ہم جس دور میں زندہ ہیں اسے ٹرانزیشن کا دور کہا جائے تو شائد غلط نہ ہوگا۔ ہماری زندگی اور سماج میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ نئے ٹرینڈز کو اپنانے کا جنون ایک طرف ہے تو دوسری طرف روایات کو ساتھ گھسیٹنے کی کوشش۔
اس تبدیلی اور بدلاو کے دور کی ایک خاص بات کنفوژن کا وجود میں آنا ہے ایک طرف ہم محنت کی عظمت کے گن گاتے ہیں تو دوسری طرف یہ اعتراض کہ کوئی طالب علم محنت کرنے کے بعد اپنا خرچ اٹھا رہا ہے تو یہ نا مناسب ہے۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ بچوں میں اعتماد ہونا چاہیے ان کے ٹیلنٹ کو سامنے آنا چاہیے تو دوسری طرف اگر کوئی بچہ میڈیا پہ پروموٹ ہو رہا ہو تو کہتے ہیں کہ اس کے والدیں چند روپوں کے عوض چائلڈ لیبر میں انوالو ہو رہے ہیں۔ ایک طرف عورت کی آزادی کا راگ الاپتے ہیں تو دوسری طرف روزگار کی خاطر ٹیکسی یا رکشہ چلانے والی خواتین کو ترس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
ہمارے ہاں اولاد ساری زندگی ماں باپ کا بوجھ بنی رہتی ہے ۔یہ تصور ہی نہیں ہے کہ اٹھارہ سال کا نوجوان اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ خود اپنا خرچ اٹھا سکے۔ یہاں الٹ حساب ہے گریجوایشن کا ڈگری ہولڈر یہ سوچتا ہے کہ ایم ایس یا پی ایچ ڈی کے بعد ہی کمانا شروع کرے گا اور شائد پہلی ملازمت میں ہی ارب پتی بن جائے گا۔اس اضافی تعلیم کے دوران وہ نہ صرف اپنے والدین بلکہ سماج پہ بھی بوجھ رہتا ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے سولہ سال تعلیم کے حصول میں صرف کیے ہوں اسے یہ تک نہ پتہ ہو کہ وہ اپنی اضافی تعلیم کی سمیسٹر کی فیس تک کیسے کما سکتا ہے ۔تو وہ تعلیم بے فائدہ نہیں تو اورکیا ہے۔ اس پہ زیادہ پتھیٹک یہ صورتحال ہے کہ یہ طلبا سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ معاشرے اور والدین پہ کوئی احسان عظیم کر رہے ہیں۔
وہ لوگ بھی سامنے آتے ہیں جن کے پاس ہنر ہے یا جو تحقیقی کام کرتے ہیں لیکن انہیں بھی مالی مدد چاہیے اوروہ اس کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ معاملات میں اس کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن یہی ہنر انہیں خوداری سے کمانے کے کام کیوں نہیں آتا۔
یہی حالات ان شاعروں ،ادیبوں،فنکاروں کے حوالے سے سامنے آتے ہیں جو اب بڑھاپے کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے یا جنہیں وقت کے ساتھ نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ ان کو امداد دی جائے۔ مانا یہ حکومت کا کام ہے لیکن ایسی تخلیقی صلاحیت کا کیا فائدہ ہے جو آپ کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہ سکھا سکے۔جس کے ہوتے ہوئے آپ اتنا نہ سیکھ سکیں کہ خود کو سپورٹ کیسے کرنا ہے ۔ ۔۔ہم نے طے کر لیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو رٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گیا ہے اسے زندگی سے بھی مکمل رئٹائرڈ ہو جانا چاہیے اگر وہ کوئی کام اپنی ضرورت یا مصروفیت کی خاطر کرتا ہے تو اس سے ہمدردی رکھنا ہمیں اپنا فرض لگتا ہے۔
جبکہ بہت سے شعبے ایسے جن میں عمر کے ساتھ اور تجربے کی بنیاد پہ نکھار آتا ہے۔ ان میں برٹرنڈ رسل کے مطابق سیاست اور وکالت شامل ہیں۔اگر کوئی اپنی خوشی یا ضرورت کے تحت کام کرتا ہے چاہے وہ وائٹ کالر جاب نہ ہی ہو تو ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اسکی تصویر سوشل میڈیا پہ شئیر کرکے بجائے کام سراہنے کے ترس بھرے بول لکھیں۔
بے چارگی اور ترس ہمارے معاشرے کا لازمی جزو ہے ۔ مظلومیت کا لبادہ جو معجزہ دکھا سکتا ہے شائد وہ کسی ہنر،تخلیق یا تحقیق سے ممکن نہیں ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ان لوگوں کی تعریف کریں انہیں نمایاں کریں ہمیں زیادہ بہتر یہ لگتا ہے کہ ان کے فن یا ہمت کے سامنے ایک چادر بجھا دیں جہاں لوگ ترس کی خیرات ڈالیں۔
ہمیں محنت سے کام کرنے والے بے چارے کیوں لگتے ہیں۔ ہم ان کے متعلق یہ گمان کیوں رکھتے ہیں کہ وہ مختلف ہونے کی بجائے ہمارے سماج کے رنگ میں نہ رنگنے کی وجہ سے قابل ترس ہیں۔ہماری سوچ اتنی منفی کیوں ہے کہ ہم مثبت چیز کو بھی منفی رنگ میں دیکھتے ہیں ۔
ہم بہت ہی عجیب اور کنفیوز لوگ ہیں۔ ہمیں ہر بات کو الجھا کے دیکھنے کی عادت اتنی پختہ یو چکی ہے کہ کسی بھی بات کو نہ سمجھنا چاہتے ہیں نہ اس کے ا صل رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔مثبت سوچ اور عمل کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے ۔ نہ جاننا چاہتے ہیں۔ہمت ،حوصلہ اور زندگی کا سامنا کرنے جرات قابل تعریف عمل ہے نہ کہ اس پہ منفی رائے دے کے ان لوگوں کا حوصلہ بھی پست کیا جائے جو یہ صحت مند طرز زندگی اپناتے ہیں۔