بیانیہ

انسان اپنے گردو پیش سے کئی چیزیں مستعار لیتا ہے جو معاشرہ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی چیزیں وہ اپنے تاریخی اور تہذیبی شعور کی بدولت سیکھتا ہے اور کئی چیزیں اپنے عہد میں موجودہ دوسرے معاشروں کی دیکھا دیکھی اس کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں جس پہلو کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے وہ علم و فکر ہے۔ علمی وفکری تدبر کے بنا یہ سارا عمل مکمل تو ہو سکتا ہے لیکن حسنِ تناسب سے محروم رہتا ہے۔ اسے شومئی قسمت کہیے یا جہالت کہ جہاں اس دنیا میں کئی قومیں علمی و فکری تدبر کی بدولت اپنے معاشروں کو نئی بنیادوں پہ استوار کر چکی ہیں وہیں کئی قومیں ایسی ہیں جو ہنوز لفظ قوم سے نابلد ہیں۔

معاشرتی تشکیل تو دور کی بات۔ اور ایسی قوموں میں ہمارا شمار بھی اولین فہرست میں ہوتا ہے۔ جب کسی معاشرہ کے افراد کا ذہن اس سوچ کے تحت تیار کیا جائے کہ وہی معاشرہ اور اس کے لوگ افضل ہیں اور دوسروں کی کامیابی و کامرانی فقط ایک سراب ہے تو کون کم بخت ایسے میں اپنے جسم و ذہن کو مشقت کی اذیت دینا پسند کرے گا۔ رہی سہی کسر اس نظام سے جڑا وہ حصہ پوری کر دیتاہے جو وقت اور ضرورت کے مطابق معاشرہ کے دوست اور دشمن کی تعریف متعین کرتا ہے۔ یہ دوست دشمن کی تعریف متعین کرنا بھی ایک مکمل سائنس ہے۔ اس کی ایک مثال ہم ماضی قریب کے واقعات کی صورت میں دیکھ لیتے ہیں۔

جب آسٹریلوی وزیراعظم نے دہشت گردی کے شکار مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تو اقوامِ عالم اور بالخصوص ہمارے معاشرے نے اُسے بے حد سراہا۔ ایک صاحب تو اسے دعوتِ اسلام دینے پہنچ گئے اور اپنی بے خوابی کا نوحہ بھی کہہ ڈالا۔ لیکن ٹھہریے! ذرا سوچیے کہ ایسا ہمارے ہاں بھی ہو چکا ہے۔ جب یہاں ہمارے سیاستدانوں نے عیسائی، ہندو، احمدی یا کسی اور اقلیتی برادری سے ایسے ہی کسی موقع پہ اظہار یکجہتی کیا تو اس قوم نے انھیں اسلام دشمن اور ملک دشمن قرار دینے میں ایک پل کی دیر نہ کی۔ یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جس میں بیانیہ بنانے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر عام کریں۔ بیانیہ کی تشکیل میں چنیدہ خواص شامل ہیں لیکن بیانیہ پہ ایمان لانے والوں میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی عوام شامل ہے۔

اس معاشرہ کی حالت اس پیر کی طرح ہے جو اپنے مریدوں میں بیٹھا ان دیکھی دنیا کے فسانے بیان کر رہا تھا کہ ایسے میں اس کی ریح خارج ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ پیر کو پریشانی لاحق ہوتی، خلیفہ نے باآواز بلند کہا یہ بھی حق ہے اور مریدین نے حق حق کا ورد شروع کر دیا۔ ایک مرید کا ہاتھ نادانستاً ناک تک چلا گیا تو اسے بے ادب اور گستاخ قرار دے کر خارج از محفل کر دیا گیا۔ سو ہمارے ہاں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ یہ معاشرہ پیر کے حجرے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ یہاں کا حق اور ناحق باہر کے حق اور ناحق سے مختلف ہے اور سوال اٹھانے والا گستاخ۔ اور گستاخ کی سزا ہمیشہ سر قلم ہی ٹھہرتا ہے۔ اب تو سر قلم کرنے کے بھی کئی طریقہ کار ہیں۔ اگلے وقتوں میں تو جان سے مارنا ہی کافی سمجھا جاتا تھا جبکہ آج کل تو سماجی و معاشرتی ساکھ کو برباد کر کے ادھ موا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل پیر صاحب کی دلی تسکین کا باعث بنتا ہے۔

پیر صاحب چونکہ بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں اس لیے بیرونی دنیا میں موجود دوسرے آستانے بھی ان سے خائف رہتے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ایسے میں ان سازشی لوگوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ پیر صاحب کے ان مریدین سے رابطے قائم کیے جائیں جو پیر صاحب کی رعونت کا شکار ہوئے ہیں۔ مثلا پیر صاحب کا ایک مرید جان نکالنے میں مہارت رکھتا تھا اور چھوٹا عزرائیل کی عرفیت سے مشہور تھا۔ لیکن جب پیر صاحب نے اسے ہی ٹھکانے لگانے کا بندوبست کر دیا تو اُس نے پیر صاحب کے خلاف آواز بلند کر دی۔ چھوٹے عزرائیل کی بغاوت کی خبر عام ہوئی تو کونے کھدروں سے کئی ایسے مریدین بھی نکل آئے جو پیر کی رعونت کا شکار ہو کر گوشہ نشین ہو چکے تھے۔ ایک دم اتنے رازداروں کا خلاف ہو جانا پیر کے لیے بدہضمی کا باعث بن گیا۔ اس کی گدی پہ اثر تو پڑنا تھا۔ سو کثیر تعداد میں فتاوی جاری ہوئے۔

گستاخی و غداری کے ٹھپے لگائے گئے۔ لیکن پیر صاحب کو علم نہ تھا کہ خود ان کے حرم سے کئی مستورات بھی باغیوں کے ساتھ آ ملی ہیں۔ اب پیر صاحب کو ہر دو محاذ پہ پریشانی ہے۔ بچاؤ کا صرف ایک ہی راستہ بچا اور پیر صاحب نے وہی اپنایا یعنی بیانیے کی تبدیلی۔ اب چھوتا عزرائیل اور اس کے ہم نوا صرف باغی نہیں بلکہ دشمنوں کے آلہ کار بھی قرار دیے جانے لگے اور ان سے نفرت کو پیر صاحب اور حجرے کی محبت سے مشروط کر دیا گیا۔ اب جو شخص پیر صاحب اور حجرے سے محبت رکھتا ہو گا اسے اس محبت کے ثبوت کے طور باغیوں سے نفرت کا کھلم کھلا اظہار کرنا ہو گا۔ اور جو اس اظہار سے کترانے کی کوشش کرے گا اس پہ بھی غداری و گستاخی کی حد لگائی جائے گی۔ کیونکہ حجرے اور پیرصاحب کی توقیر کا سوال ہے سو تعلیم و تربیت کا کام پیر صاحب نے آئندہ پہ اٹھا رکھا ہے اور فی الوقت باغیوں کی سرکوبی ہی سرِ فہرست ہدف ہے۔

بات معاشرہ سے شروع ہوئی اور پیر صاحب کے حجرے میں چلی گئی۔ ویسے ہمارے معاشرے اور پیر صاحب کے حجرے کا ماحول کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسی ہی روش چل نکلی ہے۔ بیانیہ بنانے والے چاہتے ہیں کہ جو وہ کہیں وہی حق ٹھہرے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بیانیہ بنایا گیا کہ ملک کو خطرہ ہے سو اس خطرے کو دیوار پار ہی نبٹانا ہے۔ خطرہ نبٹا دیا گیا اور پھر ایک وقت آیا کہ کہا گیا کہ خطرہ دیوار پار کر آیا ہے اور گلی گلی میں پھیل چکا ہے سو اس کا متانا ضروری ہے۔ معاشرہ کے افراد اتنے سادہ لوح ہیں کہ جیسا پہلے بیانیہ پہ یقین کیااس سے زیادہ خلو ص کے ساتھ نئے بیانیے کو بھی اپنا لیا اور نئے بیانیے کے متاثرین نے جب آواز اٹھائی تو ایک اور بیانیہ سامنے آیا جس پہ ایک بار پھر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا گیا۔

اس ملک کی فوج نے عوام کے تحفظ کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ فوج کے سات آٹھ ہزار جوانوں کی قربانی کم نہیں ہے۔ لیکن کیا ایک سوال پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے۔ وہ جو فوج کی قربانیوں سے دس گنا زائد یعنی ستر اسی ہزار سویلین مارے گئے ان کی ذمہ داری کس کے سر پہ ڈالی جائے گی؟؟؟ اور ذمہ داروں سے سوال کون کرے گا؟؟ یہاں تو بیانیہ بنتا اور تسلیم کروایا جاتا ہے۔ سوال کا جواب کیوں نہیں دیا جاتا؟؟؟ شاید اس لیے کہ ہم بڑے لوگ ہیں ہمارا کہا سچ ہے دوسروں کا کہا جھوٹ۔ مسولینی اور ہٹلر نے بالترتیب اٹلی اور جرمنی کے عوام کو بھی یہی ڈھکوسلا دے رکھاتھا کہ آپ دنیا کی سب سے عظیم قوم ہیں اور ہمارا بیانیہ آپ کی سرخروی کی ضمانت ہے۔ مسولینی کی لاش شہر کے چوک میں الٹی لٹکائی گئی اور ہٹلر کی لاش بھی نہ ملی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے