فلسطین ایک ایسا خطہ زمین ہے جس کے باسی آزادی کا سانس لینے کی خاطر برسوں سے یہودی سفاکیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ عورت، مرد، بچے اور بوڑھے کی تمیز کئے بغیر فلسطین کا ہر فرد اسرائیلی جارحیت کیخلاف کھڑا ہے اور کسی بھی نتیجے کی پروا کئے بغیر حصول آزادی کیلئے جان کی بازی تک لگانے کو تیار ہے۔
جنگ عظیم اول سے پہلے فلسطین 400سال تک عثمانیوں کی سلطنت کا حصہ رہا۔ یہاں مسلمان زیادہ جبکہ عیسائی اور یہودی کم تعداد میں آباد تھے۔ 1880میں فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد جو کہ یی شوو کہلاتے تھے کل آبادی کا صرف تین فیصد تھے۔ جنگ عظیم اول کے آخر میں جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر یہودی ریاست کے قیام کا منصو بہ شروع کر دیا۔ اِس دوران یہودیوں نے 27اگست 1897میں سوئٹزر لینڈ میں صیہونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صیہونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔
بعد ازاں یہودیوں نے انجمن محبّین صیہون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ تنظیم چلانے والا گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جب 1948میں اسرائیل کے قیام کی باقاعدہ منظوری دی گئی تو فلسطینیوں سے اُنکے الگ آزاد وطن کے قیام کا وعدہ کیا گیا لیکن اب انہیں کہا جا رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو بھول جاؤ اور اسرائیل کی ریاست کے شہری بن جاؤ اور وہ بھی تیسرے درجے کے شہری۔ اسرائیل نے خونِ مسلم کو ارزاں سمجھ رکھا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ 1948سے آج تک آزادی مانگنے کے جرم میں لاکھوں فلسطینیوں کو کو شہید کر چکا ہے اور 7لاکھ سے زائد بے گھر ہیں لیکن اُن کے جذبہ آزادی میں آج تک کوئی کمی نہیں آئی۔
فلسطینی نوجوان جانتے ہیں کہ ان کا مقابلہ دنیا کی جدید ترین مسلح فوجی طاقت سے ہے۔ جس کے پیچھے تمام بڑی طاقتیں کھڑی ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی پاس نہ تو ہتھیار ہیں اور نہ ہی مسلح فوجی طاقت بلکہ ان کے اندر آزادی کا جذبہ ہی وہ واحد طاقت ہے جو کہ انہیں لڑنے اور مزاحمت کرنے پر اکساتی ہے۔ ان کے پاس تو پتھر ہیں، پتنگیں ہیں اور ٹائر ہیں جنہیں جلا کر وہ ان کا دھواں اسرائیل کی طرف بھیجتے ہیں اور جواب میں انہیں سیدھی گولیاں ماری جاتی ہیں۔ وہ تو آنسو گیس کے شیل ٹینس ریکٹوں سے واپس اسرائیل کی طرف پھینکتے ہیں۔ وہ تو بس اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں آزادی چاہئے۔ دنیا اپنے وعدے کو پورا کرے۔ فلسطینی نوجوان انسانی جذبے، ہمت اور بہادری کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔
وہ ناقابل برداشت اذیتوں، تکالیف اور حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اسرائیلی بندوقوں اور گولیوں کا مقابلہ اپنے عزم، انقلابی ولولے اور حوصلے سے کر رہے ہیں۔ وہ روز اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے ہیں، انہیں دفن کرتے ہیں اور دوبارہ اسرائیلی جارحیت، سفاکیت اور قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ وہ ہر روز اس عزم اور ارادے سے احتجاج کے لئے نکلتے ہیں کہ شاید سویا ہوا عالمی ضمیر جاگ جائے اور اسے اسرائیلی مظالم اور ریاستی دہشت گردی نظر آ جائے۔
فلسطین کا تاحال حل طلب مسئلہ عالمی ضمیر، شعور اور فکر پر ایک بوجھ ہے۔ فلسطینیوں کو 70برس سے مسلسل ناانصافی، جبر، سفاکیت اور ریاستی تشدد کا سامنا ہے۔ یہ جمہوریت، اعلیٰ انسانی اقدار، انسانی حقوق، آزادی اور برابری کے عالمی دعویداروں کے لئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ ان کی منافقت اور جھوٹے وعدوں کی ایک مثال ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بانیوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو یوم القدس کے طور پر منانے کی دعوت دی تھی۔ جس کے بعد دنیائے اسلام نے یوم القدس کو بھرپور طریقے سے منعقد کرنا شروع کر دیا اور یوں فلسطینیوں کو نئی ہمت اور حوصلہ ملا، یہی وجہ ہے کہ اب فلسطینی عرب یا خلیجی ریاستوں کی مدد اور امریکہ و اسرائیل کی مخالفت کی پروا نہیں کرتے۔ آج اس وقت جب ساری خلیجی ریاستیں امریکہ و اسرائیل کی گود میں جا کر بیٹھ گئی ہیں، اس کے باوجود فلسطینی بچے پتھر لے کر ٹینکوں سے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر برسانا دراصل طمانچہ ہے ان ممالک کے منہ پر جو فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر امریکہ و اسرائیل کی دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ بلاشبہ فلسطینی، غلامی کے باوجود آزاد اور بہادر ہیں جبکہ فلسطینیوں سے غداری کرنے والے آزادی کے باوجود غلام اور بزدل۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے مسلم ممالک کے پلیٹ فارم او آئی سی کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہو کیونکہ او آئی سی کے قیام کی ایک بڑی وجہ مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش تھی، جس کا تعلق فلسطین پر اسرائیلی قبضہ سے تھا۔ او آئی سی کا مقصد یہ تھا کہ تمام مسلم دنیا مل کر ایک جگہ جمع ہوگی تو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا آسان ہوگا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جہاں تک ہمارے جذبات کا تعلق ہے تو اپنے کسی پر چڑھ دوڑنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ اگر ہم کسی قابل ہوتے تو یہ سب ہوتا ہی کیوں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اللہ تعالی نے پچاس سے زائد اسلامی ممالک کی صورت میں عمل کا جو میدان دیا ہے اُسے استعمال میں لاتے ہوئے آج عالمی اداروں بالخصوص امریکہ کو فلسطین کی آزادی کا وعدہ یاد کروایا جائے تاکہ فلسطین میں چھائی ظلم کی تاریک رات ختم ہو اور وہاں آزادی کا سورج طلوع ہو سکے۔ آج جمعہ ہر دکھ درد کی دوا بس دورد مصطفیٰؐ 80بار ضرور پڑھ لینا۔