شرق و غرب میں اضطراب ہے۔ آج عالمِ انسانیت کن راستوں پر گامزن ہے؟
بی جے پی کی کامیابی نے طالب علمانہ اشتیاق کو مہمیز دے دی، ورنہ یہ سلسلہ واقعات کی محض ایک کڑی ہے۔ برطانیہ جیسی جمہوریت کی ماں، ان دنوں پراگندگیٔ فکر کا مرکز ہے۔ ترکی میں طیب اردوان کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں اضطراب کی اٹھتی لہروں کی خبر ہم تک پہنچ نہیں رہی‘ یا پھر مصلحتوں نے زبان پر پہرہ بٹھا رکھا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ مذہب، جمہوریت، روشن خیالی، قدامت پرستی… کوئی اس وقت ابن آدم کا ہاتھ نہیں تھام رہا۔کیا کسی کے پاس اُس کے غموں کا علاج نہیں؟
پاکستان کیوں بنا؟ یہ ایک طویل داستان ہے۔ معاصر تبدیلیوں کو سامنے رکھیے تو یہ حوالہ کافی ہے کہ 1937ء میں کانگرس کی جو وزارتیں قائم ہوئیں، انہوں نے مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ درس گاہوں میں طالب علموں کو پابند کیا گیا کہ گاندھی جی کی مورتی کو سلام کریں اور بندے ماترم گائیں۔ کسی قابلِ ذکر جمعیت میں بقا کا خوف پیدا ہو جائے تو جبلی تقاضے کے تحت، وہ اپنی سلامتی کے لیے نئے راستے تلاش کرتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے ‘پاکستان‘ ایک نیا راستہ ہی نہیں، منزل بن گیا۔
انسان کی جبلت آج بھی وہی ہے۔ بھارت کے انتخابات میں مسلمان جس طرح سیاسی منظر نامے سے لا تعلق ہوئے ہیں، اس کا ناگزیر نتیجہ بقا کا خوف ہے۔ یہ خوف ایک بار پھر ظہور کرے گا۔ آج اس کی صورت کیا ہو گی، فی الوقت اس کا تعین کرنا مشکل ہے، مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ مسلمان اب اطمینان کے ساتھ رہ سکیں۔ بی جے پی یا کانگرس نے اگر مسلمانوں کو قومی منظر نامے کا حصہ نہ بنایا تو یہ بھارت کی یک جہتی کے لیے برا شگون ہو گا۔ ایک سیاسی جماعت کی فیصلہ کن کامیابی جو بظاہر سیاسی استحکام کی علامت ہے، ایک متنوع ثقافتی پس منظر کے ملک میں نئے اضطراب کا باعث بن سکتی ہے۔
طیب اردوان بھی سلطان بننے چلے تھے۔ صدارتی نظام لائے‘ جیسے ہمیشہ انہوں نے ہی برسرِ اقتدار رہنا ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات نے منظر تبدیل کر دیا۔ اس پر مستزاد معاشی بحران۔ لیرا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد میں ہے لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ استنبول کے میئر کے انتخاب کو ایک علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جس طرح اپوزیشن کے جیتے ہوئے امیدوار کو محروم کیا، اس پر اضطراب ہے۔ اگر نئے انتخابات شفاف نہ ہوئے تو کہا جاتا ہے کہ یہ نئے صدارتی انتخابات کے لیے ایک تحریک کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی۔ امریکہ مزید آٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ بیچ رہا ہے۔ اپنی فوج بھی لا چکا۔ پاکستان کو ملنے والی اقتصادی رعایتوں کو محض اسلامی اخوت کا مظہر سمجھنا سادگی ہے۔ گویا آگ کے شعلوں کی حدت ہم تک بھی پہنچے گی۔ افغانستان میں امن کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ ملک ہم سے کچھ اس طرح وابستہ ہو گیا ہے کہ اس کے امن اور فساد سے بچنا، ہمارے لیے ممکن ہی نہیں۔
اس فضا میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ عالمِ انسانیت کا سفر کس سمت میں ہے؟ بظاہر خیر کی کوئی خبر نہیں۔ جمہوریت، مذہب، عالمگیریت کسی کے پاس اس فساد کا کوئی حل نہیں‘ جو کم و بیش ہر دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ دانش کا سفر صرف واقعات کی تفہیم تک محدود ہے۔ کہیں افکارِ تازہ کی نمود نہیں۔ نہ مشرق میں نہ مغرب میں۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ دنیا کو اس فساد سے کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟
انیسویں صدی تو خیر تھی ہی ‘نظریات کی دنیا‘ (Age of Ideology)، بیسویں صدی بھی اس اعتبار سے اتنے بانجھ پن کا شکار نہیں تھی۔ تب مسلم دنیا میں بھی فکر و نظر کے کئی چراغ روشن تھے؛ تاہم اس روشنی کا ہدف مسلم دنیا کے اندھیروں کو دور کرنا تھا۔ جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ سے لے کر مولانا مودودی اور روح اللہ خمینی تک، جو فکری کام سامنے آیا، اس کا بنیادی تعلق مسلم دنیا یا اسلامی فکر کے احیا سے تھا۔ عالمِ انسانیت کو دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔
اکیسویں صدی اگرچہ عالمگیریت کا علم اٹھائے ہوئے ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اہلِ دانش کے ہاں عالمگیر فکر و فلسفہ کی بات نہیں ہو رہی۔ اگر کہیں یہ موضوعات زیرِ بحث ہیں بھی تو ان کا محرک مغرب کی عالمی برتری کا سوال ہے۔ ہنٹنگٹن کے خیالات کا بہت شہرہ رہا‘ لیکن ان کا تجزیہ بھی اسی سوال کے گرد گھومتا ہے کہ مغرب کو درپیش عالمگیر چیلنج کیا ہیں اور ان کا سامنا کیسے کیا جا سکتا ہے؟ فوکویاما نے کسی حد تک فکری عمل کو عالمگیر بنانے کی کوشش کی مگر عالمی واقعات نے ان کے نتائجِ فکر کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں انہیں بھی اپنی بات سے رجوع کرنا پڑا۔
مغرب میں خالص تہذیبی سطح پر جو علمی کام ہوئے، میرے محدود علم کی حد تک، اس میں بھی مقامی رنگ غالب ہے۔ مثال کے طور پر نوح حریری کی کتابیں ہیں۔ انہوں نے ‘مستقبل کی تاریخ‘ لکھی لیکن اس کا تمام تر سیاق و سباق مغرب کا معاشرہ ہے۔ وہ مستقبل میں سامنے آنے والے جن مسائل کا ذکر کرتے ہیں اور جس منظر کے ابھرنے کی پیش گوئی کرتے ہیں، ان میں ترقی پذیر معاشرے ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتے۔ جیسے یہ دنیا قابلِ ذکر نہیں ہے یا آنے والے دنوں میں، انتخاب کے فطری تصور(Theory of Natural Selection) کے تحت مٹ جانے والی ہے۔
بیسویں صدی میں مغرب نے گمان کیا تھا کہ اس نے سرمایہ دارانہ معیشت، سیکولرازم، ثقافتی تکثیریت اور جمہوریت کی صورت میں انسانی مسائل کا ایسا حل دریافت کر لیا ہے کہ اب ا س باب میں مزید پیش قدمی کی ضرورت نہیں۔ یہ سارے تصورات اب چیلنج ہونے لگے ہیں۔ دوسری طرف چین میں اگرچہ جمہوریت نہیں ہے لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک نیا ماڈل سامنے آیا ہے؛ تاہم بنیادی حقوق اور انسانی آزادی کا سوال بدستور اس نظام کی کامیابی کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ مسلم دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی فکری پراگندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو اس کے داخلی تضادات مزید نمایاں ہو جاتے ہیں۔
اس کے باوصف امید کے چراغ بھی روشن ہیں۔ بھارت کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کو بھی لوگ ایک عالمی قوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر انسانیت کا عمومی سفر اضطراب کی طرف ہے تو یہ پیش رفت کس کی علامت ہیں؟ کیا انسانی معاشرہ اسی طرح تضادات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے؟ کیا یہ کشمکش اس کی تعمیر میں مضمر ہے؟ کیا تیسری دنیا کو ایک نئے فکری ڈھانچے کی ضرورت ہے جو مقامی ہو؟ کیا سماجی علوم کی تحقیق میں مغربی تناظر کا غلبہ، ان علوم کو ہمارے لیے قابلِ تقلید بنا سکتا ہے؟ متنوع تہذیبی و ثقافتی شناختوں کی موجو دگی میں، عالمگیر معاشرے کا قیام کیا ایک واہمہ ہے؟
بیسویں صدی، اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہے کہ اُس وقت مسائل تھے تو ان کا حل پیش کرنے والے بھی تھے۔ کچھ لوگ تیسری دنیا کو ایک وحدت کے طور پر دیکھ رہے تھے اور اس کو درپیش مسائل کا حل تجویز کر رہے تھے۔کوئی ایفروایشیا کے تناظر میں سوچ رہا تھا۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کی بحثیں تھیں۔ اسلامی نظامِ زندگی کا تصور بھی ہمارے سامنے تھا۔ میرے لیے تشویش کی بات ہے کہ مجھے اپنے ارد گرد ان سوالات پر بحث ہوتی سنائی نہیں دے رہی۔ پوسٹ ماڈرن ازم کا دور، کیا فکری پراگندگی کا دور ہے؟
میری ابتدائی دلچسپی اپنے معاشرے سے ہے۔ کیا یہ سوالات ہمارے علمی و فکری ڈسکورس کا حصہ ہیں؟ کیا سماجی سطح پر ہم کسی ذہنی مشق کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ میرا احساس ہے کہ ہماری سیاسی، مذہبی اور فکری قیادت نے سنجیدہ غور و فکر کے اس عمل کو آگے نہیں بڑھایا، بیسویں صدی میں جو ایک توانا روایت کے طور پر موجود تھی۔ ہم اس روایت کو زندہ کریں گے تو ہی ان سوالات کے جواب مل سکیں گے