بھارتی الیکشن اور پاک بھارت تعلقات

23 مئی 2019ء کو بھارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے لیڈر نریندر مودی زبردست فتح سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ بی جے پی کو اکیلے ہی لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل ہو گئی ہے اور اگر ہم اس کے اتحادیوں کی نشستیں بھی شامل کر لیں تو سیٹوں کی تعداد 340 بن جاتی ہے۔ اس کامیابی سے نریندر مودی کو بہت اعتماد ملے گا اور اب توقع ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور حکومتی امور کے ضمن میں زیادہ واضح موقف اپنائیں گے۔

بی جے پی کی نشستوں اور ووٹ بینک میں اضافے سے اسے دو اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ بی جے پی جسے عموماً شمالی اور شمال مغربی ریاستوں کی جماعت سمجھا جاتا ہے‘ بڑے موثر انداز میں مشرقی ریاستوں خصوصاً مغربی بنگال میں بھی اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ بعض جنوبی اور کچھ دیگر ریاستوں میں اسے محدود یا بالکل ہی نہ ہونے کے برابر کامیابی ملی ہے۔ ان ریاستوں میں مقامی اور ریاستی سطح کی جماعتوںکو بالا دستی حاصل ہے۔

نریندر مودی اس انتخابی مینڈیٹ کی توثیق ہونے کے بعد اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اور داخلی پالیسیوں کے حوالے سے کھل کر کام کر سکیں گے۔ مگر اس کا نقصان یہ ہو گا کہ وہ ایک مطلق العنان حکمران بن سکتے ہیں‘ اور بھارت ایک ایسی غیر لبرل جمہوریت بن سکتا ہے جس پر ہندو ثقافتی ورثے کی واضح چھاپ ہو گی۔ یہی امر جمہوریت کی اہم کمزوری بن کر سامنے آئے گا۔ الیکشن اور اکثریتی جماعت کو اقتدار دینے کے جمہوری اصول کو جمہوریت کو کمزور کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

نریندر مودی کی نئی حکومت کے ابتدائی بیانات میں امن، نیک نیتی اور پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا اعادہ کیا جائے گا۔ امید ہے کہ بھارت پاکستانی طیاروں اور مشرقی سمت سے پاکستان آنے والی پروازوں کے لئے اپنی فضائی حدود کھول دے گا۔ پاکستان پہلے ہی 22 مئی کو بھارت کے لئے اپنی فضائی حدود کھولنے کا اعلان کر چکا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹس پر بھارتی ویزا کے اجرا کا عمل بھی آسان کیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم جہاں تک پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کا باعث بننے والے ٹھوس امور کا تعلق ہے‘ جن میں کشمیر، سیاچن گلیشیئر، پانی کا قضیہ، دہشت گردی اور پاکستان کو عالمی سطح پر ایک دہشت گرد ملک قرار دلوانے کی بھارتی کوششیں شامل ہیں تو اس ضمن میں انڈیا اپنی سابقہ سخت گیر پالیسی پر عمل پیرا رہے گا اور اس کے رویے میں کوئی لچک نظر نہیں آئے گی۔
اس تجزیے کی بنیاد انتخابی مہم کی نوعیت اور ان سخت گیر ہندو گروپوں کے رویے پر استوار ہے جو بی جے پی کو آئیڈیالوجی اور افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ اس انتخابی مہم کے دوران دو ایشو بہت کھل کر سامنے آئے جو خارجہ پالیسی کے حوالے سے مضمرات کے حامل ہیں‘ یعنی قومی سلامتی اور عالمی سطح پر بھارت کا کردار۔

بی جے پی نے شمالی ریاستوں میں اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے بارے میں زیادہ تر سخت موقف اپنایا۔ اس کی قیادت نے پاکستان اور پاکستانی علاقوں میں قائم گروپوں کی دہشت گردی سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا عزم دہرایا اور اس ضمن میں وہ ایل او سی کے پار پاکستانی علاقے میں موجود دہشت گردوںکے کیمپ پر 2016ء میں سرجیکل سٹرائیکس کا حوالہ دیتے رہے۔ پلوامہ کے خود کش حملے کے بعد بھارتی رد عمل اور بالا کوٹ کے علاقے میں بھارت کے فضائی حملے کو بھی انڈیا کے اس مضبوط عزم کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا کہ وہ پاکستان میں مبینہ طور پر مقیم گروپوں کی دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے۔ بی جے پی کے کسی لیڈر نے 2016ء کی سرجیکل سٹرائیکس کی حقیقت کے بارے میں پاکستان کے سوالات کا کوئی ذکر کیا اور نہ اس بات کا کہ پاکستان نے بالا کوٹ کی فضائی جھڑپ میں دو بھارتی جہاز مار گرائے اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کیا تھا۔ کسی نے اس بات کا بھی ذکر نہیں چھیڑا کہ بالاکوٹ کے قریب ایک مدرسے میں تین سو لوگوں کو مارنے کا دعویٰ بھی بے بنیاد تھا۔ صرف یہی دعویٰ بار بار دہرایا گیا کہ نریندر مودی بھارت کے خلاف کسی بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کہیں بھی طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں۔

بھارت کے دیگر حصوں میں پاکستان کا ایشو زیادہ نہیں اٹھایا گیا۔ وہاں زیادہ تر توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کو عالمی اہمیت حاصل ہوئی ہے اور آئند ہ بھی مودی کی قیادت میں بھارت کو عالمی معاشی اور فوجی طاقتوں کے درمیان اہم مقام دلانے کی کوشش جاری رہے گی۔ بھارت کو ایک ایسا طاقت ور ملک بنانا مقصود تھا جس کا عروج اس کے ہندو کلچر اور ورثے کی پہچان کا مرہون منت ہو۔
آر ایس ایس کے نظریاتی اثر اور اس نئے انتخابی اعتماد کے بعد اب اس بات کا امکان بالکل ہی معدوم ہو گیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کشمیر، پانی اور دہشت گردی کے مسائل پر کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرے گا‘ بلکہ الٹا بی جے پی کی حکومت بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو یکسر ختم کر کے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بھارتی آئین میں ترمیم کی اس کوشش پر کشمیر اور بھارت کے دیگر سماجی و سیاسی حلقوں کی طرف سے کس طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے۔

بی جے پی کے لیڈروں سے ہٹ کر باقی سیاست دان چاہتے ہیں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے کسی داخلی حل کے لئے کشمیری رہنمائوں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں صدر راج نافذ ہے۔ کیا بی جے پی کی حکومت کشمیر اسمبلی کے نئے الیکشن کرائے گی؟ جب تک بھارت اپنی جابرانہ پالیسیاں جاری رکھتا ہے اور کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو دہشت گردی قرار دیتا رہے گا‘ وہاں کی صورت حال میں کسی قسم کی بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کا واحد راستہ یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مستقبل پر جامع مذاکرات ہوں۔ اگر ان مذاکرات میں کوئی مثبت اور ٹھوس پیش رفت ہو تو اس مسئلے کے حتمی حل میں کشمیری عوام کو بھی شامل کر لیا جائے۔

حالیہ انتخابی مہم اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے میڈیا کمنٹس کے بعد چار بڑے آپشن سامنے آئے ہیں۔ اول: دانش مندی کا تقاضا ہے کہ باہمی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کا بات چیت کے ذریعے کوئی پر امن حل نکالا جائے۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک اپنے سماجی اور معاشی مسائل کی طرف بھرپور توجہ دینے کے قابل ہو سکیں گے۔ دوم: بھارت پاکستان پر ایک مکمل جنگ جیسا فوجی دبائو برقرار رکھتا ہے اور پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش ترک نہیں کرتا تو اس کا صاف مطلب ہو گا کہ ایل او سی پر کشیدگی جاری رہے گی۔ سوم : بھارت میں بعض حلقوں کا استدلال ہے کہ بھارت کو اپنے عالمی کردار کی طرف توجہ دینی چاہئے اور پاکستان کے ساتھ عسکری اور سفارتی محاذ پر مصروف رہ کر اپنی توانائی ضائع نہیں کرنی چاہئے۔ ان کا موقف ہے کہ بھارت کو خفیہ حربوں کی مدد سے پاکستان کی داخلی تقسیم اور انتشار سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اسے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور افغانستان میں مقیم پاکستانی طالبان کی سیاسی حمایت کرنی چاہئے۔ چہارم : متذکرہ بالا تینوں قسم کی حکمت عملی کے امتزاج سے پاکستان کو خارجی اور داخلی سلامتی کے دبائو میں رکھا جائے۔

اگر مودی حکومت اپنے یا آر ایس ایس کے سخت گیر عالمی موقف سے چمٹی رہتی ہے تو بات چیت کے ذریعے ان پاک بھارت مسائل کا پرامن حل ممکن نظر نہیں آتا۔
استدلال اور دانش مندی کا تقاضا ہے کہ بات چیت سے ان مسائل کا پُر امن حل نکالا جائے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعامل کو فروغ دیا جائے؛ تاہم سیاست ہمیشہ عقلی تصورات اور خیالات کے تابع کام نہیں کرتی۔ پاک بھارت تعلقات میں مثبت تبدیلی تبھی ممکن ہے اگر دونوں ممالک خصوصاً بھارت کی جانب سے کچھ دلیرانہ اقدامات کئے جائیں کیونکہ وہ اس وقت آئیڈیالوجی کی سیاست کر رہا ہے جب عالمی سیاست کٹر آئیڈیالوجی کے بجائے عملی سیاسی اور معاشی مفادات کو پیش نظر رکھ کر کام کر رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے