حضرت شیخ بن ہانیؒ ‘اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث سنی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو پسند فرماتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کو ناپسند کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص سے ملاقات کرنے کو ناپسند کرتے ہیں‘‘۔گزارش یہ ہے کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جو موت کو ناپسند نہ کرتا ہو؟
(کیونکہ موت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سے ملاقات ممکن ہے) اس پر حضرت عائشہؓ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا ” کوئی شک نہیں اللہ کے رسولؐ کا فرمان ایسے ہی ہے ‘مگر اس فرمان کا تعلق ان لمحات سے ہے جب انسان پر موت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کی نگاہ اوپر کی جانب اٹھ جاتی ہے۔ سینے میں سانس اکھڑ رہی ہوتی ہے۔ جِلد پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انگلیاں ٹیڑھی ہو کر اکڑ جاتی ہیں تو اس وقت (موت کے فرشتے کو دیکھ کر) جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتے ہیں اور جو اس وقت (اپنے برے اعمال کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے (برے شخص) سے ملنے کو ناپسند کرتے ہیں‘‘ (مسلم: 2685)۔
قارئین کرام! حضرت عائشہؓ کی بات سے معلوم ہوا کہ بندہ نیک ہو یا گنہگار۔ اللہ پر ایمان رکھنے والا ہو یا انکار کرنے والا ہو۔ ظاہری اور عمومی اصول بہرحال یہی ہے کہ اس پر موت کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو ظاہری علامتیں تقریباً یکساں ہوتی ہیں‘ مگر اندر کی بات یہ ہے کہ مومن خوش ہو رہا ہوتا ہے کہ اللہ سے ملاقات ہونے چلی‘ جبکہ منکر شخص پریشانی کا شکار ہوتا ہے کہ اپنے جسم سے نکل کر مارا جاؤں گا۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ”جمعۃ الوداع‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ مبارک ترین مہینے کا آخری مبارک ترین جمعہ ہم سے الوداع ہو رہا ہے۔ اب اگلے سال کون زندہ رہ کر اس جمعہ کی برکتوں کو حاصل کرے گا۔ کسی کوکچھ پتا نہیں۔ ممکن ہے یہ آخری جمعہ ہو اور اگلے رمضان کا جمعہ تو دوبارہ آئے گا‘ مگر کون موجود نہ ہوگا‘ اللہ ہی کے علم میں ہے۔ چند دن قبل میں اٹک میں تھا۔ افطار پروگرام تھا۔ کیپٹن اسفند یار بخاری شہید کے والد گرامی ڈاکٹر فیاض بخاری بھی پروگرام میں تشریف لائے۔
انہوں نے مجھے ”بڈھ بیر کا ہیرو‘‘ نامی کتاب تحفہ میں دی۔ اسفند یار جب کیڈٹ تھے ‘تو ان کے اساتذہ میںپروفیسر محمد ظہیر قندیل بھی تھے۔ پروفیسر صاحب نے اپنے شہید شاگرد پر تین صد صفحات پر مشتمل کتاب لکھ دی ہے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف اپنے جن سات ہزار کے قریب دلیر بیٹوںکی جانوں کو اللہ کے حضور پیش کیا ہے۔
ان میں کیپٹن اسفند یار نمایاں ترین ہیں۔ یہ مستقبل میں متوقع آرمی چیف تھے‘ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں جو اعزاز دیا‘ ڈاکٹر بخاری مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے یوں اپنے ایمان کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ آرمی چیف یا جرنیل بن بھی جاتا تو ریٹائر ہو کر مزید بوڑھا ہو جاتا اور پھر موت کے منہ میں چلا جاتا ‘مگر اسفند یار کی بات ہی کچھ اور ہے۔
قارئین! میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے تب جو کالم لکھا تھا‘ وہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ تینوں مسلح افواج کی منظوری کے ساتھ دس ہزار کاپیاں پاک افواج کی لائبریوں کی زینت بن کر مستقبل میں ولولہ تازہ دیتی رہیں گی۔افطار پروگرام کے بعد ڈاکٹر فیاض بخاری میرے ساتھ دستر خوان پر بیٹھے ہوئے کہہ رہے تھے۔ میں پتھالوجسٹ ڈاکٹر ہوں۔ ساری زندگی پوسٹ مارٹم کیے۔ موت کے بعد کسی مقتول کا خون رِستا ہوا نہیںدیکھا۔ زمین کی کشش فوراً اثر انداز ہوتی ہے اور مرنے والے کا خون دو تین گھنٹوں میں کمر کی شریانوں میں آ کر جم جاتا ہے‘ مگر کئی گھنٹوں کے بعد بھی اسفند یار کے چہرے کا منظر کیا تھا۔
بریگیڈیئر کامران صاحب کہتے ہیں ”جب اسفند یار شہید کے جسد خاکی کو سی ایم ایچ سے گھر لے جانے لگے تو شہادت کو تقریباً 32گھنٹے گزر چکے تھے۔ کچھ افسران آئے اور انہوں نے دیدار کرنا چاہا تو میں نے جونہی چہرے سے کپڑا ہٹایا تو تازہ خون رِس رہا تھا۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ میرے منہ سے بے اختیار ”سبحان اللہ‘‘ نکلا۔ تمام آفیسرز یہ منظر دیکھ کر اللہ کی قدرت کے نظارے پر دنگ کھڑے دیکھتے جا رہے تھے اور میں کاٹن سے خون صاف کر رہا تھا۔ بخاری صاحب کہتے ہیں” اسفند یار شہید کو گھر لایا گیا تو تب بھی خون رِس رہا تھا۔ قبر میں رکھا۔ میں نے آخری دیدار وہاں کیا تو تب بھی خون رِس رہا تھا۔ میں نے آخری بار خون صاف کیا اور اللہ کے حوالے کر کے چہرہ کھلا چھوڑ دیا‘‘۔
قارئین کرام! کیپٹن اسفند یار شہید کے بابا ڈاکٹر فیاض بخاری کی باتیں میں سنتا چلا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ میرے ذہن میں اللہ کے رسولؐ کے صحابہ کے واقعات تازہ ہو رہے تھے۔ اسفند یار کی ایک خوبی ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتائی کہ جب اس کی تنخواہ کا آغاز ہوا تو اسے کہا گیا کہ ہر مہینے تمہاری تنخواہ سے پیسے کاٹے جائیں گے‘ پھر ریٹائرمنٹ پر یہ کئی گناہ بڑھ کر ملیںگے۔ اسفند یار کہنے لگا: اس کا مطلب ہوا کہ میری اصل رقم کے ساتھ مزید رقم جو ملے گی‘ وہ تو سود ہوگا۔ میں نہیں لوں گا۔ ساتھیوں نے کہا: ریٹائرمنٹ پر چالیس پچاس لاکھ سے محروم ہو جاؤ گے؟ کہنے لگا :میں تو اللہ کے دشمنوں کے خلاف اور پاک وطن کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کیلئے یہاں آیا ہوں۔ میں نے سود کی شکل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف لڑائی شروع کر دی تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے کیا لڑوں گا؟ قارئین کرام! اسفند یار کے بابا کی مذکورہ بات سننا تھا کہ خوشی سے اچھل پڑا۔ جب میں نے ہائی سکول میں ٹیچنگ کا آغاز کیا تو میں نے بھی سود کہہ کر پراویڈینٹ فنڈ کینسل کروا دیا۔
جی ہاں! پراویڈینٹ فنڈ سود ہے یا نہیں‘ اس پر علماء میں اختلاف ہو سکتا ہے ‘جو لیتے ہیں ہم انہیں کچھ نہیں کہتے۔ فتوؤں سے بچنا چاہیے‘ مگر شبہ تو ہے‘ جو شک شبے سے بچ گیا‘ اس کی کیا ہی بات ہے۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ اسفند یار بخاری کے پاکیزہ جسم سے کیونکر خون بہہ رہا تھا۔ جسم ہی پاکیزہ تھا۔ اللہ اللہ!اس موقع پر مجھے حضرت محمد کریمؐ کا فرمان یاد آ رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ”فوت ہونے والے نیک شخص کے پاس جب روح لینے فرشتے آتے ہیں تو کہتے ہیں: اے پاکیزہ روح جو پاکیزہ جسم میں تھی نکل کر ہمارے پاس آ جا۔ تو قابلِ تعریف ہے۔
تجھے خوشیوں اور بشارتوں کی خوشخبری ہے۔‘‘ (ابن ماجہ: 4262 صحیح) پھر جب یہ روح آسمانوں کی جانب پرواز کرتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں: پاکیزہ روح زمین سے آئی ہے۔ اے روح! تجھ پر اللہ کی رحمت ہے اور تیرے اس جسم پر بھی اللہ کا فضل و کرم ہے کہ جس کو تو نے آباد کر رکھا تھا‘ پھر فرشتے اس روح کو لے کر اس کے رب جلیل کی جانب چل پڑتے ہیں (مسلم:2872) ۔آخر پر اس دعا کے ساتھ کالم کا اختتام کرتا ہوں۔ اے مولا کریم! جمعۃ الوداع کے موقع پر ہم اہل پاکستان کے جسموں کو کیپٹن اسفند یار بخاری سیّد شہید کے پاکیزہ جسم کی طرح رزق ِحلال کھانے والا پاکیزہ جسم عطا فرما ‘تا کہ موت کے وقت ہم فرشتوں سے وہ خوشخبری سنیں جو پاکیزہ روح اور پاک جسم کو ملتی ہے۔