رویت ہلال تنازع کا حل ۔ اب یا کبھی نہیں

رمضان المبارک کے آغاز میں جب حسبِ روایت دو مفتیان کرام (مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی) قوم کو تقسیم کرنے کا موجب بنے اور دونوں کی انائوں کی وجہ سے رویت ہلال کا تنازع کھڑا ہوگیا تو اس سے متعلق حسب روایت میں نے بھی اپنا دکھڑا کالم اور ایک ٹی وی پروگرام کی صورت میں سنادیا۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب ہماری بھرپور کوشش اور اس پیشکش کے کہ ہم ریکارڈنگ ان کی سہولت اور مصروفیت کے مطابق رکھ دیں گے، میرے ٹی وی پروگرام میں تو شریک نہیں ہوئے لیکن پہلے میرے جواب میں ایک کالم تحریر کیا اور پھر ایک تفصیلی ویڈیو پیغام جاری کیا تاہم میرے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے یا تنازعے کا حل پیش کرنے کی بجائے انہوں نے صرف مجھ پر طنز کرنے پر اکتفا کیا۔ میں نے اپنے کالم کے آخر میں عرض کیا تھا کہ:

’’اب یہ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ مفتی پوپلزئی صاحب نے کیمروں کے سامنے درجنوں مفتیان کی موجودگی میں اعلان کیا کہ پختونخوا(جو ماشاءاللہ پاکستان کا حصہ ہے) کے فلاں فلاں علاقوں سے رمضان کے چاند کی رویت کی اتنی شہادتیں موصول ہوئی ہیں لیکن اسی وقت مفتی منیب الرحمٰن صاحب ٹی وی کیمروں کے سامنے درجنوں مفتیان کی موجودگی میں اعلان کرتے ہیں کہ ملک کے کسی حصے سے چاند کی رویت کی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ اب ان دونوں میں کوئی ایک گروہ تو جھوٹ بول رہا ہے اور جھوٹے کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات سے یہ حضرات ہم سے زیادہ واقف ہیں۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ امسال کے اعلانات کو بنیاد بنا کر اسلامی نظریاتی کونسل یا پھر وفاقی شرعی عدالت یہ فیصلہ کرلے کہ مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی میں کون جھوٹا ہے۔پوپلزئی صاحب، فواد چوہدری جیسے وہ مسلمان بھی نہیں جنہیں بقول مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے دینی معاملات میں ٹانگ نہیں اڑانا چاہئے۔ وہ تو مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے کلیے کے مطابق دینی معاملات پر رائے زنی کے لئے کوالیفائیڈ ہیں۔ چنانچہ فواد چوہدری اور مجھ جیسے گناہ گار مسلمان حیران ہیں کہ ہم کس کی سنیں؟ کس مفتی کو سچا مانیں اور کس کو جھوٹا؟ ویسے رویت ہلال کی شہادت کے لئے بندے کا بالغ یا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ عالم ہونے کے علاوہ الحمدللہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی بالغ بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ مفتی منیب الرحمان صاحب اور ان کی کمیٹی بتادیں کہ وہ پوپلزئی صاحب کو بالغ نہیں سمجھتے یا خاکم بدہن ان کے نزدیک ان کے مسلمان ہونے میں کوئی شک ہے۔ نہیں تو پھر وہ ان کی شہادت کے باوجود یہ اعلان کیوں کرتے ہیں کہ ملک کے کسی حصے سے چاند دیکھنے کی شرعی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ فواد چوہدری کی تجویز کردہ ماہرین فلکیات اور سائنسدانوں کی کمیٹی کم ازکم یہ فیصلہ تو کرسکتی ہے کہ دو مفتیوں میں کون جھوٹا اور کون سچا ہے؟‘‘

اب میں نے ایک گناہ گار مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مفتی صاحب بتادیں کہ کیا پشاور پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟۔ دوسرا سوال میرا یہ تھا کہ ان دونوں مفتیوں میں سے کوئی ایک جھوٹ بول رہا ہے لیکن مفتی صاحب نے نہ تو مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے بارے میں فتویٰ دیا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور نہ اپنے بارے میں۔ مفتی صاحب نے طنز کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ رویت کا فیصلہ سلیم صافی یا ان کی والدہ کی سہولت دیکھ کر نہیں بلکہ شریعت کے مطابق کریں گے تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ میں نے یہ کب مطالبہ کیا تھا کہ آپ میری سہولت دیکھ کر فیصلہ کریں۔ اپنی اور والدہ کی مثال میں نے نمونے کے طور پر دی تھی اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ صرف میرا نہیں بلکہ کروڑوں پختونوں کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ درجنوں اراکینِ قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے علاوہ وفاقی وزیر مذہبی امور پیرزادہ نورالحق قادری (جن کے مفتی منیب الرحمان صاحب ماتحت ہیں)، وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسی نوع کی دیگر درجنوں حکومتی شخصیات بھی مفتی منیب الرحمٰن کے بجائے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی تقلید پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ جس وقت مفتی منیب الرحمٰن صاحب اعلان کررہے تھے کہ چاند نظر آنے کی شہادت نہیں ملی اسی وقت لنڈی کوتل میں وفاقی وزیر مذہبی امور کی مسجد میں لوگ تراویح کی تیاری کررہے تھے۔ اب اس کمیٹی سے بڑھ کر متنازع مذہبی کمیٹی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کی اطاعت وزیر مذہبی امور بھی نہ کرے۔ مفتی صاحب میری سہولت کو ہرگز نہ دیکھیں لیکن اپنا فیصلہ کم از کم اس وفاقی وزیر مذہبی امور سے تو منوا لیں جن کی وزارت کے وہ ماتحت ہیں اور جو ان کے ہم مسلک بھی ہیں۔

مفتی منیب الرحمٰن صاحب بالکل درست فرماتے ہیں کہ رویت ہلال یا کسی اور شرعی معاملے کو کسی اینکر کی مرضی کے تابع نہیں کیا جا سکتا اور شریعت کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ شریعت کا منشا صرف مفتی منیب الرحمٰن صاحب ہی جان سکتے ہیں۔ کیا اس ملک میں کوئی اور دوسرا عالم نہیں جو ان کی طرح متنازع نہ ہو۔ کیا اس ملک میں قحط العلما ہے؟ آخر اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے۔ ہمارےہاں تو اگر کسی مسجد کے مقتدیوں میں سے تین بندے امام پر اعتراض کریں تو وہ امامت چھوڑنے میں دیر نہیں لگاتا۔ ہمارے مفتی صاحب کے فیصلے پر اگر ہر سال ان جیسے سینکڑوں علما معترض ہوتے ہیں اور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور سمیت کئی وزرا بھی ان کے فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو اس منصب سے چمٹے رہنا کیا ان کے پائے کے بڑے عالم دین کو زیب دیتا ہے؟ میں ہر سال اپنے علاقے اور مقامی علما سے بغاوت کر کے مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی کمیٹی کے فیصلے پر عمل اس لئے کرتا ہوں کہ میرے نزدیک وہ ریاست کے ایک حکم پر بنی ہے لیکن یہ کیا تماشہ ہے کہ ریاست کے وزیر مذہبی امور نورالحق قادری صاحب اس معاملے میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ مذہبی معاملہ فواد چوہدری اور مفتی صاحب کے سپرد کر رکھا ہے۔ وہ ہمت کرکے اپنے کابینہ کے رکن کے ساتھ کھڑے ہوجائیں یا پھر اپنے ہم مسلک مفتی منیب الرحمٰن کے ساتھ۔ اگر ایک ساتھ روزہ رکھنا اور عید منانا ضروری ہے تو پھر ہماری حکومت افغانستان اور دیگر عرب ممالک کی طرح سعودی عرب کی اقتدا کیوں نہیں کرتی اور اگر ایک ساتھ منانا ضروری نہیں تو پھر اس کمیٹی کو ختم کر کے ملک کے شہریوں کو آزاد کیوں نہیں چھوڑا جاتا کہ جس شہر کے لوگوں کو جب اطمینان ہوتو روزہ رکھے اور عید منائے۔ اگر سائنس پر اکتفا کیا جا سکتا ہے تو پھر فواد چوہدری کے کیلنڈر کو اپنا لیا جائے اور اگر ساتھ رویت بھی ضروری ہے تو پھر اسلامی نظریاتی کونسل کو ذمہ داری دی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی اور غیرمتنازع ادارہ ہے۔ اس میں تمام مسالک کے نمائندے بیٹھے ہیں۔ وہ سائنس سے بھی مدد لے اور رویت کی شہادتیں بھی اکٹھی کرے۔ متنازع ترین رویت ہلال کمیٹی کی الگ دکان کی کیا ضرورت ہے؟ کونسل کو ذمہ داری سونپنے کے بعد حکومت سختی سے مفتی شہاب الدین پوپلزئی جیسے لوگوں پر بھی پابندی لگائے اور رویت ہلال کمیٹی کو بھی ختم کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے