ایرانی سرحدوں پر تناؤ

صرف دو ہفتوں کے دوران وائٹ ہاؤس نے ٹیرف کو توڑ دیا اور چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں شدت دیکھنے کوملی، شمالی کوریا نے مختصر رینج بیلسٹک میزائل ٹیسٹ کا آغاز کیا، امریکہ نے شمالی کوریائی علاقوں کوسیل کر دیا، تہران نے اعلان کیا کہ ایران ایٹمی معاہدوں پر عملدرآمد روک دے گا، چار تیل والے ٹینکروں پر مبینہ طور پر” ہرمز‘‘ توانائی کے ڈپو کے قریب حملہ کیا گیا، یمن کے حامی باغیوں نے ڈرون حملے میں سعودی پائپ لائن پر بڑا حملہ کیا اور عراق نے غیر عراقی اہلکاروں کو عراق سے نکال دیا‘جسے امریکی اہداف کے خلاف ایرانی حملوں کے انٹیلی جنس خطرات کا ردعمل قرار دیا جانے لگا۔

جب چیزیں تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگیں تو یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے اہم کھلاڑیوں کے ارادوںکو روکنے اور جانچنے کے لیے پالیسیاں ترتیب دینا پڑتی ہیں‘اپنی پوزیشن بھی واضح کرنا ہوتی ہے۔ ایران کے لئے وائٹ ہاؤس کی حکمت عملی واضح ہے، ایرانی ایٹمی معاہدے کو مسترد کیا گیا، ایرانی معیشت کو ختم کرنے کے لیے پابندیوں کو بڑھانے اور نافذ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پراقدامات کیے گئے تاکہ ایرانی حکومت مذاکرات کی میز پر تعاون کرتے ہوئے آ بیٹھے ۔ اگر حکومت اندرونی دباؤ کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے ڈٹی رہی تو یقینا امریکہ کے لیے دشواریاں پیدا کرے گی۔

ایران کوسکیورٹی بحران کا سامنا ہے ،مگرایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ گویاپابندیوں کوروکنے میںایران نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ایرانی سلامتی کونسل احتجاجی مظاہروں کو روکنے میں مضبوط ٹریک ریکارڈ رکھتی ہے۔ ایرانی فی الوقت 2020 ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے انتظار میں ہیں ، تاہم ایران پابندیوں کا سامنے کرتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا۔عالمی میڈیا کے مطابق سعودی تیل کے ٹینکروں کا واقعہ اور ڈرون حملہ ایک مضبوط پیغام کو ظاہر کرتا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ سب سے بڑھ کر تیل کی ترسیل کو روکنے کی قیمت میں سامنے آئے گی۔یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حوثیHouthis زیادہ خود کار طریقے سے کام کر رہے ہیں ۔ ایران کے زیادہ تر اعتدال پسند اوراسلامی انقلابی گارڈ کور کے شدت پسند عناصر کے درمیان کمانڈ اور کنٹرول سے منقطع ہیں، اگرچہ ابھی تک وہاں کوئی قابل اعتبار نشانیاں نہیں ہیں۔

اگر ان حملوں میں ایرانی ہاتھ ثابت ہوا تو یہ ایک ناقابل یقین حد تک جرأت مندانہ اقدام قرار دیا جائے گا۔امریکہ کو آگے بڑھنے کا جواز مل جائے گا۔امریکہ تمام ممالک عراق، شام اور یمن میں اپنی پراکسی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکا ہے ۔عسکریت پسند قوت کا تصور پیش کرتے ہوئے یہ اپنی مٹی کی حفاظت کا بہانہ بنا سکتا ہے۔ ایران پراکسی اہداف کے خلاف محدود حملوں کے بارے میں آگاہ ہے ۔امریکی منصوبہ بھی عالمی تجزیہ کاروں کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ ایران میں حساس ایٹمی اور فوجی سائٹس کو وسیع پیمانے پر ہدف بنانے کے لیے کافی تعداد میں فوج کو بھیجنا ہوگاجواتنا بھی آسان نہیںلہٰذا عالمی میڈیا کے مطابق حالیہ ہائپر سکیورٹی اجلاس میں مبینہ طور پر علاقے میں 120,000 فوجی بھیجنے کے لئے ایک منصوبے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دنیا پہلے ہی عراق ، شام اور یمن کی سول وار میں ایرانی پراکسی صلاحیت کا مشاہد ہ کر چکی ہے ۔صرف تصور کریں کہ وہ قوتیں اپنی مٹی کی حفاظت میں کیا کچھ برداشت کریں گی؟مبینہ طورپر یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کو کمزور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ آفس میںہی رہیں، وہ ایرانی تنقید کے لئے بھی اہم اہداف ہیں۔متحدہ عرب امارات خاص طور پر ایران کے ساتھ جنگ میں جانے کی اقتصادی قیمت کو بھرنے کے لیے تیار نہیں۔

ایران کے خلاف جنگ میں کشیدگی کے خاتمے کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ قدرتی طور پر روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت بھی ضروری ہے ۔امریکہ پہلے ہی روس کو متنبہ کر چکا ہے کہ ہمارے راستے سے دور رہولیکن ماسکو کے ساتھ غیر جمہوری رویہ آسان نہیں۔ روس کو ایران کے بحران سے زیادہ فائدہ اٹھانے کاموقع مل جائے گا۔ وائٹ ہاؤس کے ساتھ قریبی کنکشن کے باوجود کریملن اب بھی امریکہ کے پابندیوں کے نیٹ ورک میںجکڑا ہواہے اور امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے ہتھیاروں کی دوڑشامل ہے۔ایران قومی سلامتی کی حفاظت کے طور پر ایرانی فضائی دفاع کو مضبوط کر سکتا ہے۔روس شاید اپنے فوجی عملے اور جوہری تکنیکی ماہرین کو ایرانی سہولت کے لیے بھیج دے۔حملہ روسی ہتھیاروں پر لگی پابندیوں جیسی رکاوٹ کو بھی ختم کرد ے گا۔ امریکی فوجی کارروائی کی لاگت کئی گنابڑھ سکتی ہے اورمجبوراً واشنگٹن کے ساتھ بات چیت ہی کرنا ہو گی۔وینزویلا میں جاری کھیل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جہاں روس نے طاقت کا استعمال کیاوہیں امریکی مداخلت بڑھی۔ امریکی خطرات واضح کیے گئے اور دھمکیاں دی گئیں۔

چین، بھی امریکہ کی بہت زیادہ کشیدگی سے سٹریٹجک فائدہ حاصل کرے گا، لیکن چین کے خالص توانائی کی درآمد کے اقتصادی جھگڑے زیادہ خطرناک ہیں جو شرق اوسط میں توانائی کے ٹرانزٹ کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ امریکہ چین تجارتی مذاکرات میں تناؤ سے وائٹ ہاؤس بیجنگ کو محدود کرنے پر تلا ہوا ہے۔ امریکہ میں داخل ہونے والے چینی سامان پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ایک ہی وقت میں امریکہ نے کئی سیاسی محاذ کھول رکھے ہیں‘یہ ”سیاسی چکن ‘‘کا ایک کھیل ہے،امریکہ سمجھ رہا ہے کہ بیجنگ اقتصادی، غیر ملکی، وسیع تجارتی جنگ کے معاشی درد کو سنبھال نہیں سکے گا۔مگر چین بھی معمولی ملک نہیں،مضبوط معیشت اور عالمی سطح پروزن رکھتا ہے۔ امریکہ صرف ایران کے ساتھ فوجی تنازعات کو تفویض کر ے گا۔ایران کے محاذ میں روس امریکہ اور دیگر قوتیں ملوث ہو سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے