’یومِ تکبیر‘ اور تاریخ کے چور

تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے اپنے چہرے مسخ ہو جاتے ہیں۔ اِس کا ادراک اُس کو نہیں ہو سکتا جو لمحۂ موجود میں پیدا ہوتا، جیتا اور پھر مر جاتا ہے۔ تاریخ کا شعور رکھنے کے لیے اپنی تاریخ کا ہونا ضروری ہے۔
28 مئی 1998ء کو پاکستان اعلانیہ ایٹم قوت بنا۔ جس نے ایٹمی ہتھیار ایجاد کیے، اس نے عالمِ انسانیت کے ساتھ ظلم کیا۔ اس رائے کے باوجود، میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا جواز تسلیم کرتا ہوں۔ مسابقت کی اس دنیا میں طاقت کا توازن، پُرامن زندگی گزارنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ قرار دیا جائے تو ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے‘ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، قیامِ امن کے لیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا جواز موجود ہے۔
بطور واقعہ اس کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس پروگرام کا آغاز اور اسے جاری رکھنا آسان نہیں تھا۔ یہ ایک دنیا کو اپنا مخالف بنانا تھا۔ یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا تھا۔ اس پروگرام کی ایک تاریخ ہے۔ اس کے کئی ابواب ہیں۔ یہ تاریخ کی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس کا پہلا باب ذوالفقار علی بھٹو اور آخری محمد نواز شریف نے لکھا۔ حیرت ہے کہ آج کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس تاریخ کا انکار کرتے ہیں۔ وہ تاریخ جو صدیوں پرانا کوئی قصہ نہیں جو ایک یا دو راویوں کی معرفت سے ہم تک پہنچا۔ یہ تو ماضی قریب کا واقعہ ہے، جس کے کروڑوں عینی شاہد آج بھی موجود ہیں۔ بھٹو کے معاصرین آج بھی زندہ ہیں اور 1998ء تو ابھی کل کی بات ہے۔ اس تاریخ کو جھٹلانے کی جرأت وہی کر سکتا ہے‘ جس کی اپنی کوئی تاریخ نہ ہو۔
ہمارا معاشرہ ایسے جری لوگوں سے مملو ہے جو تاریخ کو جھٹلاتے اور پھر اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ہم محبت اور نفرت کی انتہاؤں میں جیتے ہیں۔ کسی شخصیت کو کلی طور پر قبول کرتے ہیں یا پھر کلی طور پر رد۔ ہم انسانوں کو انسان نہیں، دیوتا سمجھتے ہیں یا شیطان۔ بھٹو صاحب کے بارے میں یہ معاشرہ طویل عرصہ اسی افراط و تفریط میں مبتلا رہا۔ آج یہی معاملہ نواز شریف صاحب کے ساتھ ہے۔ آج تو ریاست بھی اس دن کے ذکر سے گریزاں ہے جو ہماری قومی زندگی کے اہم ترین دنوں میں سے ایک دن ہے۔ سبب شاید یہ ہے کہ اسے تاریخ نے نواز شریف سے منسوب کر دیا ہے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ آج مریم نواز صاحبہ ایٹمی پروگرام کی تاریخ میں بھٹو صاحب کی کردار کا اعتراف کر رہی ہیں۔ خواجہ آصف صاحب نے قومی اسمبلی میں ان کو سراہا۔ میری دعا ہے کہ یہ سب کسی نظریہ ضرورت کے تحت نہ ہو۔ یہ پیپلز پارٹی سے وابستہ کسی وقتی مفاد کا اظہار نہ ہو بلکہ تاریخ کے معروضی مطالعے کا نتیجہ ہو۔ کل اگر پیپلز پارٹی کی مخالفت کرنا پڑے تو نون لیگ تاریخ کو مسخ نہ کرے، اس بیانیے پر قائم رہے۔
سیاست کے معیار کو بلند کرنے کے لیے اعلیٰ ظرف لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کہ آج ہمارا ظرف ایسے سیاست دانوں سے خالی ہو رہا ہے۔ ہماری شاندار روایات ایک ایک کر کے ہمارے گھر سے رخصت ہو رہی ہیں۔ آج اس گھر کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ تو موجود ہیں، اخلاقی سرحد کا رکھوالا کوئی نہیں۔ بے اخلاقی کے لشکر آئے دن اسے پامال کرتے ہیں اور کوئی ان کا راستہ روکنے والا نہیں۔
انسان فطرتاً ماضی پرست ہے۔ یوں بھی واقعہ ہو یا شخصیت، جب ماضی کا حصہ بنتے ہیں تو ان کے بارے میں ہماری رائے بدلنے لگتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ براہ راست ہمارے مفادات پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ انسان کا اخلاقی امتحان یہ ہے کہ وہ معاصر شخصیات اور واقعات کا دیانت کے ساتھ جائزہ لے سکے۔ وہ اپنے عہد کے لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف کر سکے۔
ماضی میں ہم سب سے غلطیاں ہوئیں۔ ہم اپنے اپنے تعصبات میں جیتے رہے۔ بحیثیت مجموعی، ہم آج بھی اس سے نکل نہیں سکے۔ یہ رویہ تاریخ فہمی میں ایک حجاب بن جاتا ہے۔ تاریخ بھی جب نظریاتی ہو جاتی ہے تو اس میں معروضیت نہیں رہتی۔ آج مسلم معاشروں میں اگر فرقہ واریت ہے تو اس کا ایک سبب یہ ہے کہ تاریخ کو ہم اپنے قائم شدہ نظریات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ صرف ان واقعات کا انتخاب کرتے ہیں‘ جو ہمارے موقف کی تائید کرتے ہوں۔ فرقہ واریت کا معاملہ یہ ہے کہ ایک واقعہ ماضی کا حصہ بن کر بھی ہمارے آج کے مفادات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس لیے ماضی کو مسخ کرنا ہمارے معاشرے میں ایک جاری عمل ہے۔ تاریخ کا مطالعہ جب معروضیت کے ساتھ ہو گا، فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔
‘میثاقِ جمہوریت‘ ایک ایسی دستاویز تھی جو اس رویے سے برات کا اعلانِ عام تھا۔ افسوس کہ ہمارے اہلِ سیاست اس کی روح سے وابستگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ جنہوں نے اِس پر دستخط کیے، انہوں نے بھی گروہی مفادات کے تحت اس کی حرمت پامال کی۔ جب یہ لوگ سیاسی مخالفین کو گلیوں میں گھسیٹنے کا اعلان کرتے ہیں تو ان کے یہ الفاظ ان کا پیچھا کرتے ہیں۔
پاپولزم کی سیاست تو کھڑی ہی روایت شکنی پر ہے۔ وہ تو ہر نقشِ کہن مٹا دینے کا اعلان ہے۔ پاپولزم دراصل انقلابی سوچ کو جمہوری لباس پہنانے کا نام ہے۔ انقلاب کی تو روح ہی یہی ہے کہ پرانی بنیادوں پر نئی عمارت استوار نہیں ہو سکتی۔ پہلے سب کچھ گرانا انقلاب کا پہلا سبق ہے۔ یہی سوچ جب جمہوریت میں اپنا رنگ دکھاتی ہے تو ٹرمپ اور عمران خان جیسے رہنمائوں کا ظہور ہوتا ہے۔
آج ہماری سیاست ایک بار پھر دو راہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف روایتی سیاسی جماعتیں ہیں، جن میں باہمی احترام کا کلچر آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ کہنا ممکن ہے قبل از وقت ہو۔ اس کا اصل امتحان تو انتخابات میں ہو گا‘ لیکن چونکہ اس کے شواہد موجود ہیں کہ نواز شریف جیسے سیاسی کرداروں نے ماضی سے سیکھا ہے، اس لیے گمان کیا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوں کی سیاست پر اس اندازِ سیاست کا اثر ہو گا۔
دوسری طرف وہ راستہ ہے جس پر تحریکِ انصاف چل رہی ہے۔ اگرچہ اس کی سیاست تضادات کا مجموعہ ہے لیکن بات یہ ماضی شکنی کی کرتے ہیں۔ ماضی کی بہت سی شخصیات کو گلے لگانے کے باوجود، عمران خان سیاسی اعتبار سے نیم خواندہ لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہیں کہ وہ غیر روایتی سیاست دان ہیں اور ہر نقشِ کہن کو مٹانے کے لیے آئے ہیں۔ اس کوشش میں تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔ اس کا اظہار یومِ تکبیر کے حوالے سے نواز شریف صاحب کے کردار کی نفی ہے۔ گویا پرانے نقوش میں تاریخ بھی شامل ہے۔
تاریخ کا ایک تجزیہ وہ ہے جو اہلِ علم کرتے ہیں۔ وہ تاریخی واقعات کے تسلسل میں ایک رجحان (Pattern) تلاش کرتے اور یوں کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں۔ جیسے ابن خلدون یا جیسے ٹوئن بی۔ یہ لوگ واقعات کو مسخ نہیں کرتے۔ دوسرا رویہ سیاسی یا مفاد پرست لوگوں کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ تاریخی واقعات کو مسخ کرتے اور انہیں اپنے تصورات میں ڈھالتے ہیں۔
یہ سب کیسے ہوتا ہے، کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کے بارے میں مذہبی جماعتوں کے نئے اور پرانے بیانیوں کا موازنہ کر کے دیکھ لے۔ ‘یومِ تکبیر‘ بھی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آخری باب ہے جو نوازشریف سے معنون ہے۔ لوگ جس بے دردی سے اس کو مسخ کرنے کے درپے ہیں، مجھے ان کی جرأت پر حیرت ہے۔ جو لوگ یہ کر سکتے ہیں، وہ اور کیا نہیں کر سکتے؟
یہ مذہب ہو یا سیاست، واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کو اپنے مفادات کی لونڈی سمجھنے والوں کا دور گزر چکا۔ آج کا انسان جس فطری آزادی کے دور میں زندہ ہے، اسے ورغلانا یا دھوکہ دینا آسان نہیں رہا۔ اب تاریخ کو مسخ کرنا اپنا چہرہ مسخ کرنا ہے۔ جو لوگ اس کارِ خیر میں مصروف ہیں، انہیں عوامی آئینے میں اپنا چہرہ ضرور دیکھنا چاہیے۔ چور چور کے شور میں یاد رہے کہ کچھ تاریخ کے بھی چور ہوتے ہیں۔ وہ کتابِ تاریخ کے اوراق چوری کر لیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے