مسلمانان ِہند پر کڑا وقت

نریندر مودی کی بھر پور کامیابی کے بعد اب پورے بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں کے حوصلے قابو سے باہر ہو گئے ہیں۔وہ مسلمانوں کو اپنی زیر اطاعت مخلوق تصور کرتے ہیں۔ حکومت کی تشکیل کے بعد مودی اور اس کے حواری‘ مسلمانوں کو پوری طرح اپنے مکمل کنٹرول میں لانے کے انتظامات کر رہے ہیں۔ انتہا پسند ہندو مسلمانوں کو نچلے درجے کی مخلوق سمجھنے لگے ہیں۔ جس روز مودی کی جیت ہوئی‘ انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویے کی انتہا کر ڈالی‘ جس طر ف سے مودی کا جلوس جا رہا تھا‘ اس کے ساتھ والے علاقوں کے مسلمان دہشت کے عالم میں اپنی جانیں بچا رہے تھے۔ مودی کے غنڈے‘ مسلمان نوجوانوں کو گھیر کے لاٹھیوں اور پتھروں سے نشانے لگا رہے تھے۔ ایک مقام پر ایک بے بس مسلمان کو بوری میں بند کر کے بے تحاشہ لاٹھیوں سے یوں مار رہے تھے‘ جیسے وہ انسان نہیں‘ کسی درندے کو پکڑ کے کچلنے میں لگے ہیں۔وہ تمام مسلمان جو کانگرس یا کسی دوسری ہاری ہوئی جماعت سے جیت کر آئے ہیں‘ انتہائی خوفزدگی کے عالم میں اپنے آپ کو بی جے پی سے وابستہ کر رہے ہیں اور ان کے طرز عمل میں وقت کے ساتھ ساتھ رعونت بڑھتی جا رہی ہے؛ اگر جلد ہی مہذب انسانیت نے آواز بلند نہ کی تو بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کو اچھوتوں کا درجہ دینے کی کوشش شروع ہو چکی ہے۔ مسلمان درندگی کی ابھرتی ہوئی ذہنیت سے خوفزدہ ہو کر‘ تکبر کی لہر کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہندوئوں کے غرور کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں ۔ ذیل میں ایک مسلم قلم کار ڈاکٹر اسد رضاکا مضمون شائع کیا جا رہا ہے‘ جو اس نے خوفزدگی کے عالم میں لکھا ہے‘ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آزاد خیال مسلمان بھی حالیہ تازہ فضا میں کس طرح خوف کا شکار ہو رہے ہیں؟مضمون پیش خدمت ہے:۔

”2019ء کے لوک سبھا انتخابات کے بعد این ڈی اے کو وزیراعظم نریندر مودی کی خفیہ لہر کی بدولت ”شاندار‘‘ کامیابی حاصل ہوئی۔ بلاشبہ مسلمانوں کی اکثریت نے کانگرس‘ ایس پی‘ بی ایس پی گٹھ بندھن‘ آر جے ڈی‘ ترنمول کانگرس‘ ڈی ایم کے‘ بی جے ڈی اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو اپنے ووٹ سے نوازا ‘مگر بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کو کم تعداد میں ووٹ ملے‘ تویہ تصور کرنا کہ مرکز یا ریاستوں میں این ڈی اے کی حکومتیں انہیں مراعات سے نوازیں گی‘ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ یہ تلخ سچائی ہو گی کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے مسلمانوں کو کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا‘ مثلاً: اب ایک نشست میں تین طلاقوں پر پابندی عائد کرنے والا بل آسانی سے قانون بن جائے گا۔ مسلمان عورتوں کے برقع پہننے ‘یعنی نقاب کرنے پر پابندی عائد ہو سکتی ہے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیاں مذکورہ بالا اقدام کا نام لے کر مسلمانوں کو مشتعل کر سکتی ہیں اور بعض مذہبی رہنما بھی اس کوشش میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔

کچھ مسلم رہنما کانگرس اور ایس پی جیسی سیاسی پارٹیوں کو نام نہاد سیکولر پارٹیوں کہنے پر اعتراض کریں تو عرض ہے کہ مراد آباد‘جمشید پور‘ علی گڑھ‘ بجنور‘ بھاگلپور‘ مظفر نگراور ہاشم پورہ کے خوفناک‘ ہلاکت خیز اور مسلم کش فسادات کانگرس اور ایس پی جیسی سیکولر پارٹیوں کے دور حکومت میں ہی ہوئے تھے۔ بھارتی مسلمان معاشی‘ سماجی اور تعلیمی لحاظ سے اگر دلتوں کے مقابلے میں زیادہ پسماندہ ہوئے تو سیکولر پارٹیوں کی حکومتوں میں ہی ہوئے‘ لہٰذا مسلمانوں کو سیکولر ازم کے نام پر کسی سیاسی پارٹی کاووٹ بنک ہرگز نہیں بننا چاہیے‘ بلکہ سیاست دانوں کے بجائے خود پر اعتماد کرنا چاہئے اور نئی پود کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا ہو گی۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض سیکولر لیڈر اور خود عرض مسلمان سیاست دان اپنے سیاسی اور معاشی فائدے کے لئے ”ہندو مسلم‘‘ اتحاد کا را گ الاپتے ہیں اور مسلمانوں کو متحد ہو کر انہیں ووٹ دینے کی ترغیب دیتے ہیں حالانکہ بھارت میں مسلم رائے دہندگان نے ہر الیکشن میں مختلف سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دئیے‘ لیکن جب مایا وتی یا کوئی اور لیڈر‘ مسلمانوں سے متحدہو کر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کرتا ہے تو اس کا اثر منفی ہوتا ہے۔ مسلمان تو ذات پات اور مسلک و فرقے کے نا م پر تقسیم ہو جاتا ہے‘ لیکن ہندو متحد ہو جاتے ہیں‘ جس کا ثبوت حالیہ لوک سبھا الیکشن ہے‘ جس میں ہندو پسماندہ طبقات اور دلتوں نے بھی مودی اور ہندو توا کی لہر میں ڈوب کر‘ این ڈی اے کو زبردست کامیابی دلائی۔ بی جے پی کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر بھی بر سر اقتدار آسکتی ہے۔مسلمان اپنا رویہ تبدیل کرتے ہوئے نفرت کا جواب محبت سے دیں اوراپنے لئے بھارت میں گنجائشیں پیدا کریں ‘ورنہ جو سلوک ان کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے‘ وہ بد سے بدترین ہوتا چلا جائے گا۔ اسلام سب کی سلامتی چاہتا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ اپنے اوپر کوڑا ڈالنے والی عورت کے ساتھ بھی رواداری سے پیش آئے۔ آپؐ نے ”ہمارا دین ہمارے ساتھ‘ تمہارا دین تمہارے ساتھ‘‘ کے اصول پر عمل کیا اور ہمیشہ روشن خیالی کا ثبوت دیا۔ صلح حدیبیہ کی مثال بھی مسلمانان ہند کو پیش نظر رکھنی چاہیے۔ ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ ہم غیر اہم ایشوز پر سڑکوں پر نہ آئیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم پاکستان‘ سعودی عرب یا ایران جیسی اسلامی مملکت نہیں ‘بلکہ ہندوستان میں رہ رہے ہیں‘ جو بظاہر سیکولر ملک ہے‘ لیکن بہادری کا بے جا مظاہرہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔اپنے مذہب پر عمل ضرور کریں ‘لیکن سڑکوں پر نہیں‘ مساجد یا گھر میں۔
آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مسلمان خود غرض سماجی‘ سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کے اشتعال میں نہ آئیں ‘بلکہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں تو یہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ جائز مطالبات اور حقوق کے لئے قانونی لڑائی عدالتوں میں لڑنی چاہئے‘ سڑکوں پر نہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا مقصد حصول اقتدار ہے اور اس کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کرتی ہے‘ اس لئے مسلمان کسی پارٹی کا ووٹ بینک یا سیاسی حربہ بننے پر احتراز کریں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے