سرینگر سے تعلق رکھنے والے یوسف بچھ صاحب جو اپنی ذہانت، فطانت ، گہرے مطالعے ، تاریخ کشمیر کے انسایکلو پیڈیا مانے جاتے تھے، انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز کشمیر سول سروس سے کیا لیکن مقبوضہ کشمیر حکومت کی ملازمت چھوڑ کر آزاد کشمیر تشریف لائے جہاں وہ کچھ عرصہ کے لئے میر واعظ کشمیر مولوی محمد یوسف صاحب کی حکومت میں شعبہ ابلاغیات کے ساتھ منسلک رہے ، اسی دوران اقوام متحدہ کی طرف سے منعقدہ مقابلے کے مضامین میں نمایاں کامیابی کے بعد 1953 میں نیویارک چلے گئے، جہاں وہ اقوام متحدہ میں نامہ نگار کے طور شامل رہے اور ساتھ ہی فری کشمیر کے نام سے ایک ادارہ بھی چلاتے رہے-
1972 میں پاکستان کے وزیر اعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ساتھ سپیشل اسسٹنٹ مقرر کیا اور اس کے بعد سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے سفیر مقرر کیے گئے . اس کے بعد یو این سیکریٹری جنرل نے انہیں اپنا سینئر ایڈوائزر مقرر کیا جہاں کافی عرصہ تک کام کرتے رہے-
میں ان کو ذاتی طور جانتا ہوں نہ ہی کبھی ان سے ملا ، لیکن ان کی اہلیت، قابلیت ، ذہانت اور کشمیر ایشو پر ان کی دست رس کا ہر شخص سے چرچا سنا – درج بالا انفارمیشن میں نے ان کی وفات کے بعد پاکستانی اور کشمیری اخباروں سے حاصل کی- میں نے گوگل پر بار بار ان کے بارے میں انفارمیشن حاصل کرنے کی سعی کی لیکن ان کی فوتیدگی کی خبروں کے ساتھ ان کی تعریف اور توصیف کے علاوہ کچھ نہیں پا سکا کہ ان کا کشمیر کے بارے میں ایک ڈپلومیٹ کے طور فرائض کی ادائیگی ، یو این میں پاکستانی وفود اور ڈپلومیٹس کی کشمیر پر معاونت کے علاوہ کوئی تھیوری، کوئی نظریہ ، کوئی تحقیقی مقالہ ، کوئی کتاب یا مضمون کے طور کوئی ایسی دستاویز ہے جس سے رہنمائی حاصل کی جا سکے اور قومی اثاثے کے طور محفوظ ہو ، لیکن کچھ نہ پا سکا – میرا خیال ہے کہ ان کی اعلی صلاحیتیں اور خدمات سینہ در سینہ ہی منتقل ہوتی چلی آرہی تھیں اور بالآخر ان کے ساتھ دفن بھی ہو گئیں، اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے- آمین –
آزاد کشمیر حکومت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی میت ان کے دوستوں کے ذریعہ مہیا ہونے والی مبینہ وصیت کے مطابق مظفر آباد میں دیگر دو کشمیری اکابرین میر واعظ یوسف شاہ اور کے ایچ خورشید کے مقبروں کے ساتھ ہی سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کی – جنازے میں پاکستاناور آزاد کشمیر کی سیاسی اور سرکاری قیادت کے علاوہ حریت کانفرنس کی بھر پور نمائندگی تھی ، جنہوں نے مرحوم کی خدمات کوخراج تحسین پیش کیا اور ان کی رحلت کو بہت بڑا نقصان قرار دیا –
میں اپنا اصل مدعا بیان کرنے سے پہلے ایک لطیفہ نما واقعہ سنانا چاہتا ہوں- آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مرحوم راجہ محمد خورشید خان نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج مرحوم ملک محمد اسلم کی مدت ایڈہاک ختم ہونے کے بعد ان کے اعزاز میں عدالتی رسم کے مطابق فُل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا، جس میں وکلاء ، ججوں ، بالخصوص چیف جسٹس نے ان کی شرافت، متانت ، معاملہ فہمی، دیانتداری کی مبالغہ کی حد تک تعریفیں کیں، گوکہ وہ اس کے بلا شک و شبہہ مستحق بھی تھے- اس وقت ان کی عمر تریسٹھ سال تھی اور وہ دو سال مزید سپریم کورٹ میں کام کر سکتے تھے – انہوں نے جواب میں سب کا شکریہ ادا کرکے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”اگر مجھ میں اتنی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں تو ان کی بناء پر چیف جسٹس مزید دو سال تک میری صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کر سکتے تھے.” اس کے بعد یہ شعر پڑھا:
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا
اگر یوسف بچھ صاحب کو اس وقت اللہ گویائی دے دیتے تو وہ یقینآ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سرکاری اور سیاسی قیادت کو جو ان کے جنازے میں موجود تھے کہتے: ” اگر مجھ میں اتنی خو بیاں تھیں جو آپ نے بیان کیں ، تو آپ مجھےکشمیر کے لیے پاکستان کی طرف سے دنیا بھر میں خصوصی سفیر مقرر کرکے خدمات حاصل کر سکتے تھے -”
ہمارے ملک میں کسی بھی نامور آدمی کی قدرتی یا حادثاتی موت ایک جشن کا سماں پیدا کرتی ہے، اس کا جنازہ ایک جلسہ اور ایک ایونٹ بن جاتا ہے ، جس میں وقتی جوش و جذبات میں مغلوب رسمی کلمات ادا کیے جاتے ہیں ، خواہ وہ کہنے سننے والے کا مقصد ہو نہ ہو ، اور چند دنوں کے بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے –
بچھ صاحب جیسے مبینہ طور نابغہ روزگار شخصیت سے ان کے علم وفضل، دانش ، عقل اور تجربہ کا کشمیر کے حوالے سے فائدہ اٹھانے کا کبھی کسی سیاست دان اور حکمران کو خیال نہیں آیا، اب وہ چلے گئے ہیں، ممکن ہے ان جیسے اور لوگ نہ ہوں لیکن جو ہیں ، اس کوتاہی کا کفارہ ان کی خدمات حاصل کرکے ادا کیا جا سکتا ہے ، ان کی اہلیت و قابلیت کے اعتراف کے لیے ان کے مرنے کا انتظار نہ کیا جائے، ان کی زندگی میں ہی اس وسعت قلبی کا ثبوت دیا جائے اور اس کام کے لیے ان جیسے کام کرنے والے دوسرے لوگوں سے فائدہ اٹھائیں ، ان شخصیات میں غلام نبی فائی ، فاروق کاٹھ واڑی ، ترنبو، نظیر گیلانی، لارڈ نذیر ، لارڈ قربان، راجہ مظفر اور نہ جانے ان جیسے کتنے اور اہل لوگ موجود ہوں جو بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی اداروں کے پروسیجر سے واقف ہونے کی بناء پر کیرئیر ڈپلو میٹس سے بہتر کام کر سکتے ہیں –
اچھی حکمرانی کی پہلی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ کام اس کے سپرد کیا جائے جو اس کو جانتا اور سمجھتا ہو، اس میں ذاتی وابستگی اور وفاداری نہیں بلکہ اس کی اہلیت ہی معیار ہونا چاہیے، بھلے ایسا شخص حکمران وقت کا وفادار اور ہم خیال ہو یا نہ ہو- امریکہ میں اکثر ایسا ہوتا رہا کہ حکومت ایک جماعت کی ہوتی تھی لیکن سیکریٹری آف دی سٹیٹ مخالف جماعت کے ہوا کرتے تھے-
گر قبول اُفتد زہے عز و شرف