معصوم بچوں کو دیکھ کے گمان گزرتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ ہر طرح کا ظلم و ستم دیکھ کے ہے تباہی و بربادی کی داستان سن کے ایک نظر بچوں پہ پڑے تو ذہن کچھ ہی دیر کے لیے ہی سہی پرسکون ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک تواتر ہے ان معصوم کلیوں پہ ظلم کا۔ ہوس کی شکل بھیانک ترین روپ میں ان بچوں کا بچپنا اور معصومیت چھین رہی ہے۔ بچے کی محبت بہت انوکھی محبت ہے۔ بچے کی تکلیف سے دل پہ چوٹ پڑتی ہے۔اس کے آنسو دل پہ گرتے ہیں۔ انسان اپنی تکلیف برداشت کر سکتا ہے لیکن اولاد کا دکھ اور اذیت ناقابل برداشت ہے ۔
بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ لیکن ہم کس سماج میں زندہ ہیں یہاں ہمارے بچے اپنی گلی ،محلے،سکول ،مسجد،مدرسے،شاپنگ مال،پارک حتی کہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ درندے رشتوں ،اعتماد کے تعلق، دوستی کے نقاب پہنے گھات میں بیٹھے ہیں۔ ہم کس کس کو روئیں۔ ایک واقعہ ہوتا ہے شور کرتے ہیں احتجاج ہوتے ہیں اور پھر بات دم توڑ جاتی ہے۔ پھر کچھ دن کے بعد کوئی دوسرا واقعہ ۔۔اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔لڑکا ہو یالڑکی کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ۔ واقعات بھی صرف وہی رپورٹ ہوتے ہیں جو موقع پہ پکڑے جائیں یا پھر ویکٹم اپنی جان سے جائے اس کے علاوہ جو لگاتار جنسی تشدد مختلف صورتوں میں معصوم بچوں پہ ہوتا ہے اس کی طرف سے ماں باپ سمیت ہر کوئی نیند کی گولی کھا کے سو رہا ہے۔
کبھی تصور کیا ہے کہ ایک چھ سات سالہ بچی یا بچے کے لیے یہ کتنی اذیت ناک صورت حال ہو سکتی ہے۔اس کے کرب و تکلیف کو لفظوں میں بیان کرنا تو دور کی بات سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ایک دس سالہ بچی کے ساتھ زیادتی پھر اس کو ہاتھ پاوں توڑ کے قتل کرنے اور جلانے کا عمل کس قدر سفاکانہ ہے تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ سوچتی ہوں یہ سماج تو اندھا بہرا گونگا ہے لیکن خدا کہاں ہے؟ وہ دیکھتا نہیں ہو گا اس بے بسی کو اس معصومیت کو،اس بے گناہ فرشتے کو جو یہ سب سہتا ہے اور اس کی چیخ سننے والا بھی کوئی نہیں ہوتا وہ کہاں ہوتا ہے جب یہ ظلم اس کے سامنے ہوتا ہے ۔کیوں اب سرخ اندھیاں نہیں آتیں،کیوں اس سماج پہ پتھر نہیں برستے جو اتنا بے حس ہے۔کیوں آسمان لہو رنگ نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں خدا زمیں سے گیا نہیں ہے لیکن خدا زمیں پہ کہاں ہے جو یہ چیخیں سنے جو اپنی طاقت سے ان درندوں کو الٹ دے ۔ جو معصوم کلیوں کی معصومت کو کچلنے سے بچا لے ۔ اب حوصلہ نہیں ہوتا کہ چیخیں چلائیں،گھڑی دو گھڑی کو آن لائن ہو تکلیف سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کریں اور نیند کی گولی کھا کے سو جائیں۔
خواہ بچوں پہ جنسی تشدد ہی نفسیاتی وجوہات ڈھونڈیں۔اسے انسسٹ قرار دیں،والدین کی غفلت سمجھیں،سیکس ایجوکیشن کی کمی کہیں،سماج کی گھٹن کے کھاتے میں ڈالیں یا تعلیمی و تربیتی نظام کو مورد الزام ٹھہرائیں ایک بات مان لیں۔ ہم ایک قوم کی طرح اپنے بچوں کو اون نہیں کرتے ۔ہم میں اپنایت کا احساس نہیں ہے ۔ہم میں سے کوئی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا کہ وہ وہ سب بچوں کو اپنا بچہ سمجھے ان پہ نظر رکھے۔کہیں کوئی مشکوک سرگرمی نظر آئے تو آگے بڑھ کے پوچھے کہ کیا مسئلہ ہے کیا ہو رہا ہے۔ ہم تو اتنے بے حس ہیں کہ کوئی حادثہ دیکھ کے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کون اس میں الجھے۔
یہاں قانون کی ذمہ داری بھی بہت اہم ہے۔ ایسے واقعات میں پولیس کی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ واقعے میں ایس ایچ او جو تھانے میں اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول تھا فرشتہ کے بھائی کو رپورٹ لکھوانے آنے پہ کہا کہ وہ خود کسی کے ساتھ گئی ہوگی۔ یہ سماج کا وہ مکروہ چہرہ ہے جو اپنے فرض سے غفلت اور ننگی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جس سے نظر آتا ہے کہ بے بس ،لا چار اور غریب ہونا کتنا بڑا جرم ہے کہ یہ عزت نفس تک کو چھین لیتا ہے ۔ سٹیٹس اور پیسے کی طاقت ہی اس سماج میں مقام دلوا سکتی ہے۔
کتنے نوحے لکھیں،کس کس ناانصافی اور ظلم کو روئیں۔ وہ کہاں ریت میں سر دبا لیتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایسے مجرم کو کوئی شدید سزا نہیں دینا چاہیے کہ وہ معاشرے کے لیے عبرت کا باعث بنے بلکہ پورے سماج کو بتدریج سدھارنا چاہیے۔میرا سوال ہے کہ کسی بھی ایسے واقعے کے بعد کوئی تحریک ،کوئی ٹریننگ ،کوئی ایسا پروجیکٹ،کوئی بھی فلاحی پروگرام وجود میں کیوں نہیں آتا جو ان لوگوں کے دعوی کو سچا ثابت کر سکے کہ سماج کی بہتری اور تربیت کے لیے کوشش ہورہی ہے۔ایک کے بعد ایک دلخراش واقعہ اور اس کے بعد سکوت۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ ویکٹیم کی ذہنی ،جذباتی اور جسمانی بحالی کس قدر تکلیف دہ اور طویل المدت عمل ہے ۔ کہ بعض اوقات اس سے نکلنے میں پوری زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ آپ کس سماج کا حصہ ہیں اسے سمجھیں ۔یہ دوہرے معیار ،یہ خیال کہ آپ اس سب سے محفوظ رہیں گے ایک یو ٹوپیا ہے اس سے نکلیں۔
اس تواتر کے عمل نے کسی خوف کی فضا پیدا کر دی ہے کہ دل لرزتا ہے ۔ بچوں کے لیے وہم ایسے دل میں جگڑ چکا ہے کہ ہر دم یہی فکر کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ایسے سماج میں جہاں بچوں کے چہرے پہ مسکراہٹ کی جگہ خوف ہو۔ ،جہاں والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد لگاتار فکر میں رہیں۔ جہاں تفریحی مقامات ویران ہوں وہ معاشرہ مردہ سماج کہلاتا ہے اس سماج سے تعفن اٹھتا ہے ۔گدھ جنم لیتے ہیں اور ویرانیاں بسیرا کرتی ہیں۔