ تصویریں بنا ڈالیں اب عملی طور پر صورت حال یہ تھی کہ دیکھنے میں پورے کا پورا ایفل ٹاور میرے ہاتھ کے نیچے کھلونا سا دکھائی دیتا ہے واپسی پر ہم نے رات کے وقت شانزے لیزے کے حسن اور حال ہی میں جلے ہوئے ناٹرے ڈیم گرجے کی بھی سرسری سی زیارت کی کہ بقول جون ایلیا ۔۔۔یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں۔
اگلے روز اشفاق اور یونس کی معیت میں فیری کے ذریعے پیرس کا ایک چکر لگایا گیا اور ایاز سمیت یہ قافلہ یوروسٹار ٹرین کے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوا جس کی آن لائن بکنگ عامر جعفری لاہور ہی سے کروا چکے تھے چند سال قبل جب میں نے اور میری بیگم فردوس نے پہلی بار اس ٹرین کا سفر کیا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے ہم چاند پر سب سے پہلے جانے والے مسافروں میں شریک ہوں مگر اب یہ عام سی بات لگ رہی تھی سوائے اس کے کہ لندن کے لیے ہماری امیگریشن کی تمام کارروائی بھی یہیں ہوگئی ۔
راجہ عبدالقیوم اور عامر جعفری مسلسل ایک دوسرے سے رابطے میں تھے ٹرین عین اپنے مقررہ وقت پر چلی اور پہنچی ۔ راجہ عبدالقیوم کے برادر بزرگ اسٹیشن سے باہر کار میں ہمارے منتظر تھے کہ وہاں پارکنگ ایک مسئلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ ساؤتھ ہال میں سہیل ضرار اور دیگر دوستوں نے ایک تقریبِ ملاقات کا انتظام کر رکھا تھا وہاں سید انورسعید شاہ اور سہیل سلامت سے بھی ملاقات ہوئی معلوم ہوا کہ ساجد خان ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے نہیں آسکا۔ راجہ عبدالقیوم اور اس کی فیملی بے حد محبت کرنے والے لوگ ہیں سو اُن کا گھر بالکل اپنا اپنا سا لگا۔