"الف سے افغانیہ”

یوں تو پختونوں کو بہت سے نام دیے جاتے ہیں لیکن ان میں سے پانچ نام مشہور ہیں۔ پختون، پٹھان، افغان، روہیلہ اور سلیمانی۔اسی طرح پختونوں کا یہ علاقہ جو صوبہ خیبرپختونخوا کے نام سے جانا جاتا ہے، تاریخی کتابوں میں مختلف ادوار کے دوران اسے مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔

مثلاً 1700 قبل مسیح سے 600 ق م تک اس علاقے کو آریانہ کہا جاتا تھا۔ 232 قم کے یونانیوں نے اسے پکتیکا کا نام دیا۔ تیسری صدی عیسوی میں ایرانی ساسانیوں نے "کوشن شاہی” کا نام رکھا تو ہندو شاہی دور یعنی 1000 عیسوی کے دوران اس کا نام گندھارا پڑ گیا۔

ابو ریحان البیرونی نے 1050ء میں اپنی کتاب "الصیدنہ” میں اس علاقے کیلئے "جبال لافغانیا” کا لفظ استعمال کیا۔پشتون لکھاریوں بابا ھوتک، اخوندرویزہ ، خکاروندے، خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا نے "د افغانانو کشور” کا نام دیا ، احمدشاہ ابدالی نے 1747ء میں افغانستان اور پختونخوا کے نام سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔

1901ء میں انگریزوں کے آنے کے بعد اس خطے کو شمال مغربی سرحدی صوبہ(NWFP ) تو کبھی فرنٹیئر کہا گیا۔ جرمن مشن نے جب افغانستان سے مراسلہ جاری کیا تو انگریز کے قبضے میں موجود علاقے کو "پٹھانستان” کہا گیا۔
عبید اللہ سندھی نے 1924ء میں اقبال شیدائی کو خط لکھا تھا جس میں اس علاقے کو "پٹانیہ” کہا گیا ۔

مانکی شریف نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اورنگزیب نے 1928ء میں "آزاد پختونستان انجمن امریکا” کی بنیاد امریکہ میں ہی رکھی، جس میں انگریزوں کے زیرانتظام پختون علاقوں کو "آزاد پختونستان” کا نام دیا گیا۔

برصغیر 1933 کے دوران جب انگریزوں کے خلاف تحریک عروج پر تھی تو چوہدری رحمت علی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خطے کے لئے پاکستان کا نام تجویز کیا جس کے لئے ایک چھوٹا پمفلٹ شائع کیا گیا۔آج شاید بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہوچکا ہو کہ پاکستان کے لفظ میں پ پنجاب، الف "افغانیہ”، ک کشمیر، س سندھ اور تان بلوچستان کے علاقوں کے لئے استعمال کئے گئے تھے۔ آج افغان یا افغانیہ کے نام پر اعتراض کرنے والے کندذہن لوگ شاید بھول گئے ہیں کہ 1933ء میں لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی نے ببانگ دہل افغانیہ کا لفظ استعمال کیا تھا کیونکہ اس خطے میں بسنے والے لوگ افغان ہیں۔

جب تین جون 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو 21 جون کو خدائی خدمتگاروں کا اجلاس بنوں میں منعقد ہوا جس میں پختون علاقے کے لئے نیا نام پختونستان رکھا گیا۔

2010ء میں ایم پی اے نجم الدین خان نے صوبائی اسمبلی مں صوبے کا نام پختونخوا تجویز کرنے کے لئے قرارداد پیش کی جو صوبائی اسمبلی سے پاس کروایا گیا لیکن مسلم لیگ ن نے اس نام کی مخالفت کی۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی نے صوبے کے لئے نیا نام "اسلامستان” اور ہزارہ فرنٹ کے اس وقت کے رہنما بابا حیدرزمان مرحوم نے صوبہ ہزارہ نام رکھنے کا مطالبہ کیا۔

جب اٹھارویں ترمیم کے لئے کوششیں جاری تھیں تو مرکز میں پیپلزپارٹی اور صوبے میں اے این پی کی متحدہ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ صوبے کا نام پختونخوا رکھا جائیگا۔

یہاں تک کہ اس ترمیم کے پاس ہونے سے پہلے ہی پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فلورز پر صوبے کے لئے پختونخوا کا نام استعمال کیا جس کے لئے عوامی نیشنل پارٹی نے کئی دہائیوں تک جدوجہد کی تھی۔

لیکن مسلم لیگ ن کے اعتراض کے بعد پختونخوا کے نام کے ساتھ خیبر بھی شامل کیا گیا اور یوں اسفندیارولی خان کی قیادت میں اے این پی،پیپلزپارٹی کی مشترکہ کاوشوں اور کامیاب حکمت عملی کے بعد 15اپریل 2010ء کو اس صوبے کا نام صوبہ سرحد سے تبدیل کرکے خیبرپختونخوا رکھا گیا۔

نوٹ:۔ “”ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے کے پشتو کتاب سے اردو ترجمہ ہے،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے