میرا ایک بچپن کا دوست ہے بہت دردمند، خوش اطوار اور بڑے مرتبے پر فائز مگر بے وقوفی کی حد تک بھولا بھالا۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری ہر انسان کے اچھے پہلو تلاش کرکے اس سے محبت کرنا ہے اور پھر اس محبت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس حد تک کہ اسے اس شخص کے چہرے کے گرد ایک نور کا ہالہ نظر آنے لگتا ہے، جس سے اس کے اصلی خدوخال پر اس کی نظر نہیں پڑتی اور یوں بیس پچیس سال بعد اس کی کسی حرکت سے شک کی بنا پر نور کے ہالے سے نظر ذرا ہٹتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس نے تو اپنے چہرے پر ماسک چڑھایا ہوا تھا اور یوں وہ جسے ایک اعلیٰ درجے کا انسان سمجھ کر جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا، وہ تو ایک بہروپیا تھا۔
اس کا اصلی چہرہ دیکھنے کے بعد وہ کئی دن تک شدید ذہنی کرب میں مبتلا رہتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ وہ آئندہ انسانوں کو پہچاننے میں غلطی نہیں کرے گا مگر اس کی سوچ کا یہ عرصہ زیادہ طویل نہیں ہوتا، دو چار مہینے کے بعد وہ سب تلخ واقعات کو بھول جاتا ہے جو اس کی انسان دوستی کے صلے میں اس کے ساتھ پیش آئے تھے، مگر ایک کسک سی اسے بے چین ضرور رکھتی ہے، تاہم یہ عرصہ بھی زیادہ طویل نہیں ثابت ہوتا۔ وہ اس کی معافی تلافی پر سب کچھ بھول بھال کر دوبارہ اس سے گھل مل جاتا ہے، تاہم اس سے محتاط رہنے لگتا ہے۔
لیکن ہوتا یوں ہے کہ اس دوران کچھ اور معصوم صورت لوگ اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے تعلقات بڑھانے لگتے ہیں۔ وہ ایک بار پھر دھوکہ کھا جاتا ہے اور انہیں اپنے حلقہ احباب میں شامل کرکے ان کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیتا ہے۔ واضح رہے میرا یہ دوست خدائی خدمتگار قسم کا شخص ہے، ہر کسی کے کام کے لئے دوڑ پڑتا اور اس ضمن میں تمام حدیں پھلانگ دیتا ہے اور پھر وہی وقت آن پہنچتا ہے جب اسے ان کی طرف سے دکھ پہنچتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض اوقات بے حد صبر اور ضبط رکھنے والے اس شخص کا دل بھر آتا ہے اور بعض اوقات اس کے آنسو اس کی پلکوں کی دہلیز پر بھی ظاہر ہو جاتے ہیں، مگر بے وقوفی کی حد تک میرا یہ سادہ لوح اور بھولا دوست اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کسی دوسرے کو نہیں خود کو ٹھہراتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اگر خدا نے مجھے دردمندی کی دولت عطا کی ہے اور میں لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہوں تو اس میں میرا نہ کوئی کمال ہے اور نہ اس دردمندی سے چھٹکارا پانا میرے بس میں ہے کہ یہ میری فطرت کا حصہ ہے جو خدا کی طرف سے ودیعت ہے۔ اسی طرح جو لوگ بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کا عمل بھی ان کی فطرت کے مطابق ہے چنانچہ انہیں قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، البتہ ان سے دور رہا جا سکتا ہے لیکن مجھ سے اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو میں کیا کروں، مجھے اللہ نے بنایا ہی ایسا ہے۔
میرا یہ دوست دوسری بات یہ کہتا ہے اور اس کا تعلق اس کے دوستوں کے ایک مختلف طبقے سے ہے جو پسے ہوئے لوگ ہیں اور ان کی طرف سے تکلیف کا ذمہ دار بھی وہ ان کو نہیں صدیوں کے غیر انسانی نظام کو ٹھہراتا ہے جس نے پسے ہوئے طبقے کو عزتِ نفس سے محروم کر دیا ہے۔ اس طبقے کو کرسی کے بجائے فرش پر بٹھایا جاتا ہے، انہیں ننگی گالیاں دی جاتی ہیں اور یہ بہت فخر سے اپنے باس کی اس ’’بے تکلفی‘‘ کا ذکر کرتے ہیں جو اس نے گندی گالیوں کی صورت میں ان سے روا رکھی ہوتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی انسان دوست انہیں انسان سمجھ کر ان سے انسانوں جیسا سلوک کرتا ہے، انہیں عزت دیتا ہے، اپنے برابر میں بٹھاتا ہے، اپنا مقام اور مرتبہ بھول کر ان سے بے تکلف ہوتا ہے تو ان کی صدیوں کی ذلت اس صورتحال کو قبول نہیں کر پاتی اور وہ اس رویے کو منفی معنوں میں لیتے ہیں۔
آخر میں اپنے اس دوست کی ایک بات جس کا میرے پاس واقعی کوئی جواب نہیں، میں جب اس کے سامنے اس کی یہ ساری حماقتیں دہراتا ہوں تو وہ ان کے جواب میں صرف ایک بات کہتا ہے کہ تم پچاس سال سے میرے دوست ہو مجھے بتائو کہ ان پچاس برسوں میں اپنی حماقتوں کی وجہ سے میں نے کچھ کھویا ہے؟ یا ہر لمحہ میرا یہ رویہ مجھے آگے ہی آگے لے کر گیا ہے، چنانچہ وہ صرف ایک بات کہتا ہے اور وہ یہ کہ پھر جو میں کرتا ہوں وہ مجھے کرنے دو اور جو دوسرے کرتے ہیں وہ انہیں کرنے دو اور میں اس کے جواب میں خاموشی اختیار کر لیتا ہوں کیونکہ وہ صحیح کہتا ہے۔