پی ٹی ایم تحریک طالبان نہیں !

لب ساکن ہیں ، قلم خاموش ہے ، ارد گرد افراتفری ہے ، دھول اڑی ہوئی ہے ، قاتل ، غدار ، دہشت گرد کی صدائیں لگی ہوئی ہیں ، پی ٹی ایم نے حملہ کر دیا ، فوج نے سیدھی گولیاں چلا دیں ، ہم پر امن وہ دہشت گرد جیسی باتیں ہو رہی ہیں ، کچھ جذباتی اکہتر کا طعنہ دے رہے ہیں کچھ درد بھرے لہجے میں کہہ رہے ہیں ماضی سے سیکھا جائے ،

شور ہے ، ہنگامہ برپا ہے ، کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دی رہی ، اس سوسائٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محبت و نفرت دونوں میں انتہاء پسند واقع ہوئی ہے ، اس سوسائٹی کو چھوٹے دماغ ملے ہیں ، ہمارے سروں پر لوہے کی چادریں بنائی گئی ہیں ، ہم نہ اپنے دماغ سے سوچ سکتے ہیں نہ اپنی زبان سے بول سکتے ہیں ، یہ بند دماغ لوگ ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں ، مار دو ، جلا دو ، گھیراؤ کرو ، انہیں مہلت نہ دو ، یہ سانپ ہیں ، افسوس یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو دانشور کم اور نوکر زیادہ لگتے ہیں ، اس سوسائٹی کو نوکروں کی ضرورت نہیں ،

دیکھیں صاحب !

پی ٹی ایم کو غدار کہنے سے معاملہ حل ہوتا ہے تو میں کہہ دیتا ہوں پی ٹی ایم غدار ہے ، منظور ملک دشمن ہے ، علی وزیر بھارت کا ایجنٹ ہے ، محسن داوڑ را اور موساد کا ایجنٹ کا ہے ، کیا یہ تین لوگ ہی غدار ہیں ؟ انکے پیچھے پشتون قوم کھڑی ہے ، اجتماعی شعور نہ غدار ہوتا ہے اور نہ ہی ایجنٹ ، پوری پشتون قوم پی ٹی ایم کیساتھ کھڑی ہے ،

سوال یہ ہے کہ کیوں کھڑی ہے ؟

کیا منظور پشتین کوئی خواب دکھاتا ہے ؟ کیا وہ کوئی سبز باغ دکھاتا ہے ؟ کیا وہ یہ کہتا ہے کہ میں سڑکیں ، پل ، روڈ بنا کر دونگا ؟ کیا وہ یہ کہتا ہے کہ میں نوکریاں دونگا ؟ ایک شخص ان سب باتوں میں سے کوئی بات نہیں کرتا تو پھر لوگ اسکے پیچھے کیوں کھڑے ہیں ؟

لوگوں کے مسائل ہیں ،

میرا ماننا ہے کہ فوج کے جوان شہید ہوئے ، پاکستانی سوسائٹی اس جنگ میں شہید ہوئی ، لیکن قبائل اور فوج کی قربانیوں میں فرق ہے ، فوج کا جوان شہید ہوا ، فوج نے اسے سلامی دی ، عزت دی ، نغمہ لکھا ، ترانا گایا ، اسکے خاندان کی کفالت کی ، ایک گاوں میں کسی فوجی کے ایک سے زائد جنازے نہیں گئے ہونگے ، جبکہ دوسری طرف قبائل نوجوان لاپتہ ہوئے ، ان کے گھر مسمار ہوئے ، انکی مارکیٹیں تباہ ہوئیں ، انہوں نے ایک ایک گھر سے کئی کئی لاشیں اٹھائیں ، انہوں نے اپنے ہی ملک میں ہجرت دیکھی ،

یہ بڑے دکھ ہیں ، منظور نے ان دکھوں کو زبان دی ، پی ٹی ایم نے وہ باتیں سر عام کرنی شروع کر دیں جن کے بارے میں سوچنا بھی جرم تھا ، اب باتیں ہو رہی ہیں اور سمجھ نہیں آ رہی ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

جب ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے ، ایک فوجی بندوق سامنے رکھ کر سوچتا ہے ، اسکے نزدیک ایک ہی حل ہے ٹھوک دو ، جبر ایک وقت تک رکھا جا سکتا ہے اور سہا جا سکتا ہے ، جبر کو جبر سے روکا جا سکتا ہے ، لیکن جب سامنے نہتے آ کر کھڑے ہو جائیں تو پھر مشکلات بڑھ جاتی ہیں ،

پی ٹی ایم تحریک طالبان نہیں ،

یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو سختی سے عدم تشدد پر گامزن ہیں ، یہ بات کا سلیقہ جانتے ہیں ، یہ عالمی زبان جانتے ہیں ، یہ عالمی قوانین اور آئین پاکستان سے واقف ہیں ، یہ بات کرتے ہیں تو دنیا سنتی ہے ، یہ احتجاج کی کال دیتے ہیں تو دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج شروع ہو جاتا ہے ، یہ دنیا کو اپنی بات سنانے کی کوشش کر رہے ہیں ،

ان پر تشدد ہو گا تو دنیا انکے ساتھ کھڑی ہو جائے گی ، انکا مسئلہ عالمی مسئلہ بن جائے گا ، ہم اس کو بھی تحریک طالبان سمجھ رہے ہیں، تحریک طالبان کے خلاف دنیا تھی ، ہم امریکہ کے اتحادی تھے ، ہمیم اس جنگ کے پیسے ملتے تھے ، میڈیا ساتھ تھا ،

جبکہ یہاں ایسا کچھ نہیں ، ہماری چھوٹی سے غلطی مقامی مسئلے کو عالمی مسئلہ بنا دے گی ،

ریاست غداری کے تمغے بانٹنے کی بجائے عملی اقدام اٹھائے ، ریاست گولی کے لہجے میں بات کرنے کی بجائے پیار سے بات کرے ، ریاست قبائل کا سامنا کرنے کی بجائے معاملات سیاسی قیادت کے ہاتھ میں دے دے تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں ،

سیاسی لوگ عوام میں رہتے ہیں ، عوام کا مزاج سمجھتے ہیں جبکہ ایک فوجی سیاسی بصیرت سے بے پرواہ ہوتا ہے ، اسے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ سامنے کون ہے ؟ وہ آرڈر کا پابند ہوتا ہے ، اسے جو کہا جاتا ہے وہ کر گزرتا ہے ،

پشتون علاقوں میں فوج نے آپریشن کیے ، فوج کے خلاف اس وقت غصہ ہے ، سول لوگ سامنے ہونگے تو غصہ سول لوگوں پر نکلے گا ، اب غصہ فوج کے خلاف بڑھ رہا ہے ، تصادم کی صورت میں یا پروپیگنڈہ وار کی صورت میں نقصان ملک و فوج کا ہو گا ؟ کون ظالم یہ چاہتا ہے کہ فوج کمزور ہو ؟

دشمن ممالک میں گھر میرا ملک کمزور فوج برداشت کر ہی نہیں سکتا ، مجھے مضبوط فوج چاہیے ، فوج تبھی مضبوط رہ سکتی ہے جب عوام اسکی پشت پر ہوں ، جب عوام اور فوج آمنے سامنے ہوگی تو پھر کسی تیسرے دشمن کی کیا ضرورت ؟

ہے کوئی برف دماغ والا جو بندوق کو پرے رکھ کر سوچے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے