بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں نریندر مودی کی قیادت میں ہندو بنیاد پرست جماعت بی جے پی نے بڑی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اتحاد ‘این ڈی اے‘ نے ایک ایسے ملک کے انتخابات جیتے ہیں‘ جہاں دنیا کی سب سے زیادہ غربت کا ارتکاز موجود ہے۔ انڈیا کے کارپوریٹ مالکان نے بی جے پی کی انتخابی مہم کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے تھے۔ انفو ٹیک کمپنیوں پر کروڑوں ڈالر نچھاور کیے گئے جنہوں نے سوشل میڈیا پر بی جے پی کی اجارہ داری قائم کی۔ مودی کے حمایتی الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کے مالکان دن رات بی جے پی کے حق میں مہم چلاتے تھے۔ ذات پات، فرقے، نسل اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ خریدے گئے۔ انتخابی ٹھیکے داروں نے بیروزگاروں میں سے آوارہ اور بدمعاش قسم کے ٹولوں کے ذریعے دھنوانوں کی پارٹی بی جے پی کے لئے ووٹ اکٹھے کر کے خوب مال بنایا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی اب بھارتی حکمران طبقات کی روایتی پارٹی بن چکی ہے‘ جس طرح تقسیم ہند کے بعد کی پہلی چند دہائیوں میں کانگریس ہوتی تھی۔ جب نتائج آنا شروع ہوئے تو سٹاک ایکسچینج کے جواری پھولے نہیں سما رہے تھے‘ اور انڈیکس نئی بلندیوں تک پہنچ گئے تھے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں سرمایہ داروں کے لئے ہوشربا مراعات، منافعوں‘ ان کی جانب سے کی گئی لوٹ مار کی حفاظت اور لیبر قوانین کے خاتمے کے وعدے شامل کیے تھے۔ انفراسٹرکچر میں وسیع سرمایہ کاری بشمول سو نئے ایئر پورٹس اور پچاس میٹرو سسٹمز کی تعمیر کے وعدے بھی کیے گئے۔ مودی نے اعلان کیا ہے کہ 2030ء تک بھارت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت سے ترقی کر کے تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ لیکن اپنے پچھلے پانچ سالہ اقتدار میں مودی سرکار اپنا کوئی بھی انتخابی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ اس نے سالانہ دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن آج بھارت میں بیروزگاری پچھلی تین دہائیوں کی سب سے بلند سطح پر ہے۔
سرمایہ داروں اور ان کے زر خرید دانشوروں اور صحافیوں کی جانب سے مودی کو جدت لانے والے ‘ٹیکنوکریٹ‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں یہ بات نظر انداز کی جاتی ہے کہ مودی کی بے سر و پا سکیموں اور مسلسل پھیلتی ہوئی جھونپڑ پٹیوں نے ملک کی شکل کتنی ہولناک اور غلیظ بنا دی ہے۔ مودی نے ہندوتوا کے مقدس دریائے گنگا کو صاف کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن پانچ سال کی مدت میں گندے پانی اور بے تحاشہ صنعتی فضلے کی وجہ سے یہ مزید گندا اور بدبو دار ہو گیا ہے۔ بھارت کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں ماحولیاتی تباہ کاری خوفناک حد تک تیزی سے پھیل رہی ہے۔
آج کے پاکستان کی طرح بھارت میں بھی کرپشن ایک ثانوی معاملہ ہے کیونکہ اس کے بغیر عام لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جائیں گی‘ لیکن یہاں کی طرح وہاں بھی کرپشن مخالفت کی سیاست کرنے والا مودی اور بی جے پی خود بدعنوانیوں کے سکینڈلوں میں غرق ہیں۔ دہلی میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات کے بعد اب یہ شہر ”بلادکار کا عالمی دارالحکومت‘‘ کہلانے لگا ہے۔ اس بار بی جے پی والوں نے وعدہ کیا ہے کہ کیرالہ کے ایک مشہور مندر میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگا دیں گے۔
ہندو بالا دستی پر یقین رکھنے والے اسی مودی نے گجرات میں 2002ء میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلمانوں کے خلاف فسادات کروائے تھے۔ مودی بنیادی طور پہ ایک انتہا پسند آدمی ہیں‘ لیکن نا صرف ہندو بنیاد پرست بلکہ میڈیا، سماجیات اور اخلاقیات کے ان داتا بھی مودی کو بھگوان بنانے کی مہم میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ یہ بذات خود بھارت کی حاوی دانش کی ثقافتی اور فکری زوال پذیری کی غمازی ہے۔
پچھلے پانچ سال کے دوران مودی سرکار نے بھارتی ریاست کے سیکولرازم کا پردہ مکمل طور پہ چاک کر دیا ہے‘ اور حالیہ الیکشن کے نتائج کے بعد تو ہندو بنیاد پرستی اور زیادہ گہرائی تک ریاست اور سماج کے ڈھانچوں میں سرایت کرے گی۔ مودی نے اپنی جیت کے بعد کی تقریر میں سیکولرازم کا خوب مذاق اڑایا۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اس الیکشن نے بھارت کی سرکاری تاریخ اور قومی نظریے پر ایک کاری ضرب بھی لگائی ہے۔ بھوپال سے بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن جیتنے والی پرگیا سنگھ ٹھاکر نے 1948ء میں مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے نتھورام گوڈسے کو ایک محب وطن قرار دیا ہے۔ گوڈسے شروع سے ہی ہندوتوا کے نظریات میں ایک اہم مقام رکھتا ہے‘ اور ماضی میں بی جے پی کے متعدد لیڈروں نے اس کی تعریف کی ہے۔ پرگیا ٹھاکر کی باتوں کو یونین منسٹر اننت کمار اور پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ نلین کمار کتیل نے بھی سراہا ہے۔ بعد میں مودی کی وضاحتیں محض منافقت پر مبنی تھیں۔
چند ایک کو چھوڑ کے ہندوتوا کے تمام نظریہ دان گاندھی کے قتل کی مکمل حمایت کرتے ہیں‘ اور اس کے قاتل گوڈسے کی پرستش تک کی جاتی ہے۔ بی جے پی کے ایک امیدوار کی جانب سے اس طرح کا بیان اور گاندھی کی یوں سرعام تذلیل بھارتی سماج کے بدلے ہوئے حالات کی غمازی کرتی ہے۔ بالخصوص اگر یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ گاندھی بھارتی ریاست کا چہرہ ہے اور کرنسی نوٹ پر اس کی تصویر بھی لگی ہوئی ہے۔
آبادی کی وسیع اکثریت نے اپنے ووٹوں سے ایسے لوگوں کو اقتدار میں پہنچایا ہے جو گاندھی کے قاتل کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ کیفیت ہی ایک جدید صنعتی، سیکولر، جمہوری اور خود مختار ریاست بنانے میں بھارتی حکمران طبقات کی تاریخی ناکامی اور ان کی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی عکاسی کر دیتی ہے۔ نہرو کا ”قسمت کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ‘‘ (Tryst with destiny) ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ ”ہندوستان‘‘ کو شکست ہو چکی ہے اور ”بھارت‘‘ اس کی جگہ لے چکا ہے۔ لیکن ملک کے دیوہیکل اور طاقتور پرولتاریہ نے ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں سنایا۔
لبرل سیکولر رجحانات کی جانب سے بھارت میں فاشزم کے آ جانے کے حوالے سے بڑا شور و غوغا ہے۔ گارڈین میں کپیل کومیریڈی نے ایک حالیہ مضمون میںلکھا ہے، ”سب سے زیادہ برا یہ ہے کہ ہندوستان کو ایک ہندو قوم میں تبدیل کرنے کے لئے جمہوری اداروں کو استعمال کیا گیا ہے… پانچ سال بعد ہم مودی کے بنائے ہوئے ‘نئے بھارت‘ کو دیکھ رہے ہیں‘ جو اپنے موجد کا عکاس ہے: ثقافتی طور پر بانجھ، شعوری طور پر کھوکھلا، جذباتی طور پر کچلا ہوا، گھمنڈی، اندوہناک، مستقل طور پر دکھی اور شدید بد خواہ۔ یہ جھوٹ اور دکھاوے سے بھرپور نمود و نمائش کی سرزمین ہے جہاں خود رحمی کے احساسات سے لبریز اکثریت کے پاس اپنی مایوسی اور بھڑاس نکالنے کے لئے مذہبی اقلیتوں پر جبر کے سوا کوئی اور تھراپی نہیں ہے۔ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت میں مسلمانوں کو صرف اس بات پر قتل کر دیا جاتا ہے کہ اس نے گائے کا گوشت کیوں کھایا‘ پُر ہجوم ٹرین میں کسی ہندو کے لئے اپنی سیٹ کیوں خالی نہیں کی یا کسی ہندو لڑکی کے ساتھ ڈیٹ پر کیوں گیا… فرقہ وارانہ تعصبات ہمیشہ سے بھارت میں موجود رہے ہیں‘ لیکن مودی کے دور میں انہوں نے قتل عام کی شکل اختیار کر لی ہے۔ قتل ہونے والے مسلمان کسی اچانک گرما گرمی کے نتیجے میں قتل نہیں ہوتے بلکہ یہ ہندو بالا دستی قائم کرنے کی منظم واردات کا نتیجہ ہے۔ مودی کی پرستش بہت سے ہندوئوں کی اپنے ماضی کی طرف مراجعت کا نتیجہ ہے۔ یہ دراصل تاریخی المیوں‘ بالخصوص مسلمان قوم پرستی کے مطالبات کی خاطر ہندوستان کی تقسیم کے خلاف ایک رد عمل ہے‘‘۔
اگرچہ ہندوتوا کے نو فسطائی رجحانات ایک سنجیدہ خطرہ ہیں لیکن مودی سرکار جرمنی کے ہٹلر اور اٹلی کے مسولینی کی طرز پر بھارت میں ایک فاشسٹ حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس وحشت کے خلاف سب سے بڑی قوت ہندوستان کے دیوہیکل محنت کش طبقے کا وجود ہے جو اب تک کسی طبقاتی جنگ میں فیصلہ کن شکست سے دوچار نہیں ہوا ہے۔ اس کی طبقاتی قوت کا نتیجہ ہی ہے کہ نریندر مودی اب تک لیبر قوانین اور ان مراعات کو ختم نہیں کر سکے جو محنت کشوں نے ماضی میں اپنی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں۔ اسی طرح مودی ہندوستان کے واحد مسلم اکثریتی صوبے جموں و کشمیر کو حاصل مخصوص آئینی حیثیت کو بھی ختم نہیں کر سکے ہیں۔ مودی ایودھیا میں بابری مسجد، جسے 1992ء میں ہندو بنیاد پرستوں نے منہدم کیا تھا، کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ (جاری)