ایک سنسنی خیز وڈیو کی رونمائی کی وجہ سے اُٹھا طوفان ابھی پوری طرح تھما ہی نہیں تھا کہ وزیرستان والا واقعہ ہوگیا۔ اس کے بعد چند عزت مآب ججوں کے خلاف ریفرنسز دائر ہونے کی خبر آگئی اور بدھ کے روز بلاول بھٹو زرداری نیب کے دفتر پیش ہونے گئے تو اسلام آباد میں ہنگامہ ہوگیا۔
نظر بظاہر ان تینوں معاملات کا ایک دوسرے سے تعلق نہیں۔ ان تینوں کو مگر ایک ساتھ رکھ کر غور کریں تو گماں ہوتا ہے کہ عمران حکومت بیک وقت کئی محاذ کھول بیٹھی ہے اور یہ سب نیا بجٹ متعارف کروانے سے قبل ہورہا ہے۔
منطقی ذہن کے ساتھ حکومتی معاملات پر نگاہ رکھنے والوں کا خیال تھا کہ کئی ماہ کے انتظار کے بعد بالآخر IMFسے رجوع کرنے کو مجبور ہوئی حکومت مہنگائی کے طوفان سے پریشان ہوئے عوام کے دلوں میں اُبلتے غصے سے گھبرا گئی ہوگی۔
اسلام آباد میں ایک افطار ڈنر بھی ہوچکا ہے۔ حکومت مخالف جماعتوں کی اکثریت وہاں موجود تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو اس ڈنر میں اختیار دیا گیا کہ وہ اسلام آباد میں دھرنے کی تیاری کے لئے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کریں۔ شاید یہ کانفرنس آئندہ بجٹ پیش کرنے کے دو یا تین روز بعد منعقد ہو۔ یہ بات عیاں ہے کہ اس کانفرنس میں ممکنہ نئے ٹیکسوں کے اضافی بوجھ کو نامنظور کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں دھرنے کی حتمی تاریخ بھی وہاں طے کردی جائے گی۔
مجوزہ دھرنے کی حتمی تاریخ سے قبل قومی اسمبلی کو بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعتیں دھواں دھار تقاریر سے گرمائے رکھیں گی۔ اسمبلی میں بنا ماحول اختر مینگل اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین کو بجٹ کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ دینے کے بجائے اس سے لاتعلقی کے اظہار کو اُکسا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم سے مجھے یہ امید نہیں۔ میرا گماں ہے کہ اختر مینگل کی جانب سے ممکنہ طور پر اپنائی لاتعلقی کے باوجود عمران حکومت بالآخر اپنا بجٹ منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ عوام کی اکثریت اس بجٹ کو ہضم کر پائے گی یا نہیں۔
اسلام آباد میں دھرنے کو تلی جماعتوں کو یقین ہے کہ IMFکے اطمینان کے لئے آئندہ بجٹ میں نئے ٹیکسوں کا اعلان عوام ہرگز برداشت نہیں کر پائیں گے۔ کئی مہینوں سے جاری کسادبازاری، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور گیس کے بعد بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے نے انہیں پہلے ہی پریشان کررکھا ہے۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کو اب وہ کسی صورت قبول نہیں کر پائیں گے۔اپوزیشن کی احتجاجی تحریک میں حصہ ڈالنے کو مجبور ہوجائیں گے۔اس تحریک کا حتمی ہدف مگر کیا ہے اس کے بارے میں سوچ واضح نہیں۔ فی الوقت عوامی غصے کے بھرپور اظہار پر تکیہ کیا جارہا ہے۔
پاکستانی سیاست کی تاریخ سے شناسا ذہن مگر اپوزیشن کی جانب سے چلائی تحریک کے نتیجے میں ابھرتے امکانات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ جبلی یا بے ساختہ انداز میں سوچیں تو ہمارے ہاں احتجاجی تحریکیں طویل ہوکر حکومتِ وقت کو اگر ہٹانے میں ناکام رہیں تو اسے سکون سے اقتدار سے لطف اندوز ہونے بھی نہیں دیا۔
مشرف حکومت کو عدلیہ بحالی کی تحریک لے بیٹھی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے ذریعے اس تحریک کو وقتی طورپر دبا دیا گیا تھا۔ نئے انتخابات کے انعقاد کے بعد مگر اس تحریک کا احیاء ہوگیا۔ دو سال کی مزاحمت کے بعد زرداری -گیلانی حکومت افتخار چودھری کو ان کے منصب پر واپس لانے کو مجبور ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کی۔ حکومت کا عالم مگر ’’ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے‘‘ والا رہا۔
نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیراعظم ہوئے تو ان کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد اسلام آباد والا دھرنا ہوگیا۔ یہ دھرنا اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا مگر پشاور کے آرمی سکول میں ہوئے سانحے کے بعد ریاستی فوکس دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی جانب منتقل ہوگیا۔ وفاق اور پنجاب میں نون کی حکومتیں اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتی رہیں۔ سندھ میں لیکن’’احتسابی عمل‘‘ شروع ہوگیا۔ ایم کیو ایم اس کے نتیجے میں اپنے اختتام کو پہنچی۔ پیپلز پارٹی کو بھی اس عمل کی بدولت ایسے جھٹکے لگے جن سے وہ ابھی تک نبردآزما نہیں ہوپائی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ حالیہ ماضی کے ٹھوس حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان، جنہوں نے نواز حکومت کو بے ثباتی کی طرف دھکیلنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، اپنی حکومت کے مستقبل کے بارے میں فکر مند نظر کیوں نہیں آرہے۔ اس سوال کا جواب میں تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت کے کسی اہم رکن سے واضح الفاظ میں حاصل نہیں کر پایا ہوں۔
مختلف لوگوں سے گفتگو کے بعد مگر گماں ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو کامل یقین ہے کہ عوام کی اکثریت اپنی موجودہ معاشی مشکلات کا اصل ذمہ دار ’’باریاں‘‘ لینے والی ان جماعتوں کو ٹھہراتی ہے جنہیں وزیراعظم ’’چور اور لٹیرے‘‘ پکارتے ہیں۔
پاکستان کی احتجاجی تحاریک نے فقط ’’عوام‘‘ کی سوچ پر انحصار شاذہی کیا۔ ہر تحریک کی کامیابی کسی نہ کسی صورت مقامی اور عالمی مقتدر قوتوں کی ترجیحات سے جڑی ہوئی بھی نظر آئی۔ ہماری معیشت قطعی طورپر ڈالر پر مبنی نظام سے وابستہ ہے۔ IMFاس نام نہاد گلوبل معیشت کا حتمی نگہبان ہے۔ اس نگہبان نے پاکستانی معیشت کو ’’بحال‘‘ کرنے کے لئے جو نسخہ تیار کیا ہے اسے ووٹوں کی محتاج کوئی بھی سیاسی حکومت من وعن قبول کرنے سے قبل سوبارسو چتی۔ عمران حکومت نے مگر چند ماہ کی مزاحمت کے بعد اسے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر کو وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا بااختیار مدارالمہام بھی بنادیا۔ موجودہ حکومت کو یقین ہے کہ اس نسخے کے اطلاق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو نام نہاد گلوبل معیشت کے نگہبانوں سے کوئی حمایت نصیب نہیں ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن کے زیر قیادت ہوئے دھرنے کو بلکہ پاکستان میں ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ کے احیاء کی کاوش بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
مقامی اعتبار سے ’’مقتدر‘‘ حلقے بھی اب بخوبی جان چکے ہیں کہ ریاستِ پاکستان کو اپنی بقاء کے لئے سرکاری کھاتوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کے حصول کے ذریعے ’’سیدھا‘‘ رکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ انہیں سیدھا کرنے کے لئے عمران حکومت اپنی مقبولیت کو دائوپرلگانے کو تیار ہے۔اس کے ’’عزم‘‘ کو توانا بنانا ضروری ہے۔
حکومت اور اس کے مخالفین نے اپنے اپنے طورپر جو Calculations کی ہیں وہ فریقین کو کسی سمجھوتے کی تلاش پر اُکسانے کی بجائے ڈٹے رہنے کو مجبور کریں گی۔ہر فریق کے لئے تخت یا تختہ کا مقام آچکا ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔