تیسری مذہبی ریاست

دوسری جنگِ عظیم کے بطن سے نیو نیشنز سٹیٹس برآمد ہوئیں‘ جن میں سے پاکستان اور اسرائیل مسلم و صہیونی مذہبی ریاستیں کہلائیں۔

اسی دور میں بھارت سوشلسٹ سماج کے دعوے پر مبنی سیکولر ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پہ اُبھرا تھا۔ مگر شدت پسندی کی تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 23 جولائی 2019ء کے دن سیکولر بھارت میں سیکو لر سماج کا سورج غروب ہو گیا۔ یہ میرا ذاتی خیال نہیں بلکہ پچھلے 4 دن سے ساری دنیا کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا یہی کہہ رہا ہے کہ بھارت اب ایک ہندو مذہبی ریاست ہے۔ یہی نریندر مودی کی الیکشن مہم کا بنیادی نعرہ بھی تھا۔ صرف نعرہ نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی، RSS اور ان کے ہم خیالوں کا ڈکلیئرڈ ایجنڈا بھی یہی ہے۔

ذرا اس کے دوسرے پہلو پہ غور کیجیے! مودی اتحاد نے بھارت کی ہندو اکثریت سے زبانی اور تحریری وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ بھارت کے سیکولر آئین کو ہندو ریاست کے آئین میں تبدیل کر دے گا؛ چنانچہ اسی تناظر میں بی جے پی کی حالیہ انتخابی مہم نے کئی سچائیوں کو جنم دیا یا انہیں کنفرم کر دیا۔ ان میں سے ایک بڑی سچائی علامہ اقبال اور قائد اعظم کی Two Nations Theory ہے‘ جسے آں جہانی اندرا گاندھی نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ان لفظوں میں تسلیم کیا تھا ”مشرقی پاکستان کو توڑ کر میں نے دو قومی نظریہ خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ اب ماتھے پہ سیندور سجائے ایک ہاتھ میں ترشول دوسرے میں تلوار پکڑے مودی نے نیا جنم لیا ہے یا بھارت نے۔ اس بنیادی سوال کا جواب اگلے کچھ سالوں میں مکمل طور پر طے ہو جائے گا۔ بی بی سی نے بھارتی الیکشن کو سب سے زیادہ کوریج دی۔ جرمنی کا D.W، روس کا RT اور کارپوریٹ امریکہ کی آواز CNN سمیت سب نے ایک ہی بات کہی: مودی فیکٹر کو بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے ووٹ پڑے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر تیسری نئی مذہبی ریاست والی تبدیلی 2 سطحوں پر پہلے ہی وارد ہو چُکی ہو۔

نمبر1۔ بھارت کی سیاست اب صرف ہندو اکثریت کے گھر کی لونڈی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں بھارتی اقلیتوں کی نمائندگی عملی طور پر ٹشو پیپر سے زیادہ کچھ نہیں۔ کون نہیں جانتا ٹشو پیپر آنسو پونچنے کے علاوہ اور کس کس کام آتے ہیں۔

نمبر2۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے نزدیک ہندوستان پر ہندو اکثریت کے علاوہ صرف ایک اقلیت کو رہنے کا حق حاصل ہے۔ جو عملی طور پر ہندو بن کر رہے۔ بابری مسجد کی شہادت سے جس تبدیلی کا سفر شروع ہوا تھا‘ انڈین الیکشن 2019ء کا نتیجہ اس کا کلائمیکس ہے‘ کچھ اور نہیں۔ دنیا کی تیسری مذہبی ریاست والی کامیابی صرف مودی کے نام نہیں جاتی بلکہ یہ ایک ذہنیت کی فتح ہے جسے بھارت کی اکثریت نے انڈین آئین بدلنے کے لیے دل کھول کر ووٹ ڈالے ہیں۔ مودی راج سیزن 2 میں آئین بدلنے کے بعد کیا ہو گا؟ اس پہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل نمبر370 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے کو ان لفظوں میں خاص سٹیٹس دیا گیا ہے:
370. Temporary provisions with respect to the State of Jammu and Kashmir.-
(1) Notwithstanding anything in this Constitution,)

اوپر درج بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 میں کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا۔ اسی لیے ریاستِ جموں و کشمیر کے لیے عارضی دفعات تخلیق کی گئیں‘ جن میں یہ اہم نکات شامل کیے گئے۔
(a) بھارتی آئین کا آرٹیکل 238 ریاستِ جموں و کشمیر میں لاگو نہیں ہو گا۔

(b) بھارتی پارلیمنٹ ریاستِ جموں و کشمیر کے لیے صرف محدود قانون سازی کر سکتی ہے۔ وہ بھی یونین لِسٹ اور کنکرنٹ لِسٹ مدِ نظر رکھ کر۔ خاص طور سے اس میں ریاست کی کٹھ پُتلی حکومت کی رائے بھی شامل کی گئی۔

(c) ریاست جموں و کشمیر کو Instrument of Accession یعنی الحاق کے اعلان کی دستاویز کی رو سے چلایا جائے گا۔
(d) اسی آرٹیکل میں جموں و کشمیر کی گورنمنٹ آف سٹیٹ کی تعریف بھی شامل کر دی گئی‘ جس میں بھارت کے صدر کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کسی کو بھی مہاراجہ آف جموں و کشمیر کے طور پہ تسلیم کرے جو کونسل آف منسٹرز اور الحاق کی دستاویز مورخہ 5 مارچ 1948ء کے تحت فرائض سرانجام دے۔

(For the purposes of this article, the Government of the State means the person for the time being recognised by the President as the Maharaja of Jammu and Kashmir acting on the advice of the Council of Ministers for the time being in office under the Maharaja’s Proclamation dated the fifth day of March, 1948)

اس کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت کو دستاویزاتِ الحاق ریاستِ جموں و کشمیر کے خلاف کوئی بھی آرڈر پاس کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اب بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی کا ایک اور مطلب بھی نکلے گا‘ جسے سمجھنے کے لیے اتنا جاننا کافی ہو گا کہ آرٹیکل 370 میں ریاست جموں و کشمیر کے لیے اس کی اپنی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے ریاستِ جموں و کشمیر کا علیحدہ آئین بنانے کی گنجائش بھی مہیا کی گئی۔ ملاحظہ کیجئے ذیلی آرٹیکل (2)۔

(2) If the concurrence of the Government of the State referred to in paragraph (ii) of sub-clause (b) of clause (1) or in the second provision to sub-clause (d) of that clause be given before the Constituent Assembly for the purpose of framing the Constitution of the State is convened, it shall be placed before such Assembly for such decision as it may take thereon.

بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کی شمولیت کی واحد وجہ تنازعۂ کشمیر کا وہ مقدمہ ہے جسے ہندوستان کے پہلے حکمران جواہر لعل نہرو اقوامِ متحدہ میں لے کر گئے تھے۔ بی جے پی اتحاد کا انتخابی وعدہ ہے کہ ان کی حکومت کشمیر کا یہ سٹیٹس ختم کر دے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی نئی نسل پہلے ہی خاک و خون میں نہلائی جا رہی ہے۔ اس آئینی تبدیلی کے بعد بھارت میں غیر یقینی صورتحال اور عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا۔ بی جے پی کی تجویز کردہ آئینی تبدیلیوں کے دوسرے نمبر پر بھارتی شہری کی Definition آتی ہے‘ جسے تبدیل کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے مطابق بھارت میں بسنے والے ہندو ہی ہندوستانی شہری کہلانے کے حق دار ہوں گے۔

ایسی آئینی ترمیم کے بعد 35 کروڑ سے زائد مسلمان،10 کروڑ سے زائد سِکھ، کروڑوں عیسائی، اتنے ہی بدھ مذہب کے پیروکار، پارسی اور بے شمار دوسرے مذاہب کے ماننے والے بہ یک جنبشِ قلم بھارت کے شہری نہیں رہیں گے۔ ایسی آئینی ترمیم تقسیمِ ہند کے ایکٹ مجریہ 1947 اور ریڈ کلف پارٹیشن/ بائونڈری کمیشن دونوں کی نفی ہو گی‘ جس کا پہلا نتیجہ بھارتی اقلیتوں میں بے یقینی اور خوف کی نئی لہر کی صورت میں نکلے گا۔

مگر ساتھ ساتھ ایک اور نتیجہ بھی لازماً برآمد ہو گا۔ برٹش راج کے ان دونوں معاہدوں سے انکار کے بعد میں خالصتان، جھاڑ کنڈ، تلگو دیشم، میزورام، حیدر آباد، دکن سمیت 232 پرنسلی سٹیٹس اور خود مختار علاقوں کا پارٹیشن سے پہلے والے سٹیٹس کا دعویٰ بحال ہو جائے گا۔

اب آئیے لائٹر نوٹ پر، جہاں حالیہ بھارتی الیکشن کا سب سے تہلکہ خیز نتیجہ امرتسر سٹی میں سامنے آیا۔ ایک آزاد امیدوار نیتو شٹراں والے نے اپنے انتخابی نتیجے کا خود ہی اعلان کر دیا‘ جبکہ نیتو شٹراں والے کا ٹی وی انٹرویو انڈین الیکشن 2019ء کا میگا کلاسک لافٹر بن گیا۔ سوشل میڈیا پر سُوپر، ڈوپر وائرل کا اعزاز حاصل کرنے والا یہ شارٹ انٹرویو یوں ہے۔

رپورٹر: ووٹاں دی کائونٹنگ شروع ہو گئی اے۔ جلندر سیٹ دی گل کریے تے چوہدری سنتوک سنگھ اس سیٹ توں اگے چل رئے نیں‘ نیتو شٹراں والا ساڈے نال موجود اے‘ توانوں پنج ووٹاں ہی پیاں نیں؟
امیدوار: سر میرے گھر دیاں 9 ووٹاں ہے گیاں، پھر وی مینوں 5 پئیاں نیں۔
رپورٹر: توانوں پریوار آلیاں نے ووٹ نئیں پائی؟

امیدوار: نئیں سر، میں تے لگدا بے ایمانی کیتی گئی اے ووٹاں دے وِچ… سر ساریاں نے بے ایمانی کیتی مشیناں دے وچ۔ لوکاں قسم کھا کے مینوں ووٹاں پائیاں سن۔

اس کے بعد نیتو رو پڑا۔ مستقبل قریب میں تیسری مذہبی ریاست کِس کِس کو رُلائے گی‘ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
کون کس کے لیے تباہ ہوا
کیا ضرورت ہے اس وضاحت کی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے