حقیقت کو تسلیم کر لینا اور حقیقت سے نبردآزما ہونا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ قوم کبھی ترقی کے دشوار گزار راستوں پر سفر نہیں کرسکتی جو حقیقت سے دور بھاگتی ہو یا جس میں حقیقت کا سامنا کرنے کی اخلاقی جراَت نہ ہو۔
پاکستان میں یوں تو ہم بے شمار بنیادی حقائق سے لاعلم رہتے ہیں یا حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں، جن حقائق کو یہاں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ان میں سے ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست ملک و قوم کے لیے نہیں ہے، یہاں یہ معاملہ اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ ملک میں آمریت کا دور دورہ ہے یا جمہوریت ہے، یہاں مقصد اقتدار کی کرسی ہوتی ہے اور کرسی تک پہنچنے کے لیے راستے کا انتخاب معنی نہیں رکھتا۔
پاکستان میں رائج سیاسی نظام نہ تو ملک و قوم کی ترقی کے لیے ہے اور نہ ہی یہ نظام اسلامی اصولوں کے مطابق ہے،اسلام میں سیاست سے مراد وہ عمل ہے جس سے لوگ فساد سے دور اور اصلاح کے قریب ہوجائیں لیکن ہمارے ہاں سیاست میں جب تک فساد نہ ہو تب تک اسے سیاست مانا اور سمجھا ہی نہیں جاتا۔
سیاست جسے ایک طرح سے پیغمبری مشن کا درجہ حاصل ہے، ہمارے ہاں اس موڑ پر آ پہنچی ہے کہ اگر کوئی بالغ نظر آدمی غلطی سے بھی اس پیغمبری مشن کو لے کر چلنا چاہتا ہے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو مسخروں کی محفل میں کسی سفید ریش کا۔
پاکستان میں سیاست گرداب زوال اور طوفان انحطاط میں ایسے پھنس چکی ہے کہ وہ سیاست جو کبھی علم کی ایک شاخ تھی اب ایک دھبہ بنتی جارہی ہے، سیاست جو کبھی اصولوں، کردار اور نظریہ کا نام تھی اب منافقت، غنڈہ گردی اور مسخروں کا ایک مشغلہ بن کر رہ گئی ہے، سیاست جو کبھی سوچ بچار، عوام کی فلاح وبہبود اور اصلاح قوم کا نام تھی اب فقط مار دھاڑ، مفادات اور عوام کا خون چوسنے کا نام ہوگئی ہے۔
مملکت خداداد میں رائج اس سیاسی نظام کو جمہوری سیاست کہا جاتا ہے اور جمہوریت کی رٹ ایسے لگائی جاتی جیسا بسترمرگ پر پڑا کوئی پیاسا پانی کی رٹ لگاتا ہے، اس جمہوری سیاست کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں نمائندگی عوام کے پاس ہوتی ہے ،عوامی کثرت رائے کے اصول کے تحت ہر علاقے سے نمائندوں کا انتخاب کر کے انہیں پارلیمنٹ بھیجا جاتا ہے ،اس میں مملکت کا ہر فرد اپنی ذاتی حیثیت سے اثر انداز ہوتا ہے، یہی جمہوریت و جمہوری نظام پاکستان میں سالوں سے چلا آرہا ہے۔
اب اگر اسلامی نقطہ نظر سے بات کریں تو اسلام میں اس طرح کے جمہوری نظام کا کوئی تصور نہیں ،اسلام میں حکومت کا تصور بالکل مختلف ہے ،اسلام میں نمائندگی ووٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ اہلیت کی بنا پر اعتماد کی صورت میں اُبھر کر سامنے آتی ہے ۔اہلیت معاشرے میں ایک معلوم و معروف شے ہوتی ہے ،معاشرے کے مختلف طبقوں میں سے مختلف لوگ اپنی اپنی اہلیت کی بنا پر نمایاں ہو جایا کرتے ہیں اور عوامی اعتماد سے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔
جمہوریت مغربی طرز حکمرانی ہے اور اس کی تقلید کے لیئے تمام تر مثالیں بھی مغرب ہی سے لی جاتی ہیں۔جمہوریت خود کوئی نظام بھی نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری جیسے معاشی نظام کو چلانے اور اس کے تخفظ کے لیے ایک طرز حکمرانی ہے ۔ سرمایہ داری اور معاشی استحصال لازم و ملزوم ہوتے ہیں ،اس نظام میں طبقات کا پیدا ہونا اور ان کا برقرار رہنا لازمی ہے،اس نظام کو لانے کے لیے محنت کش طبقہ،انتظامی امور چلانے والا طبقہ اور درمیان میں جھولتے رہنے والا متوسط طبقہ سب لازمی ہوتے ہیں اور ان کے درمیان تضادات اس نظام کے چلتے رہنے کا سبب بنتے ہیں ،جمہوریت انتہائی مکارانہ طریقے سے ان شدت پکڑتے ہوئے تضادات کو کسی حد تک کنٹرول کرتی ہے اور یہ نظام چلتا رہتا ہے۔
پاکستان میں یہ سرمایہ دارانہ ،جمہوری نظام اپنی ارتقائی مراحل سے گزر کر یہاں تک نہیں پہنچا بلکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ نظام پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ورثہ میں ملا ،بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ان روایتی جاگیرداروں اور وڈیروں نے انگریزوں کی غلامی کرکے پاکستان کی حکمرانی حاصل کی اور آج بھی یہی لوگ پاکستانی سیاست پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، آج بھی پاکستانی سیاست میں یہی لوگ اور ان کے بچے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست آج بھی موروثی ہے،آصف علی زرداری کے بعد ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری اس قوم کی قسمت کا مالک، نواز شریف کے بعد ان کی بیٹی مریم نواز کے ہاتھ قوم کی تقدیر، شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز،برسراقتدار جماعت تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو چھوڑ کر باقی سیاسی جماعتوں کا ماضی موروثی سیاست کی لمبی فہرستیں رکھتا ہے اور موروثی سیاست کی روایت اج تک ثواب سمجھ کر آج تک جاری ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس موروثی سیاست ،جاگیردارانہ جمہوری نظام اور سیاسی انحطاط کی وجہ یہ سیاستدان نہیں بلکہ یہ قصور اس سیاسی نظام کا ہے جس کے شکم میں جب درد ہوتا ہے تو ایسے پوت جنم دیتا ہے کہ جو بگولے کی طرح اٹھتے ہیں اور آندھی کی طرح چھا جاتے ہیں اور ہم انہیں لیڈر اور سیاستدان مان لیتے ہیں۔جب تک اس قوم کو سیاست کا مطلب و مقصد سمجھ نہیں آتا یہ نظام یوں ہی چلتا رہے گا ، ایک طبقہ عروج کی بلندیوں کو چھوتا رہے اور ایک طبقہ زندگی کو ترستا رہے گا۔