"گوجری زبان بولنے والے بچوں کی دلچسپیاں”

کھیل ہر بچے کی فطرت ہوتی ہے۔دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔تاریخ انسانی کے ہر دور میں انسان نے اپنی جسمانی نشوونما کے لیے کسی نہ کسی مشق کا سہارا لیا ۔پرانے زمانوں میں تیر اندازی، گھڑسواری اور نیزہ بازی جیسے کھیل شوق سے کھیلے جاتے تھے۔وقت بدلنے کے ساتھ انسانی زندگی کے اطوار بھی بدلتے گئے۔تاہم اس بات سے انکار محال ہے کہ ہر دور اور ہر قوم نے کسی نہ کسی کھیل میں ضرور دلچسپی لی ہے۔دیگر قوموں کی طرح گوجری بولنے والوں میں بھی کئی ایک کھیل بڑے شوق سے کھیلے جاتے ہیں ۔

گوجری ایک شاندار اور متاثرکن تہذیب ہے جن کا دیگر رسومات کی طرح کھیل تماشوں میں بھی ایک انفرادی رنگ جھلکتا ہے۔چونکہ یہ لوگ ہمیشہ سے جفاکش اور اعلیٰ سطح کے جنگجو رہے ہیں اس لیے آج بھی اس قوم کے بچوں میں جنگی اہمیت کے حامل کھیلوں کا رجحان پایا جاتا ہے ۔جموں و کشمیر اور ہزارے وال گوجروں کے بچے رنگارنگ کھیل کھیلتے ہیں جن میں گُلی ڈنڈا، بنٹے(بلوریں) ،رسہ کشی ،نشانے بازی،پتنگ بازی، چور سپاہی (چھپن چھپائی) پٹھو گرم، یسوپنچو، چیجو اور پنج گیٹ وغیرہ بہت شوق سے کھیلے جاتے ہیں ۔

ان کھیل تماشوں میں ہمیشہ گاؤں کے سب بچے اکٹھے کھیلتے ہیں اس طرح ان کھیلوں سے نہ صرف جسمانی ورزش حاصل کرتے ہیں بلکہ ان بچوں میں عزم و ہمت اور باہمی اخوت کو بھی فروغ ملتا ہے۔اور یوں کھیل کھیل میں یہ بچے کچی عمر سے ہی مہر و وفا کے پابند ہو جاتے ہیں ۔بڑے بڑے جھگڑوں کو نظرانداز کرنا اور ذرا ذرا سی رفاقتوں کو عمر بھر نبھانا ان کا وطیرہ ہے۔

گاؤں میں جب فصلیں کٹ جاتیں ہیں تو بچے پتنگ اور کاغذ کی پنکھیاں لے کر کھیتوں میں توڑنے لگتے ہیں جبکہ بچیاں مٹی کے گھروندوں میں برتن سجا کر سارا سارا دن بیٹھی اس خوابوں خیالوں کی جاگیر میں محو رہتی ہیں ۔پہلی برسات کے بعد جب زمین پر ٹھہرے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چلاتے ہیں تو ان کے دمکتے چہروں سے یوں لگتا ہے جیسے قارون کا خزانہ انہیں مل گیا ہو۔اکثر خانہ بدوشوں کے بچے بانسری بڑے شوق اور مہارت سے بجاتے ہیں کہ جب بھی کسی سرسبز و شاداب وادی میں اپنے کمال فن سے ساز چھیڑتے ہیں تو جنگل کے بیل بوٹے اور چرند پرند سکوت اختیار کر لیتے ہیں ۔ہر طرف بس ایک محویت کا عالم ہوتا ہے۔

شام کے قریب جب تمام بچے گھروں کا رخ کرتے ہیں تو ڈھلتا سورج ان کے تھکے مگر پرمسرت چہروں کو دیکھ کر شرما جاتا ہے ۔ادھر مغرب کی اذان ہوئی اور ادھر لسی کے ساگ کے ساتھ مکئی کی روٹی ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے ۔ساگ میں گھی ڈال کے چوری بنا کر ساتھ جب لسی کا گلاس لیتے ہیں تو سارے دن کی تھکن اتر جاتی ہے ۔اب ان بچوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ شروع ہوتا ہے ۔ہر گھر کے بچے گھر میں بڑے بزرگوں کے پاس باادب ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور کوئی ہاتھ پاؤں دبانا شروع کر دیتے ہیں ۔یہ اس بات کا پیغام ہوتا ہے کہ اب انہیں کوہ قاف کی کسی پری یا جنگوں کے کسی سپاہی کی دلفریب کہانی سننی ہے۔اور پھر داستان گوئی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔

گوجری تہذیب میں داستان گوئی کو ہمیشہ سے ایک خاص مقام حاصل ہے ۔بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی داستان گوئی کی اس گھڑی کے لیے بے تاب ہوتے ہیں ۔کہانی سنتے ہوئے جب کوئی دکھ یا خوشی کی گھڑی آتی ہے تو اس دکھ یا انبساط کے عالم میں بوڑھے چہروں کے بدلتے انداز دیکھ کر بچے بھی مچل جاتے ہیں ۔تب تک کہانی ختم نہیں ہوتی جب تک یہ ننھے پھول سو نہیں جاتے ۔اور پھر اگلے دن تک اسی پرکیف حالت میں اک دوسرے کو پریوں کی کہانی اور بادشاہوں کے قصے سناتے ہیں۔

کئی ایک تاریخی کتب کا مطالعہ اور اپنے آس پاس مشاہدہ کرنے کے بعد مجھے یہعلم ہوا کہ گوجری بولنے والے بچے سب سے زیادہ سخت جان و نرم دل، محنتی، ذہین اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ۔جبکہ ان کا سب سے جدا گانہ وصف ان کی سادہ دلی ہے جس سے یہ دشمن کو بھی اپنا بنا لیتے ہیں ۔

بچے ویسے بھی من کے سچے ہوتے ہیں مگر گوجری تہذیب میں بچے سچے ماحول سچی آب و ہوا اور اقدار و روایات میں کچھ اور رنگ بھر دیتے ہیں جو قدرت کے رنگوں سے مل انہیں اور بھی اجلے نکھرے سچے اور کھرے بنادیتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے