خوش آئند بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو، مریم نواز، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، اسفندیار خان، ایمل ولی، میر حاصل خان بزنجو اور دیگر قومی سیاسی رہنماوں نے کل نہتے شہریوں پر ہونے والی فائرنگ کی کھل کر مذمت کی۔
مگر!
کہانی مذمت پہ ختم ہوجائے، غیر دانشمندانہ رویہ ہوگا۔ تمام قومی رہنماوں کو بیٹھ کر اس مسئلے کو کسی جانب لگانا ہوگا۔ اور لگاتے ہوئے انہیں کچھ تجربات پر تو خاص دھیان دینا ہوگا
۱۔ ایک سیاسی وفد نے اعلان کیا کہ ہم بگٹی صاحب سے ملیں گے، مسئلے کا حل نکالیں گے۔ یہ سیاسی وفد بلوچستان گیا۔ عین سوئی کے قریب پہنچا تو نہ صرف یہ کہ بگٹی صاحب کے ارد گرد آپریشن شروع ہوگیا بلکہ سیاسی وفد نے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کی گاڑیوں کے آس پاس فائرنگ کی۔ یوں معاملہ سبوتاژ ہوگیا۔
۲۔ ایک سیاسی وفد لال مسجد کے قضیے میں بھی اترا تھا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ غازی عبدالرشید میڈیا کی موجودگی سرنڈر کرنے کو تیار ہوگئے۔ معاملات حل کی طرف چلے ہی تھے کہ لال مسجد میں آپریشن کا فائنل راونڈ شروع کردیا گیا۔
۳۔ سینیٹ نے منظور پشتین سے بات چیت کے آغاز کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کی۔ منظور کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ اراکین پارلیمنٹ اور پی ٹی ایم کے ارکان اس وعدے کے ساتھ اٹھے کہ بات چیت کو آگے بڑھایا جائے گا۔ اس ملاقات پر پی ٹی ایم نے ہی نہیں، پی ٹی ایم مخالف حلقوں نے بھی سکھ کا ایک سانس لیا۔ ابھی اراکین نے ٹھیک سے دامن جھاڑے بھی نہ تھے کہ آواز آئی
"پی ٹی ایم کا وقت ختم ہوچکا”
اس پریس کانفرنس کے بعد معاملات صرف اس لیے بدمزگی کا شکار نہیں ہوئے کہ منظور پشتین نے اُس تحمل کے ساتھ پریس کانفرنس پر رد عمل دیا جس تحمل کی توقع کسی بڑے ادارے کے ایک ذمہ دار ترجمان سے کی جانی چاہیے۔
قومی رہنماوں کو گہری نظر رکھتے ہوئے اسی سیاسی اتفاق کے ساتھ اس مسئلے کے لیے بیٹھنا ہوگا جس اتفاق کے ساتھ انہوں نے حالیہ رد عمل دیا۔