رمضان المبارک کے مقدس ایام اپنی رحمتیں بکھیرتے تیزی کے ساتھ گزر رہے ہیں، فرزندان توحید انتہائی اہتمام کے ساتھ سحریاں افطاریاں کررہے ہیں، مساجد میں نمازیوں کی تعداد معمول سے کہیں زیادہ ہے ، یہ ہماری روایت بھی ہے کہ سال میں ایک مہینہ اللہ کیلئے اور گیارہ مہینے اپنے لیے اور ہمارے سیانے بھی ہمیں یہی کہتے تھے ”پتر اک مہینہ رب دا”
روزہ اور قربانی شرعی اعتبار سے کہا جاتاہے یہ خالصتا اللہ کی رضا کیلئے ہیں، بنیادی طور پر یہ انسانی وجود میں برداشت ، ایثار اور احساس پیدا کرتے ہیں اور یہ رب العالمین کا حکم ہے ، خالق کے حکم کی پاسداری و پابندی مخلوق پر فرض ہے مگر دیکھا جائے تو یہ سب کرنے کے بعد بھی اکثریت روزے کے حقیقی ثمرات سے محروم ہی رہتی ہے. روزہ ایثار سکھاتا ہے لیکن ہم دوسرے کیلئے قربانی دینے سے قاصر نظر آتے ہیں ، روزہ برداشت کا درس دیتا ہے تو خبر یہ بھی ہے کہ سحری کے وقت بیٹی نہیں اٹھی تو باپ نے اسے قتل کردیا ، روزہ اگر احساس کی تلقین کرتا ہے تو خبر یہ بھی ہے کہ ایک اسکول ٹیچر ہیڈ مسٹریس کے رویے سے ذہنی دباو کا شکار ہوکر زمین پر گرتی ہیں گہری چوٹ آتی ہے مگر اسے ہسپتال نہیں لے جایا جاتا اور وہ لڑکی وہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتی ہے ، مقتولہ کا غریب باپ سکول انتظامیہ کو معاف کردیتا ہے کیونکہ اس ظلم میں ملوث عناصر طاقت ور ہیں اور مقتولہ کے ورثا کمزور ہیں مقابلے کی سکت نہیں رکھتے.
شہر اقتدار میں ”ریاست مدینہ ثانی” کے ہیڈکواٹر سے چند منٹ کی مسافت پر کمسن بچی فرشتہ جنسی درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے، اس کی بوسیدہ لاش کے سرہانے بے بس بوڑھا باپ بیٹھا ہے، آنسو خشک ہیں ، ریاست خاموش ہے، احتجاج ہوئے تو ذرا حرکت ہوئی لیکن ماضی کی طرح ادارے معمول کی کارروائی کریں گے اور پھر گہرا سکوت ہوگا ، یہ سکوت اس وقت تک قائم رہے گا جب کوئی اور ”فرشتہ” درندے نوچ نہیں لیتے .
یہ چند مثالیں اسی معاشرے کی ہیں ، یہ سب ایک عام آدمی کے ساتھ ہورہا ہے ، متوسط طبقہ کہیں ناں کہیں اپنی عزت نفس کی قربانی دے رہا ہوتا ہے ، کہیں نوع بہ نوع کھانوں کی لطیف خوشبوئیں غریب کی کٹیا میں معصوم بچوں کی محرومی کا مذاق اڑا رہی ہوتی ہیں تو کہیں اوور ایٹنگ سے آسودہ حال پریشان ہورہے ہوتے ہیں. غریب بیوہ خواتین ، مرد کسی صاحب ثروت کے اعلان پر دو کلو چینی ، ایک کلو گھی اور پانچ کلو آٹے کا تھیلہ لمبی لائن میں لگ کر لینے پہنچتے ہیں تو وہاں سیٹھ کا فوٹو سیشن بڑے گھروں میں رہنے والے چھوٹے لوگوں کے ذہنی و فکری افلاس کا تمسخر اڑا رہا ہوتا ہے.
یہ نوحہ ہے ، یہ ماتم ہے ، یہ مقام فکر ہے ان لوگوں کے لئے جو معاشرے کے اہل طاقت اور اہل زر ہیں ، جو کسی بے کس کی مجبوری کا تمسخر اڑاتے ہیں ، یہ سب وہ عوامل ہیں جس نے غریب اور اشرافیہ کے درمیان ایک لمبی خلیج قائم کی ہے، جب غریب کی کٹیا میں کہرام مچتا ہے ، عام آدمی لٹتا ، مرتا ہے تو اشرافیہ کی بلندوبالا فصیلوں سے پرے آواز نہیں پہنچتی ، اگر پہنچے بھی تو تہذیب اور سٹیٹس نظرانداز کرنے پر مجبور کردیتے ہیں .
میرے نقطہ نظر سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے ، ہم سب اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں ، یہاں ہر کمزور اپنے سے طاقت ور کی آزمائش ، مشکل اور کرب کو انجوائے کررہا ہوتا ہے ، درد دل رکھنے والے ضرور ہیں مگر وہ تعداد میں انتہائی کم ہیں جو زبان پہ نہیں لاتا وہ دل ہی دل میں دوسرے کی تکلیف کا لطف ضرور لیتا ہے ، ایسا کیوں ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ معاشرہ بربادی کی اس نہج تک کیسے پہنچ گیا؟ زمانہ تو وہ بھی تھا جب مسلمان زکوۃ اٹھائے پھرتے تھے اور لینے والا کوئی نہیں تھا اور آج دینے والوں کے دل تنگ ہوتے جارہے ہیں. تہذیب و اخلاقیات کے فلسفے جھاڑنے والے دانشوروں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں ، انصاف کے نام پرقائم کچہریوں تک سے احساس کا جذبہ اٹھ گیا ہے.
جب احساس ہی اُٹھ جائے اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہو تو کیا کمزور کیا طاقت ور، سب ایک ہی گنتی میں آجاتے ہیں اور جن معاشروں میں یہ سب رائج ہو جائے تو وہاں بربادی ، پستی، تباہی کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا . ہمارا یہ سفر انتہائی تیزی سے بربادی کی طرف جاری ہے اور خدا کرے کوئی معجزہ ہوجائے ورنہ دودھ، مرچ ، آٹے میں ملاوٹ کرتے حاجی صاحب کی دعائیں تو اب تک بے سود ، بے اثر اور بے رنگ ہی نظر آتی ہیں.